تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-12-2020

سرخیاں، متن ، ’’گنجی بار ‘‘ اور رانا عبدالرب

آر پار سے مراد جلسہ تھا، جسے حکومت روکنا چاہتی تھی: رانا ثناء
نواز لیگ پنجاب کے صدر اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''آر پار سے مراد جلسہ ہی تھا، جسے حکومت روکنا چاہتی تھی‘‘ اگرچہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ جلسے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گی لیکن گمان تھا کہ سردی کی وجہ سے کہیں جلسہ منسوخ نہ ہو جائے کیونکہ بہت سے رہنمائوں کی سردی کی وجہ سے قلفی جم گئی تھی، اس لیے جلسہ آر بھی تھا اور پار بھی، یعنی درمیان میں ہی لٹکا ہوا تھا کیونکہ اس کے لیے ''جائے ماندن ہمیں حاصل نہ پائے رفتن‘‘ چنانچہ یہ جلسہ یخ پانی میں منعقد ہوا یعنی ع
بحرِ طلسمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
آپ اگلے روز لاہور میں جلسے کی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم اناڑیوں کا ٹولہ، کچھ نہیں بگاڑ سکتا: علی محمد
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم اناڑیوں کا ٹولہ، کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘ جبکہ ہمارے بارے بھی بعض لوگوں کا یہی خیال ہے کہ حکومت اناڑیوں کا ٹولہ ہے اور اپوزیشن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس لیے دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف لگے رہنا چاہیے کیونکہ دونوں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اور جمہوریت کے حسن میں جو روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اسی سے پتا چلتا ہے کہ جمہوریت کس قدر مضبوط ہو رہی ہے، صرف یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ زیادہ اناڑی کون ہے؛ اگرچہ حکومت کے حوالے سے یہ تاثر زیادہ مضبوط ہے لیکن ہم نے کبھی اس پر غرور نہیں کیا۔ آپ اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کر دیں
لاہور میں تاریخی جلسہ ہوا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عوام لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کر دیں، لاہور میں تاریخی جلسہ ہوا‘‘ کیونکہ جس تاریخ کے لیے اس کا اعلان کیا گیا تھا یہ اسی تاریخ کو ہوا، اگرچہ ہم خالی کرسیوں ہی سے خطاب کرتے رہے لیکن کرسیوں کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سارا جھگڑا کرسی ہی کا تو ہے جس کے بغیر سب ادھورا سا محسوس کر تے ہیں حتیٰ کہ اس وقت اپوزیشن کے بیٹھنے کے لیے کرسی تو دور‘ کوئی بنچ یا پھٹہ تک دستیاب نہیں ہے اور جب تک کرسی کا یہ خواب پورا یا اچھی طرح سے منتشر نہیں ہو جاتا یہ جدوجہد جاری رہے گی؛ البتہ کرسی کے بجائے صوفہ بھی دستیاب ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
استعفے کا مطالبہ‘ وزیراعظم ہنستے ہنستے 
کرسی سے نہ گر جائیں: اسد عمر
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ ''استعفے کا مطالبہ، وزیراعظم ہنستے ہنستے کرسی سے نہ گر جائیں‘‘ کیونکہ وہ پہلے بھی ایک بار گرے تھے اور تب انہیں ڈاکٹر کے انجکشن سے پریاں نظر آئی تھیں لیکن فرق اتنا ہے کہ پہلے وہ لفٹر سے گرے تھے اور اب کرسی سے گریں گے لیکن پریوں والا معاملہ ہو کر رہے گا؛ تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن والے جب بھی ان سے استعفے کا مطالبہ کریں تو وہ ہنستے ہنستے کرسی سے گر پڑیں کیونکہ پریاں عام حالات میں تو نظر نہیں آتیں، البتہ جن بھوت یا چڑیلیں ضرور نظر آ سکتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں دیگر وزرا کے ہمراہ گفتگو کر رہے تھے۔
مینارِ پاکستان بھرا ہوا تھا، میڈیا کے کچھ لوگ دبائو 
کے باعث اصل تعداد نہیں بتا رہے: مصدق ملک
نواز لیگ کے رہنما مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''مینار پاکستان بھرا ہوا تھا، میڈیا کے کچھ لوگ دبائو کے باعث اصل تعداد نہیں بتا رہے‘‘ اور ٹی وی پر بھی بار بار وہ جگہیں دکھا رہے تھے جو خالی تھیں، جہاں کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات، اور ان جگہوں کو ہم نے خود ہی خالی رکھا ہوا تھا تاکہ جلسے کو نظر نہ لگ جائے اور جو خالی کرسیاں دکھائی گئی تھیں وہ بھی دراصل خالی نہیں تھیں اور چالاکی سے ایسا کیا گیا تھا کیونکہ کیمرے سے اس قسم کا کرتب دکھایا جا سکتا ہے کہ کرسی تو نظر آئے لیکن اس پر بیٹھا ہوا آدمی غائب ہو جائے، حالانکہ میڈیا والوں کی جتنی خدمت ہم کرتے رہتے ہیں، کوئی اور کیا کرتا ہو گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
گنجی بار (ناول)
یہ شاہد رضوان کی تصنیف ہے جسے چیچہ وطنی سے دانیال شاہد نے شائع کیا ہے اور یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ انتساب ابا جی مرحوم اور بی بی جی مرحومہ کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے ساتھ شاعر، ادیب اور ہمارے دوست پروفیسر غلام حسین ساجد کی کتاب کے بارے رائے درج ہے جس کے مطابق ناول میں گنجی بار ایک سانس لیتا وجود بن کر ابھرتی ہے۔ اس کے باہر کی دنیا بھی اس زمانے کا مزاج اور رنگ لیے ہے۔ کردار نگاری پر توجہ قابلِ قدر ہے۔ خصوصاً آزادی کے جویا کردار ایک دائمی تاثر چھوڑنے پر قادر ہیں۔ معاشرتی ناہمواریوں اور تہذیبی روایت سے جڑی نسبتوں کو عمدہ طریقے سے ابھارا گیا ہے اور جاگیرداری نظام کی بنیاد پڑنے اور بار کی صدیوں پرانی روایات کی شکستگی کے قصے کو بڑی ہنر مندی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے بھی قابلِ قدر ہے کہ ناول نگار نے مکالمے سے زیادہ بیانیے کو پیشِ نظر رکھا ہے جو ناول کے مطالعے کی لپک کو بڑھا دیتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں رانا عبدالرب کی شاعری:
مرے لبوں پہ جو بوسے کی بھیک رکھتے تھے
کسی چٹان پہ گویا عقیق رکھتے تھے
فقط انہی کو اجازت ہے مجھ پہ ہنسنے کی
مرے دُکھوں میں جو خود کو شریک رکھتے تھے
یہی سبب ہے کہ اترا نہیں کوئی اس میں
ہم اپنے دل کا سمندر عمیق رکھتے تھے
کمی ہوئی نہیں محسوس دشمنوں کی کبھی
ہم اپنے ساتھ جو تجھ سے رفیق رکھتے تھے
بچھڑ کے تجھ سے قدم ڈگمگا گئے عبدلؔ
تُو ساتھ تھا تو قدم ٹھیک ٹھیک رکھتے تھے
٭...٭...٭
مطمئن ہوں میں اس خسارے پر
سب لُٹایا ہے اپنے پیارے پر
کس نے رُکنا ہے، کس نے جانا ہے
منحصر ہے ترے اشارے پر
اس کنارے پہ میں اکیلا ہوں
کون ہے دوسرے کنارے پر
تُو پلٹ کر کبھی تو آئے گا
جی رہے ہیں اسی سہارے پر
کس لیے بدگمان ہوتے ہو
نام رکھا ہے جب ستارے پر
وہ قفس تو کبھی کھلا ہی نہیں
ہم نے بیکار ہی سنوارے پر
آنسوئوں کے نشان زندہ رہے
ایک تصویر کے کنارے پر
آج کا مقطع
ظفرؔ میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved