تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     16-12-2020

سانحہ سقوط ِ ڈھاکہ

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قیام کے لیے تحریک پاکستان کے قائدین حضرت قائداعظم محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، حضرت مولانا محمد علی جوہر، حضرت مولانا ظفر علی خاں اور ان کے رفقا نے کئی عشروں تک برصغیر کے طول وعرض میں عوام کو بیدار کرنے کے لیے زبردست جدوجہد کی تھی۔ برصغیر کے طول وعرض میں بڑے پیمانے پر جلسے ، جلوس اور اجتماعات کے انعقاد کے ذریعے رابطہ عوام مہم چلائی گئی۔ بیک وقت انگریزوں کی سامراجیت اور ہندوؤں کی مکاری کا مقابلہ کیا گیا۔ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس آزاد وطن کے حصول کے لیے اپنے گھروں کو خیرباد کہا، بڑی تعداد میں نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا، بوڑھوں کی ڈاڑھیاں لہو میں تربتر ہوئیں، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دوپٹوں کو نوچا گیا۔ بالآخر پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ پاکستان کا قیام جہاں پر برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑی خوشی کا سبب تھا وہیں پر دنیا ئے اسلام میں بھی اس کے قیام کے پر جوش اور جذبات کی ایک لہر کو محسوس کیا گیا۔ مسلم اُمت نے ایک بڑی ریاست کے معرض وجود میں آنے پر اپنی طاقت کو بڑھتا ہوا محسوس کیا۔ دنیا بھر کے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کے لیے پاکستان اُمید کی ایک روشن کرن کی حیثیت اختیار کر گیا۔ 
پاکستان کا قیام ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے طور پر ہوا تھا اور اس کے پس منظر میں دو قومی نظریہ کا ایک طاقتور تصور کار فرما تھا۔ دو قومی نظریہ اس حقیقت کو واضح کرتا تھا کہ برصغیر میں رہنے والے مسلمان ایک علیحدہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اعتقادی، تاریخی اور ثقافتی پس منظر ہندوؤں سے یکسر جدا ہے۔ سینکڑوں برس اکٹھے رہنے کے باوجود دونوں مذاہب کے پیروکار تصورِ حیات کے بارے میں تقسیم رہے اور ان کا مزید اکٹھے رہنا بوجوہ دوبھر ہو چکا تھا اور مزید اکٹھے رہنے سے مذہبی اورتہذیبی تصادم کا شدید خطرہ موجود تھا؛ چنانچہ مسلمانانِ برصغیر نے اپنے قائدین کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے بڑی یکسوئی اور تندہی کے ساتھ ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے منظم ، مربوط اور مسلسل جدوجہد کی اور آزادی کی تحریکوں کے لیے جدوجہد کے ایک مؤثر راستے کو متعین کیا۔ 
پاکستان اپنے قیام کے بعد سیاسی اعتبار سے مختلف طرح کے نشیب وفراز اور مسائل سے نبردآزما رہا ۔ قیام پاکستان کے بعد ایک بڑا مسئلہ‘ جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں سر اُٹھایا‘ بنگلہ اور اُردو زبان کامسئلہ تھا۔ بنگالی قوم پرست بنگالی زبان کو اُردو ہی کی طرح قومی زبان کی حیثیت دینا چاہتے تھے جبکہ باقی صوبوں میں بسنے والے لوگ اس حوالے سے اُردو کو فوقیت دیتے تھے۔ یہ مسئلہ بوجوہ حل نہ ہو سکا جس کی وجہ سے قوم پرست بنگالیوں کو اپنی منفی ذہنیت ظاہر کرنے کا موقع میسر آیا اور قوم پرست رہنماؤں نے بنگالیوں کو احساسِ محرومی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ دائیں بازو کے دین پسند اور محب وطن رہنماؤں نے قوم پرستوں کابھرپور انداز میں مقابلہ کیااور بنگالیوں کو اس بات کا احساس دلایا کہ کلمے اور دین کے رشتے کی وجہ سے لسانی تنازعات کو ہوا دینا مناسب نہیں۔ بنگالی اور غیر بنگالی کی تقسیم میں اضافہ کرنے کے لیے بھارت نے بھی بھرپور جستجو کی اور اس حوالے سے قوم پرست ماہرین تعلیم کو تعصبات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان تمام تعصبات کے خلاف وطن اور دین سے محبت کرنے والے رہنما اور جماعتیں جستجو کرتی رہیں اورا س مزاحمت کے نتیجے میں بڑی حد تک منفی احساسات اور جذبات کا مقابلہ ہوتا رہا؛ تاہم بنگالیوں کے احساسِ محرومی میں اس وقت بہت شدت سے اضافہ ہوا جس وقت 70ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے بھاری اکثریت حاصل کی البتہ مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر دینی اور علاقائی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی۔ جمہوریت کا تقاضا یہ تھا کہ اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کیا جاتا لیکن بدقسمتی سے اکثریتی جماعت کو اقتدار نہ مل سکا جس کی وجہ سے قوم پرستی کے جذبات بھڑک اُٹھے۔ بھارت نے سیاسی تقسیم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عسکری جارحیت کا مظاہرہ کیا۔ مکتی باہنی کے کارکنوں نے موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنگالی قوم پرستوں کی مکمل نمائندگی کی اور بھارت کی سرپرستی میں پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر کی مزاحمت کو سختی کے ساتھ کچلنے کے لیے منظم پلاننگ کی گئی۔ افواج پاکستان نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن بھارت کی مسلح جارحیت نے علیحدگی پسندوں کے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیااور 16دسمبر 1971ء کو ہم اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گئے۔ 
بنگلہ دیش ایک علیحدہ وطن کی حیثیت سے دنیا کے نقش قدم پر اُبھر آیا۔مسلمانانِ عالم کے لیے بالعموم اور مسلمانانِ برصغیر کے لیے بالخصوص یہ المناک خبر شدید دکھ اور کرب کا باعث تھی۔ سقوطِ بغداد اور سقوط ِبیت المقدس کے بعد اسلامی تاریخ کا کوئی سانحہ سقوط ڈھاکہ کی تلخیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک اسلامی جمہوری ریاست کا دو لخت ہو جانا ہر اعتبار سے افسوسناک تھا جس پر محب وطن اور دین پسند عناصر نے مشرقی اورمغربی پاکستان میں بھرپور تحریک چلانے کی کوشش کی لیکن یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی اوروطن سے محبت کرنے والوں کو قوم پرست عناصر کی نفرت اور انتقام کا نشانہ بننا پڑا اور ان کا بدترین استحصال کیا گیا۔ 
ستم کی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد 49 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان سے محبت رکھنے والے عناصر کو تاحال انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے بہت سے رہنما اس وقت قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں ، بہت سے رہنما غیر قانونی سزاؤں کا سامنا کر چکے اور بہت سے رہنماجام شہادت کو نوش کر چکے ہیں۔ موجودہ پاکستان یقینا ہمارے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں جاری رہیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں اور افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کے اتحاد کی وجہ سے بھارتی عزائم پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ 
سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحے میں ہمارے لیے سیکھنے والی بہت سے باتیں موجود ہیں جن میں سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی یکجہتی کے لیے مذہب کو غیر معمولی اہمیت دینی چاہیے‘ اس لیے کہ ایک کثیر القومی ریاست کو یکجا رکھنے کے لیے مذہب کی قوت نمایاں ترین کردار ادا کرتی ہے لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ مذہب کو ایک جوڑنے والی قوت کے بجائے ایک منفی عنصر کے طور پر پیش کرنے کی سازشیں تاحال جاری وساری ہیں، جس کی وجہ سے ملک بھر میں طبقاتی کشمکش کا ایک ماحول نظر آتا ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں نے قرار دادِ مقاصد اور اس کے بعد 73ء کے آئین میں اسلام کی بالا دستی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اس یقین دہانی پر سختی کے ساتھ عمل کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ پاکستان کو لسانی ، قومی اور گروہی تعصبات سے بچایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں انتخابی دھاندلیوں کی باتیں وقفے وقفے سے سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں عمران خان نے دھاندلی کا الزام لگا کر مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد جمعیت علمائے اسلام، پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف بھرپور انداز میں احتجاج کا آغاز کیا۔ پاکستان کا آئین ایک وفاقی پارلیمانی طرزِ حکومت پر یقین رکھتا ہے اور شفاف ،غیر جانبدارانہ اور کسی مداخلت سے پاک انتخابات کا انعقاد یقینا تمام سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے المناک سانحے سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ہمارے ملک میں شفاف اور غیر جانبدارنہ انتخابات کو یقینی بنانے کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ ملک بلاوجہ کی سیاسی کشمکش سے محفوظ ومامون رہ سکے۔ 
سقوط ڈھاکہ کی یاد یقینا پاکستان سے محبت کرنے والے تمام رہنماؤں ، جماعتوں اور عوام کے دل میں دکھ اور غم کی لہر کو پیدا کرتی ہے لیکن ایک عزمِ نو اور وطن کی ترقی اوراستحکام کے لیے جستجو کرنے کا قومی جذبہ اس بات کی امید دلاتاہے کہ ان شاء اللہ پاکستان آنے والے ایام میں ایک مستحکم اور مضبوط ریاست کی حیثیت سے اپنا کردار جاری وساری رکھے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور اس کو دنیا کے مستحکم اور ترقی یافتہ ممالک میں شامل فرمائے۔ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved