تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     16-12-2020

سانحہ آرمی پبلک سکول

کبھی کبھی اقوام کی زندگی میں ایسے سانحات پیش آتے ہیں جو تاقیامت فراموش نہیں کئے جا سکتے۔ سب سے مشکل آزمائش اولاد کی ہوتی ہے، یہ ہم عام انسانوں پر کیا‘ انبیاء کرام علیہم السلام پر بھی آتی رہی۔ مجھے اکثر دل ہی دل میں ایک دکھ تکلیف دیتا تھا کہ میری اولاد نہیں ہے، اللہ نے مجھے اس نعمت سے کیوں محروم رکھا ہوا ہے‘ وہ رحمن و رحیم ہے، اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں لیکن جب 2014ء میں مَیں نے اتنی مائوں کی گود سونی ہوتے دیکھی تو مجھے ایک طرح سے صبر آ گیا۔ اگر اللہ کی جانب سے اولاد مل سکتی ہے اور اللہ واپس بھی لے سکتا ہے۔ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے۔ ہمیں مادی خواہشات پر صبر کرنا چاہیے اس کا اجر ہمیں آخرت میں ملے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مانگی گئی۔ انہوں نے اپنے لخت جگر کو ساتھ لیا اور ہاتھ میں چھری لے کر عرفات کے میدان کی طرف چل پڑے۔ شیطان نے حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ علیہم السلام کو بہکانے کی کئی بار کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ عزمِ خلیل متزلزل نہیں ہوا اور حضرت ابراہیم علیہم السلام نے شیطان کو پتھر مار کر بھگا دیا۔ اسی وجہ سے‘ سنتِ ابراہیمی زندہ کرتے ہوئے حج میں شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ دونوں باپ بیٹا رضائے الٰہی پر راضی رہے۔ جب حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑکو ذبح کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک مینڈھا بھیج دیا اور اس کی قربانی ہوگئی۔ حضرت اسماعیل ؑپر خراش بھی نہیں آئی اور والد اور بیٹا‘ دونوں اللہ کے حضور سرخرو ہو گئے۔ اسی قربانی کی یاد میں فرزندانِ توحید ہر سال سنتِ ابراہیمی کی تقلید کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں۔ ایسے ہی حضرت یعقوب علیہ السلام پر بھی غموں کا پہاڑ ٹوٹا، اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی میں وہ ہر وقت روتے رہتے یہاں تک کہ ان کی بینائی چلی گئی۔ خود ہمارے آخری نبیﷺ نے بھی اولاد کی آزمائش دیکھی اور آپﷺ کے تینوں بیٹے بچپن میں ہی وفات پاگئے۔ آپﷺ کی تسکین کے لئے سورۃ الکوثر نازل ہوئی۔ جب انبیاء کرام علیہم السلام اولاد کی آزمائش سے محفوظ نہیں رہ سکے تو ہم عام انسان بھی اس تکلیف اور دکھ سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
16 دسمبر 2014ء ایک ایسا ہی دن تھا جب قربانی کا لمحہ ہمارے بچوں کے سامنے آگیا۔ ہم نے ان کو محاذِ جنگ پر تو نہیں بھیجا تھا لیکن ان کا سکول میدانِ جنگ بن گیا۔ بزدل دشمن جب ہماری مسلح افواج کو جنگ میں نہیں ہرا سکا تو سکول میں ہمارے معصوم بچوں کو نشانہ بنانے پہنچ گیا۔ اس سانحے میں سکول پرنسپل طاہرہ قاضی اور 12 اساتذہ‘ شہناز نعیم، محمد سعید، نواب علی، سحر افشاں، صائمہ طارق، بینش عمر، صوفیہ حجاب، سیدہ فرحت، حفصہ خوش، سعدیہ خٹک اور حاجرہ شریف شہید ہوئے۔ کالج سٹاف کے 10 ممبران بھی اس دہشت گردی کا نشانہ بنے جبکہ 122 طالبعلم اس ظلم و بربریت کی انتہا میں لقمہ اجل بنے۔ اس کے علاوہ پاک آرمی کے تین اہلکار بھی اس سانحے میں شہید ہوئے جن میں سے دو میڈیکل کور سے تھے جو بچوں کو طبی امداد کا طریقہ سکھا رہے تھے۔ یہاں پر میں لانس نائیک محمد الطاف شہید (تمغۂ جرأت) کا ذکر ضرور کرنا چاہتی ہوں۔ وہ آف ڈیوٹی تھے لیکن فائرنگ کی آواز سن کر وہ سکول کی طرف آئے اور بچوں اور اساتذہ کو بچانے کی کوشش میں وہ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کیا۔ ان کی جرأت اور بہادری کو سلام! 
اس سانحے میں چلے جانے والوں کے لواحقین کی زندگیاں رک سی گئی ہیں۔ وہ آج تک 16 دسمبر 2014ء میں جی رہے ہیں۔ شہدا کے لواحقین صبر کی زندہ مثال ہیں! چار خاندان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سانحے میں اپنے دو‘ دو بیٹے کھوئے ہیں۔ پندرہ سالہ شامویل طارق اور تیرہ سا ل کا ننگیال طارق، نور اللہ درانی اور سیف اللہ درانی، سید عبداللہ اور سید حسنین اور ذیشان احمد اور اویس احمد‘ سگے بھائی تھے جو اس سانحے میں شہید ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق جس وقت دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے تو اس وقت ہال میں نویں اور دسویں جماعت کے طالبعلم ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ لے رہے تھے۔ دہشت گردوں نے ہال میں سب سے پہلے اساتذہ کرام کو نشانہ بنایا اس کے بعد آرمی میڈیکل کور کے ندیم الرحمن انجم اور نوید اقبال کو شہید کر دیا۔ غازی بچوں اور کالج سٹاف کے مطابق: اساتذہ نے کوشش کی کہ بچوں کو بچایا جا سکے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ دہشت گرد اتنے سفاک تھے کے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ طالب علموں کو پوائنٹ بلینک نشانہ بنایا گیا۔ مجھے ایک غازی بچے نے بتایا کہ وہ سب کو مارنے بعد چیک کرتے تھے‘ جو بھی زخمی ملتا‘ اس کو دوبارہ گولیاں مارتے۔ دہشت گردوں کے سکول میں داخل ہونے کے بعد محض پندرہ منٹ کے اندر سکول و کالج میں آرمی آپریشن شروع ہوگیا لیکن اس وقفے میں جو قیامت برپا ہوئی‘ وہ ناقابلِ بیان ہے۔ عجب سماں تھا، ماں باپ دیوانہ وار وارسک روڈ پر بھاگ رہے تھے۔ غازی بچوں اور اساتذہ کو سکول سے متصل پارک میں رکھا گیا۔ ہسپتالوں کے سرد خانوں میں جگہ ختم ہو گئی لیکن شہیدوں کے جسد خاکی آنا بند نہ ہوئے۔ زیادہ تر شہید طالبعلموں کی عمریں پندرہ سے سترہ سال کے درمیان تھیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے لواحقین کی بہادری پوری دنیا نے تب دیکھی جب 12 جنوری 2015ء کو سکول دوبارہ کھلا اور غازی بچوں اور بہادر اساتذہ نے دوبارہ یہاں پر تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا۔ دروازے پر اس وقت کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے خود سب کا استقبال کیا۔ سب یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ اس قوم کی ہمت نہیں توڑی جا سکتی۔
میں نے سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور پر کتاب لکھتے ہوئے بہت سے خاندانوں کے انٹرویوز کئے۔ میں تمام شہدا کی یادیں محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ لواحقین روتے ہوئے انٹرویو مکمل کرتے تھے۔ آج بھی بہت سے خاندان میرے ساتھ ایسے ہیں جیسے میں بھی ان کے خاندان کا حصہ ہوں۔ وہ مجھے شہدا کی تصاویر بھیجتے ہیں‘ مائیں کبھی رو کر اپنا دل ہلکا کر لیتی ہیں تو کبھی شہدا کے بہن بھائی مجھ سے بات کرکے دل کا بوجھ اتار لیتے ہیں۔ جب میں دل گرفتہ ہوتی ہوں تو میں بھی ان سے بات کر کے دل کا غبار نکال لیتی ہوں۔ بکھری ہوئی یادوں کو یکجا کرنا بہت مشکل تھا لیکن اللہ کی مدد سے میں نے سانحہ آرمی پبلک سکول شہدا کی یادداشتیں مکمل کر لیں اور تمام لواحقین کو یہ کتاب بطورِ تحفہ بھجوا دی۔ مجھے بہت سے لوگوں نے ایک بڑی تقریب میں اس کتاب کی رونمائی کا مشورہ دیا لیکن میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا۔ یہ کتاب میں نے شہدا اور لواحقین کے لئے لکھی تھی، انہیں اچھی لگی میرے محنت وصول ہو گئی۔
اس سانحے کے حوالے سے قائم کمیشن نے اس حملے کو سکیورٹی ناکامی قرار دیا تھا۔ اس کمیشن نے چند ماہ قبل ہی اپنی مکمل رپورٹ عدالت کو بھیجی تھی جس نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کمیشن کے روبرو 132 افراد نے اپنے بیانات قلمبند کروائے۔ والدین اب بھی اس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس سانحے میں ملوث تمام افراد کو پھانسی کے تختے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اقوام کی زندگی میں سخت مراحل آتے رہتے ہیں‘ سانحہ آرمی پبلک سکول ایسا ہی ایک سانحہ ہے۔ ہمیں اپنے شہید بچوں، شہید اساتذہ ، شہید ایڈمن سٹاف اور شہید فوجی اہلکاروں پر فخر ہے۔ انہوں نے دہشت گردوں کو حوصلے اور عزیمت کے ساتھ شکست دی۔ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم لواحقین کا غم بانٹیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھیں۔ سولہ دسمبر ایک قیامت تھی‘ جو ہم سب پر گزری، خاص طور پر ان مائوں پر‘ جن کی گود اجڑ گئی۔ ہر آہٹ پر انہیں یہ لگتا ہے کہ شاید ان کا بچہ واپس آ گیا ہے۔ وہ بچے بھی اکثر راہ تکتے ہیں جو ماں کے یا باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔ لواحقین شہدا فورم کے پلیٹ فارم پر اکثر اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے پیاروں کو یاد کرکے کبھی ہنستے ہیں تو کبھی روتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے غم اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہدا کے درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین! بروزِ قیامت لواحقین کے سر پر فخر وانبساط کے تاج ہوں گے، ان شاء اللہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved