مرزا تنقید بیگ کئی دن سے خاصے ''مقبوضہ‘‘ سے ہیں۔ جب بھی اُن کی طبعِ نازک پر کوئی بات گراں گزرتی ہے تب وہ قبض سے ملتی جلتی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ہم اُن کے مزاج آشنا ہیں اس لیے اندازہ لگالیا کہ ضرور کوئی بات اُنہیں اندر ہی اندر کھائے جارہی ہے۔ وہ بات ہے کیا اِس کا ہمیں کچھ اندازہ نہ تھا۔ کل ہم مرزا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُن کی کیفیت دیکھ کر پوچھ لیا کہ آخر بات کیا ہے۔ مرزا نے خاصے دل برداشتہ لہجے میں بتایا ''سوچا تھا بہت دن ہوئے نہ خود خشک میوے کھائے ہیں نہ اہلِ خانہ کو کھلائے ہیں۔ چلئے، کچھ خشک میوے خرید لاتے ہیں۔ آج کل تو سبزیوں اور پھلوں کے دام پوچھنے سے پہلے بھی تھوڑا بہت سوچنا پڑتا ہے کہ بتائے جانے والے دام ہم جھیل بھی پائیں گے یا نہیں۔ ایسے میں خشک میووں کے دام پوچھنا! جو تھوڑی بہت ہمت رہ گئی ہے اُسے بہت مشکل سے جمع کیا اور خشک میووں کے ایک ٹھیلے پر رک کر دام پوچھے۔ یقین کرو جب دام سُنے تو جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ پوری ہوئی یعنی بدحواسی کی تکمیل ہوئی! یقین ہی نہ آیا کہ ہم نے خشک میووں کے دام پوچھے ہیں۔ جو دام ہمیں بتائے گئے وہ تو بالعموم صراف کے ہاں پائے جاتے ہیں یعنی سونے چاندی کے زیورات اور جواہرات کے! دام سُن کر آن کی آن میں خُون خشک ہونے لگا۔ ایک لمحے کو تو ایسا لگا کہ خشک میووں کے دام بتاکر ہمیں آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے! خیال آیا کہ خشک میوے فروخت کرنے والے صاحب کہیں ہم سے کھلواڑ تو نہیں کر رہے! ہم نے پوچھا چلغوزوں کا دام کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ آج کل کوئٹہ والا صاف ستھرا چلغوزہ 1800 سے 2000 روپے پاؤ کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔ پھر اُنہوں نے کہا دس روپے نکالیے۔ ہم نے پوچھا وہ کس بات کے تو بولے چلغوزے کی عظمت اِس میں ہے کہ اُس کے دام بتانے کے بھی پیسے لیے جائیں‘‘۔ ہمارا استدلال تھا کہ فی زمانہ خشک میوے کھانا انسان کو عام سی تر و تازہ اشیا مثلاً سبزیاں وغیرہ کھانے کے قابل بھی نہیں رہنے دیتا! دل خراش حقیقت یہ ہے کہ اہلِ خانہ کی خوشی کی خاطر ایک ایک پاؤ بادام، پستے، کاجو، اخروٹ، انجیر، کشمش وغیرہ خرید لائیے تو گھر کے بجٹ کو دوبارہ متوازن اور مستحکم بنانے میں دو ماہ لگ جاتے ہیں! گویا بقولِ بشیر بدر ع
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سَر لگتا ہے
انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دل کی بات مان کر ایک یا دو دن خشک میووں سے محظوظ ہونے کی خاطر گھر کا پندرہ دن کا راشن کیوں داؤ پر لگایا جائے! صورتِ حال کی نوعیت اور نزاکت دیکھتے ہوئے ہم اِس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب کم از کم چلغوزوں کی حد تک تو معاملہ تصویری رہ جائے گا یعنی گھروں میں چلغوزوں کی تصویریں ٹنگی ہوں گی اور لوگ تصویر دیکھ کر منہ چلاتے ہوئے ''چشمِ تصور کی آنکھ‘‘ سے چلغوزے کھایا کریں گے! اور پھر کچھ عرصے کے بعد بادام، کاجو وغیرہ کی تصاویر بھی گھروں میں ٹنگی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے مرزا سے استفسار کیا کہ آپ کو کس عقل مند نے مشورہ دیا تھا کہ اِس عہدِ پُرفتن میں کہ جب دو وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے اہتمام کرنا بھی جُوئے شیر لانے سے کم نہیں ٹھہرا ہے، خشک میووں کی طرف جائیں۔ مرزا عام طور پر ہماری کوئی بات آسانی سے اور فی الفور نہیں مانتے مگر یہ بات سن کر تھوڑے سے شرمندہ دکھائی دیے۔ ہم نے سوچا ایسے میں مرزا کی تصویر کھینچی جائے تو اچھا کیونکہ وہ کبھی کبھار ہی تو شرمندہ ہوتے ہیں! ایسی کوئی بھی تصویر ہمارے لیے مستقل دل بستگی کا سامنا کرسکتی ہے۔ ہمیں خشک میووں کی عظمت پر رشک آیا کہ اُن کی بدولت مرزا کو قدرے شرمندہ شرمندہ دیکھ لیا! بات ایک آدھ سال کی ہوتی تو ہم آپ برداشت کر بھی لیتے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ کئی سال سے چلغوزے دکھائی بھی نہیں دیے ؎
فریاد کر رہی ہے ترستی ہوئی نظر
دیکھے ہوئے کسی کو زمانے گزر گئے
ٹھیلوں پر خشک میوے فروخت کرنے والوں سے پوچھنے پر جو جواب ملتا ہے اُس کا مفہوم کچھ ہوں ہوتا ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی یعنی یہ کہ ٹھیلے کا باقی مال ایک طرف اور دو کلو چلغوزے ایک طرف! موسمِ سرما آچکا ہے۔ فضا سرد سے سرد تر ہوتی جارہی ہے۔ کہتے ہیں کہ سردی میں چیزیں سکڑتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہوگا مگر ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ بعض اشیا کی قیمتیں سردی کے وارد ہوتے ہی پھیلنے لگتی ہیں اور ایسی پھیلتی ہیں کہ دیکھتے رہنے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہ جاتا۔ مونگ پھلی کی کیا حیثیت ہے؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ والا معاملہ ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن مونگ پھلی کے دام ہمیں شرمندہ ہونے پر مجبور کریں گے۔ اب یہی پھونگ پھلی سینہ تانے ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ کراچی میں سینکی ہوئی مونگ پھلی ڈیڑھ سو روپے پاؤ کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔ ممبئی کی زبان میں کہیے تو مونگ پھلی بھی اب بھاؤ کھا رئیلی ہے! مونگ پھلی بھاؤ کیوں نہ کھائے کہ بادام پستے خریدنے کا خیال ترک کرنے والے اب مونگ پھلی خریدنے سے بھی باز آنے کا سوچنے لگے ہیں!
ایک زمانہ تھا کہ موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی ذہن میں خشک میووں کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھیں۔ چلغوزہ، اخروٹ، بادام، پستے، کاجو، انجیر، کشمش، خوبانی اور دیگر بہت سے خشک میووں کی خریداری کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ مرد و زن، بچے بڑے سبھی شدید سردی میں خشک میووں کے مزے لُوٹنے کے لیے بے تاب دکھائی دیتے تھے۔ اب زندگی نے غریبوں کو اِس طور لُوٹ لیا ہے کہ یہ خشک میووں کے مزے لُوٹنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ کوئی غریب چلغوزے یا بادام پستے کھاتا دکھائی دیتا ہے تو شک گزرتا ہے کہ کہیں ڈاکا تو نہیں ڈالا! خشک میوے پہلے بھی نسبتاً مہنگے ہوا کرتے تھے مگر اب تو اُنہوں نے قیامت ہی ڈھادی ہے۔ یہ ہماری دسترس سے ایسے دور ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس اب (اپنی) بے بسی کے ماتم کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ ایک دور تھا کہ عام آدمی بھی کسی نہ کسی طور تھوڑی سی مقدار ہی میں سہی، تمام خشک میوے چکھ لیا کرتا تھا۔ اب چلغوزے کھانے کے تصور سے بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے۔ بادام، پستے اور کاجو ہر دور میں تھوڑے سے مہنگے ہی رہے ہیں؛ تاہم انجیر عام آدمی کی دسترس میں ہوا کرتی تھی اور اخروٹ بھی۔ اب انجیر بھی آٹھ سو تا ہزار روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔ یہی حال اخروٹ کا ہے۔ جب مونگ پھلی 600 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے تو انجیر اور اخروٹ کے مہنگے ہونے کا رونا رونے کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے؟ معاملات اِس منزل تک پہنچ گئے ہیں کہ کسی سٹور پر خشک میووں کے دام پوچھئے تو دکاندار سر سے پاؤں تک جائزہ لیتا ہے اور حلیے سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ بندہ کچھ لے گا بھی یا محض دل پشوری کر رہا ہے! کبھی کبھی ایسا کوئی خریدار اپنی جان کا دشمن محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ خشک میووں کے دام پوچھنے والے بعض افراد کو دکاندار گھورتے ہوئے زبانِ بے زبانی سے کہہ رہے ہوتے ہیں ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
بعض دکان دار تو ایسی ظالم نظروں سے دیکھتے ہیں کہ خشک میووں کے دام پوچھنے والے کو محسوس ہوتا ہے ع
دل سے تِری نگاہ جگر تک اُتر گئی
اب وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا جب خشک میوے فروخت کرنے والے دکان پر بورڈ لگایا کریں گے کہ کمزور دل اور منتشر و شکستہ اعصاب والے افراد خشک میووں کے دام پوچھ کر صحت کے لیے کوئی بڑا خطرہ پیدا کرنے سے گریز کریں! بعض افراد کے لیے یہ پیغام بھی درج ہوسکتا ہے کہ خشک میووں کے دام پوچھ کر شرمندہ نہ ہوں! تیسری لائن یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ''کشمیر کی آزادی اور شیخ رشید کی شادی تک غریبوں کے لیے خشک میووں کے دام پوچھنا ممنوع ہے‘‘!