تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-12-2020

ایک پنجابی محاورے کے مطابق… (1)

ایمرسن کالج ملتان کو قائم ہوئے کامل سو برس ہو گئے۔ امسال یعنی 2020 میں اس کی سوویں سالگرہ تھی۔ 13 اپریل 1920ء کو جب یہ کالج قائم ہوا تو اس کا نام گورنمنٹ کالج ملتان تھا۔ پھر اس کا نام ملتان کالج ملتان ہوا۔ نومبر 1933 میں اس کا نام تب کے گورنر پنجاب سر ہربرٹ ولیم ایمرسن کے نام پر ایمرسن ڈگری کالج رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں ایک بار پھر اس کا نام تبدیل ہوا اور گورنمنٹ کالج رکھ دیا گیا؛ تاہم اب اس کا نام دوبارہ تبدیل کرکے پرانے نام سے منسوب کرتے ہوئے گورنمنٹ ایمرسن کالج رکھ دیا گیا ہے۔ یہ جنوبی پنجاب کا سب سے قدیم، معتبر اور بڑا کالج ہے۔ میرے لیے فخر کی بات ہے کہ میں اس کالج کا طالب علم رہا ہوں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میرے والد مرحوم عبدالمجید خان ساجد بھی اسی کالج کے گریجویٹ تھے۔ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی کالج میں بطور لائبریرین تعینات ہوئے اور پھر ریٹائرمنٹ تک اسی کالج میں یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کو کالج کے پرنسپل کی درخواست پر دو سال کی ایکسٹینشن دی گئی۔ دو سال کے خاتمے پر انہیں مدت ملازمت میں مزید توسیع کے لیے ایک درخواست بھیجنے کا کہا گیا لیکن انہوں نے مزید توسیع لینے سے انکار کر دیا اور 1987 میں گھر آ گئے۔
ایمرسن کالج کی لائبریری تب جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی لائبریری تھی اور اس میں کتابوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ان میں بڑی نایاب اور قیمتی کتب کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا‘ جسے ابا جی مرحوم نے بڑی مشکلوں سے کتاب کھسکانے والوں سے بچا کر رکھا ہوا تھا۔ ابا جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کالج کی لائبریری کی حفاظت کا ذمہ نئے لائبریرین جناب رشید خان قیصرانی کے سر آن پڑا۔ انہوں نے بھی کتابوں کو بہت سے لوگوں کی دست برد سے بچائے رکھا اور اس پہرے داری پر اگلے تئیس سال بڑی جانفشانی سے ڈٹے رہے۔ رشید قیصرانی صاحب دس مئی 2010ء کو ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ آج ان کی ریٹائرمنٹ کو دس سال سات ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن جنوبی پنجاب کے سب سے قدیم کالج کی سب سے بڑی لائبریری کسی باقاعدہ لائبریرین سے محروم ہے۔ اس کا سارا انتظام گزشتہ دس سال سے اتائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ قیمتی اور نایاب کتب غائب ہو چکی ہیں اور لائبریری کسی اجڑے ہوئے چمن کا منظر پیش کر رہی ہے۔ مرسیڈیز کی ڈرائیونگ سیٹ پر ناتجربہ کار کنڈیکٹر کو بٹھا دیا جائے تو وہ دنیا کی بہترین گاڑی کا بھی دھڑن تختہ کرکے رکھ دے گا۔ سو اس لائبریری کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ جگہ کی قلت اور کتابوں کی زیادہ تعداد کے پیش نظر ایک پرنسپل صاحب نے اس عرصے میں لائبریری کی عمارت میں توسیع کروائی مگر اس توسیع شدہ حصے کو لائبریری کا حصہ بنانے کے بجائے یہاں سٹاف روم بنا دیا گیا۔ یہ شاید دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے کہ ایک سو سال قدیم لائبریری‘ جس میں ایک لاکھ بیس ہزار کتابیں ہیں اور جو ایک نامور تعلیمی ادارے کا قابل فخر خزانہ ہے‘ گزشتہ دس سال سے لائبریرین سے محروم ہے۔ اس سے بڑی بدانتظامی، لاپروائی اور علم و ادب سے دوری کی مثال ملنا محال ہے۔
موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اسی کالج سے فارغ التحصیل ہیں‘ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں اور یہ خوشخبری مجھے اپنے منہ سے اسی دن سنا بھی چکے ہیں جب سولہ ستمبر 2020ء کو وہ ملتان آئے تھے۔ میرا ماتھا اسی روز ٹھنک گیا تھا جب انہوں نے اس تاریخی کالج کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا کہ ہمارے ہاں جتنے کالجز بھی یونیورسٹی کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے ہیں ان کے طلبہ و طالبات اس نام نہاد اپ گریڈیشن سے بری طرح متاثر ہوئے اور یہ ادارے نام کے علاوہ ہر معاملے میں اوپر سے نیچے کی طرف چلے گئے۔ سب سے اہم اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں طالبانِ علم کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی‘ جس کی بنیادی وجہ ان اداروں کی ٹیوشن فیس میں بے پناہ اضافہ ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کے لیے یہ کالجز اپنے بچوں کو معیاری اور سستی تعلیم دلانے کا سب سے قابل قبول ذریعہ تھے لیکن فیسوں میں بے پناہ اضافے نے ان اداروں میں ان کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل تر بنا دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ملتان کے قدیمی گرلز ڈگری کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے سے ہمارے سامنے آئی ہے۔
ملتان کے چوک کچہری پر واقع گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج‘ ملتان میں لڑکیوں کی تعلیم کا سب سے نامور اور قدیم ترین ادارہ ہے۔ فروری 1963ء میں جب جنوبی پنجاب کا قدیم ترین ایمرسن کالج اس عمارت سے بوسن روڈ پر بننے والی نئی عمارت میں شفٹ ہوا تو اس خالی کردہ عمارت میں گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کو منتقل کر دیا گیا۔ ایمرسن کالج کو پرانی عمارت سے نئی عمارت میں اس لیے منتقل کیا گیاکہ اس کالج میں طلبہ کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ پرانی عمارت اس تعداد کو سنبھالنے کے لیے قطعاً ناکافی تھی۔ اس عمارت میں مطلوبہ توسیع بھی نہیں ہوسکتی کہ یہ کالج شہر کے وسط میں تھا اور کسی جانب بھی مزید زمین کا حصول ناممکن ہو چکا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کالج کو کسی کھلی اور بڑی عمارت میں منتقل کر دیا جائے۔ سو اس کالج کو بوسن روڈ پر بننے والی نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور طالبات کو اس خالی ہونے والی عمارت میں شفٹ کردیا گیا۔
1963 سے یہ گرلز کالج اسی پرانی عمارت میں ہے جو انگریزوں کے دور سے تعلیمی ادارے کے طور پر استعمال ہو رہی تھی۔ جنوبی پنجاب کی روایتی قدامت پسندی لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ تھی‘ جس کے باعث یہاں طالبات کی تعداد بہت کم تھی؛ تاہم وقت کے ساتھ یہ تعداد بڑھتی رہی اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ یہاں طالبات کی تعداد تیرہ ہزار سے بھی زیادہ ہو گئی‘ تب اس پرانی عمارت کے علاوہ مزید توسیع بھی کی گئی؛ تاہم حال خراب ہی تھا۔ بجائے اس کے کہ اس قدیمی کالج کیلئے کوئی مزید تعلیمی بلاک بنایا جاتا یا اسے متبادل عمارت دی جاتی گورنمنٹ نے اس کا بڑا آسان حل نکالا‘ 2013ء میں ملتان میں وومن یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا اور اسی پرانے کالج کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ اس کے بڑے 'مثبت‘ اثرات مرتب ہوئے اور طالبات کی تعداد تیرہ ہزار سے کم ہو کر ایک ہزار نو سو تک آ پہنچی۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ جب یہ ادارہ کالج تھا اس کی ٹیوشن فیس ایک ڈیڑھ سو روپے ماہوار سے بھی کم تھی؛ تاہم جیسے ہی یہ یونیورسٹی بنی یہاں سمسٹر سسٹم آ گیا اور چھ ماہ کے سمسٹر کی فیس اکیس ہزار روپے سے زیادہ ہو گئی‘ یعنی سال کے دو سمسٹر کی کل فیس بیالیس ہزار روپے سے تجاوز کر گئی جبکہ اسی تعلیمی ادارے کے ساتھ جب یونیورسٹی کا دم چھلہ نہیں لگا تھا تو یہاں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات سال بھر کی فیس کی مد میں دو ہزار روپے سے بھی کم ادا کرتی تھیں‘ یعنی اس ادارے کے ساتھ یونیورسٹی کی پخ لگنے کے عوض والدین کی جیب پر سالانہ چالیس ہزار روپے کا اضافی بوجھ پڑ گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جو والدین اس بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں تھے، انہوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم سے ہاتھ اٹھا لیا اور شہر کے وسط میں موجود تیرہ ہزار طالبات پر مشتمل کالج جونہی یونیورسٹی بنا اس میں علم کی روشن شمع سے پھیلنے والا اجالا ماند پڑگیا اور یہ تعداد آبادی کے حساب سے ہونے والے اضافے کے برعکس بڑھنے کے بجائے کم ہو کر دو ہزار سے بھی تھوڑی رہ گئی۔ میری دونوں ہمشیرگان نے اسی کالج سے گریجویشن کی تھی۔ تب شاید اس گرلز کالج کی فیس پندرہ بیس روپے ماہوار تھی۔ اب یہی سب کچھ ایمرسن کالج کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved