تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-12-2020

میڈیا رپورٹیں اور جلسہ

حضرت داغ کے دور میں یہ میڈیا نہیں تھامگر 'یاروں‘ سے ان کو وہی شکایت تھی جو آج کل کچھ عوام کو میڈیا سے ہے:
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقین نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے، یار خبر الگ الگ 
اس پر بھی اصرار ہے کہ اس کی ساکھ پر کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ کوئی یہ جسارت کر بیٹھے تواہلِ صحافت کے کچھ حلقے شمشیر بدست، دعوتِ مبارزت دیتے نظر آتے ہیں۔اب عام آدمی کیا کرے؟ کس کی خبر کو جھٹلائے اور کس پر اعتبار کرے؟ پھر ایک تقسیم ملکی اور غیرملکی میڈیا کی بھی ہے۔ عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ غیرملکی میڈیا زیادہ قابلِ اعتبار ہے۔ شاید اس کے پس منظر میں یہ گمان ہے کہ باہر کے میڈیا کے مفادات براہ راست کسی داخلی قوت سے وابستہ نہیں ہوتے۔ کیا معلوم یہ بھی ایک مفروضہ ہو کہ خارجی میڈیا کے نمائندے تو 'داخلی‘ ہیں۔
اب ایک نئی تقسیم عام میڈیا اور سوشل میڈیا کی بھی ہے۔ وہاں سیاسی قوتوں کے اپنے اپنے محاذ ہیں، جو ہردم گرم رہتے ہیں۔ اپنے تئیں سیاسی جماعتوں کے مجاہدین پانچویں نسل کی جنگ (fifth generation warfare) میں مصروف ہیں۔ اس لیے وہاں سے حقائق کشید کرنے کے لیے بھی مہارت چاہیے جو مجھ جیسے ٹیکنالوجی گریز لوگوں کے لیے آسان نہیں۔
میڈیا کو میں تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: خبر، تجزیہ اور کالم۔ خبر میں معروضیت ہونی چاہیے۔ یہ صفت اس کو قابلِ اعتبار بناتی ہے۔ خبر کا معیاریہ ہے کہ اس میں مخبر کاوجود دکھائی نہ دے۔ تجزیہ بھی معروضیت کا تقاضا کرتا ہے مگر اس میں تجزیہ کار دکھائی دیتا۔ یہ اس کی مہارت کا مظہرہوتا ہے۔ کالم سر تا پا کالم نگار کا تاثر اور نقطہ نظر ہے۔ تجزیے میں معروضیت ہوتی ہے جو کالم کے لیے ضروری نہیں۔
کالم اور تجزیے میں فرق مشکل ہے۔ سماج، ریاست اور مذہب سمیت سب امور پرکالم نگار کا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے۔ وہ رائے ساز ہے۔ اس کو اپنا موقف واضح اور بغیر کسی ابہام کے بیان کرنا چاہیے۔ اس سے غیرجانبدار ہونے کا تقاضا نہیں کیا جا سکتا۔ وہ جب کوئی مقدمہ پیش کرتا ہے تو اس کو دلائل سے محکم کرتا ہے۔ یہاں آ کر کالم اور تجزیے کی سرحدیں مل جاتی ہیں۔ کالم کا ایک امتیاز اسلوبِ بیان بھی ہے۔ کالم نگار کا کوئی اسلوب نہ ہو تو لکھنا ایک تکلف بن جاتا ہے۔ کئی کالم نگار ہیں جنہیں محض اسلوب کی وجہ سے پڑھا جاتا ہے۔
دیانت البتہ ایک ایسی چیز ہے جس کا تقاضا سب سے کیا جانا چاہیے کہ اس کے بغیر مخبرہو یا کالم نگار، اس کا اعتبار قائم نہیں ہوتا۔ خبر کی دیانت واقعات کے بیان میں ہوتی ہے۔ رہا تبصرہ یا تجزیہ تووہ غلط ہوتے ہیں یا صحیح۔ اس میں بھی دیانت کارفرما ہوتی ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے کاامکان ہوتا ہے؛ تاہم ان کو پرکھنے کا اصل معیار عقلی ہے اور اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کا تمام تر انحصار قاری کی ذہنی سطح پر ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی اثر انگیزی میں کچھ کلام نہیں لیکن مجھے ابھی تک اسے صحافت کا نمائندہ قراردینے میں تامل ہے۔
لاہور کاجلسہ خبرکا موضوع رہا اور تجزیہ وکالم کا بھی۔ جلسے میں کتنے لوگ تھے، اس کا تعلق خبردینے والے کی دیانت سے ہے۔ اگر ایک اخبار یا چینل ہمیں خبر دیتا ہے کہ عصر کے وقت جلسہ گاہ میں ستر ہزار افراد تھے اور دوسراچینل بتاتا ہے کہ جب جلسہ عروج پر تھا تو اس وقت بھی تین یا چار ہزار لوگ جمع تھے تو دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتے۔
عام آدمی کا ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ سیاسی تقسیم کے نتیجے میں وہ بالعموم کسی ایک دھڑے کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ میڈیا میں وہی کچھ تلاش کرتا ہے جو اس کے موقف کی تائید میں ہو۔ اس مرحلے پر عوام کو درست رائے قائم کرنے کے لیے ذمہ داراور دیانت دار میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کم از کم خبر کی حد تک اسے صحیح بات بتائے۔ وہ عام آدمی تک سچی خبر پہنچائے کہ ایک جلسے میں کتنے افراد شریک تھے۔
کیا پاکستان میں ایسا میڈیا موجود ہے؟ کاش میں آسانی کے ساتھ اس سوال کا جواب دے سکتا۔کچھ سال پہلے تک ایسا نہیں تھا۔ کوئی نہ کوئی اخبار ایسا ضرور موجود ہوتا تھا جس کی خبر کی حقانیت پر عمومی اتفاق ہو تاتھا۔ اُن دنوں میں بھی جبر کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اخبارات بند کر دیے جا تے تھے۔ ایک دورہم پر ایسا گزرا کہ عوام کے پاس غیرحکومتی موقف جاننے کے لیے کوئی متبادل ذریعہ ابلاغ نہیں تھا۔
پھر ایک وقت آیا کہ بی بی سی ریڈیو نے ایک متبادل فراہم کیا۔ 1977ء کی تحریک کی خبریں ہم تک بی بی سی کے ذریعے ہی سے پہنچتی تھیں۔ بی بی سی تک رسائی کے لیے کم از کم دو بینڈ کا ریڈیو ضروری تھا۔ یہ ریڈیو سب کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ جس کے گھر میں ہوتا، رات آٹھ بجے لوگ جمع ہو جاتے۔ خبر کا تیسرا دور وہ ہے، جس سے ہم آج گزر رہے ہیں۔
معاملات پہلے جیسے ہی ہیں مگر ان کی صورت بدل گئی ہے۔ آج اسے ایک اور طرح سے کنٹرول کیا جاتا ہے جسے میڈیا مینجمنٹ کہتے ہیں۔ اس کی سب سے اچھی مثال 2014 ء کا دھرنا تھا۔ یہ کام ظاہر ہے کہ ریاست ہی کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو دہرا فائدہ ہوا۔ ایک طرف میڈیا اس کی خدمت پہ لگا دیا گیا اور دوسری طرف سوشل میڈیاکا بروقت استعمال کیا گیا۔ یوں رائی کا پہاڑ بنا لیا گیا۔ نون لیگ کو سوشل میڈیا کی افادیت کا خیال آیا مگر تاخیر کے ساتھ۔
عام آدمی کیا کرے؟ ان حالات میں خبر کی سچائی تک کیسے پہنچے؟ میں شاید اس کا دوٹوک جواب نہ دے سکوں؛ تاہم یہ بتاسکتا ہوں کہ میں اس صورت حال میں کیا کرتا ہوں۔ خبر کے معاملے میں، میں غیرملکی میڈیا کو ترجیح دیتاہوں۔ پھران تجزیہ نگاروں کو پڑھتاہوں، برسوں کے مطالعہ کے بعد میں جن کی دیانت اور صحافیانہ مہارت پر اعتبار کرتا ہوں۔
مثال کے طور پر میں نصرت جاوید صاحب کی خبر اور تجزیے دونوں کومعتبر مانتا ہوں۔ سماج اورریاست کے بارے میں، میں ان سے مختلف موقف رکھتا ہوں؛ تاہم اس کا تعلق زاویہ نظر سے ہے، دیانت یا تجزیے کی صلاحیت سے نہیں۔ ان کے الفاظ مستعار لوں تو وہ 'ذات کے‘ رپورٹر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک واقعے سے جڑی خبریت کو کس مہارت اور دیانت سے بیان کرنا چاہیے۔ مقامی اور عالمی سیاست پر نظر رکھنے کے سبب وہ ایک واقعے کوسلسلۂ واقعات کی ایک کڑی کے طور پر دیکھتے اور یوں اکثر صحیح نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ لاہور کے جلسے کے بارے میں، میں نے غیرملکی ذرائع ابلاغ کی خبریں دیکھیں۔ نصرت جاوید نے دو دن لاہور میں گزارکر اس جلسے کی تیاریوں اور جلسے کو بچشمِ سردیکھا اور اس جلسے پرایک سے زائد کالم لکھے۔ ان کے علاوہ بعض دوسرے ذرائع سے حاصل شدہ معلومات، کورونا اورموسم کی شدت کو سامنے رکھتے ہوئے، میں لاہور کے جلسے کو تاریخی سمجھتا ہوں۔ حکومتی صفوں کا اضطراب میری اس رائے کو تقویت پہنچارہا ہے۔
میرے لیے باعثِ حیرت یہ نہیں کہ لوگ کیوں نکلے، باعثِ حیرت یہ ہے کہ باقی گھروں میں کیوں بیٹھے ہیں؟ مہنگائی کے اس عالم میں، جب عام آدمی کیلئے جینا دوبھر ہو گیا ہے، لوگ اگر اندر بیٹھے رہیں تو یہ بے حسی کی علامت ہے یا ایک حد سے بڑی ہوئی مایوسی اور خوف کی۔ مایوسی حالات سے اور خوف نادیدہ قوتوں کا۔ اس صورتحال میں سب کو سوچنا ہو گا کہ عوام تک سچ پہنچانا اور انہیں خوف اور مایوسی کے حصار سے نکالنا ہے یا اِن کے حوالے کرنا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved