ہر قوم کو محض اپنے محسنوں سے محبت اور اپنے دشمنوں سے نفرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی صفوں میں موجود بڑے کرداروں کا تذکرہ بھی کرنا چاہئے ۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ تاریخ دہرائی نہ جا سکے۔ پاکستان میں تو یہ کام اس لئے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ملک کو توڑنے والے کرداروں کو جب سیاسی طاقت ملی تو انہیں اس وقت کے حالات کو اپنے سیاسی مقاصد اور ذاتی منشا کے مطابق پیش کرنے کا موقع مل گیا۔ ''گم شدہ کتاب‘‘ کے عنوان کئی ماہ پہلے ایک کالم قارئین کی نذر کیا تھا‘ فرصت ملے تو وہ پڑھئے۔ ہمارے لئے دسمبر کا مہینہ دیگر مہینوں اور دنوں سے مختلف ہے۔ ہم نے پاکستان کو ٹوٹتے دیکھا۔ یاد آتی ہے تو دل بوجھل ہو جاتا ہے۔ اب تو رونے کی بھی ہمت نہیں رہی۔ یہ مضمون لکھنے کی میرے پیشِ نظر دو وجوہات ہیں۔ ایک‘ تاریخی حقائق کو آپ کے سامنے رکھا جائے‘ تاکہ آپ دوست اور دشمن کی تمیز کر سکیں۔ دوسرے‘ اپنے قومی المیوں کو میری نظر میں قومی سطح پر بھولنے کے بجائے اپنی یادداشتوں میں گہرا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سال دسمبر میں دانشوروں‘ تاریخ دانوں اور ہمارے سیاست دانوں میں سے جنہیں علم و دانش سے کچھ واسطہ ہے‘ انہیں مل کر مجالس کا انعقاد کرنا چاہئے۔ رائے سب رکھتے ہیں اور آرا پر کوئی اعتراض نہیں‘ اور سب کی آرا ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں۔ ایک دوسرے کی رائے کو توقیر دیں گے تو قومی مکالمہ ممکن ہو سکے گا‘ لیکن تاریخی حقائق کو تو ہم تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں سولہ دسمبر کی تاریخ بس یونہی خاموشی سے گزر جاتی ہے۔ کہیں اور یہ سب کچھ ہوتا تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ سب جگہ نہیں تو کم از کم کچھ دانش گاہیں اور تحقیقی ادارے ہی کوئی سیمینار منعقد کر لیں اور نئی نسلوں کو ان ماہ و سال کے واقعات اور سیاسی اور فوجی قیادت نے جو کچھ کیا‘ اور جو کچھ وہ نہ کر سکے‘ اس سے آگاہ رکھیں۔ ہمیں فلسطینیوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے‘ وہ ہر سال پندرہ مئی کو ''یومِ نکبہ‘‘ مناتے ہیں‘ یعنی قومی سوگ کا دن۔ دکھ اور غم بھی انسانوں اور قوموں کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ کون ہے جس کے دامن میں خوشیوں اور المیوں کی ملی جلی یادیں اور واقعات نہیں۔
اگرتلہ کی سازش سے اس مضمون کا سلسلہ شروع کرتے ہیں؛ اگرچہ اس سے پہلے کا سیاسی پس منظر خصوصاً آزادی کی پہلی دہائی کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ اگرتلہ بھارت کی ریاست تری پورہ میں واقع شمال مشرقی علاقوں میں دوسرا بڑا شہر ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ دسمبر 1967 کے آخری دنوں میں مشرقی پاکستان سے چونتیس شہری‘ جن میں شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے‘ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں سے ملنے گئے۔ مقصد ان کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی منصوبہ بندی‘ وسائل کی فراہمی‘ بھارت کی حمایت اور ضرورت پڑنے پر محفوظ ٹھکانوں کا حصول تھا۔ چھ جنوری 1968 کو پاکستان کے محکمہ داخلہ نے اگرتلہ سازش کے بارے میں ایک مختصر پریس نوٹ کے ذریعے عوام کو اطلاع دی۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے سے پہلے‘ آٹھ ملزمان گرفتار کئے جا چکے تھے‘ جن میں سول سروسز آف پاکستان کے دو افسر بھی شامل تھے۔ ان گرفتار ہونے والوں میں نہ تو شیخ مجیب الرحمن شامل تھے‘ اور نہ ہی اس وقت تک ان کے خلاف مقدمہ بنایا گیا تھا۔ جب جنوری میں سازش کے بے نقاب ہونے کا اعلان ہوا تو مجیب الرحمن کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور ان کا نام بھی غداری کے مقدمے کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔
1968 میں ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف آہستہ آہستہ جذبات کا الائو بڑھ رہا تھا۔ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی نسبت احساسِ محرومی‘عدم مساوات‘ جمہوریت کی پامالی اور اقتصادی استحصال کے بیانیے زوروں پر تھے۔ مرکزی حکومت اپنی ساکھ گنوا بیٹھی تھی۔ صحافیوں اور دانشوروں پر پکڑ دھکڑ کی تلوار لٹکتی رہتی تھی۔ ہر دور میں حکومتوں کے پاس وسائل کی کمی نہیں رہی اور نہ ہی حکومت کے گن گانے والوں کی۔ آمریت کے ادوار میں تو گماشتوں کی ضرورت اور زیادہ رہی کہ ان کے بغیر حکمرانوں کی تصویر کے نقوش عوامی منظر نامے پر آب و تاب کے ساتھ ابھر نہیں سکتے تھے۔ حکومتی اداروں‘ سرکاری صحافیوں اور دانشوروں کی طرف سے اگرتلہ سازش کے بارے میں جو کہا گیا اور جو کچھ لکھا گیا‘ مشرقی پاکستان میں ایک مذاق سمجھ کر ٹال دیا گیا۔ وہاں کا سیاسی کارکن اور صحافی حکومت کی طرف سے کسی بھی خبر پر یقین کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ حکومت یا حکمران طبقہ سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں اگر عوام کا اعتماد جاتا رہے۔ مشرقی پاکستان میں الٹا اثر یہ ہوا کہ اگرتلہ کیس کو حکومت کی طرف سے سازش قرار دیا جانے لگا۔ دلیل یہ دی گئی کہ ایوب خان کی حکومت بنگالی قوم پرستوں پر ناحق غداری کا لیبل لگا کر انہیں بدنام کر رہی ہے‘ اور یہ بھی کہ ان کو سلاخوں کے پیچھے بند کر کے حقیقی رہنمائوں کو مشرقی پاکستان کے عوام سے دور رکھا جا رہا ہے۔
اگرتلہ سازش کیس میں ملوث لوگوں کے بارے میں عوام میں خبریں پھیلیں کہ انہیں عقوبت خانوں میں رکھا جا رہا ہے‘ اذیت دی جا رہی ہے اور انتہائی ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت اور اس کے حامی سماجی اور سیاسی حلقوں نے اگرتلہ سازش کو الٹا ایوب خان کی حکومت کے خلاف موثر طریقے سے استعمال کیا۔ ان کے بیانیے میں مغربی پاکستان کے حکمران اور آمرانہ حکومت سب اکٹھے تھے۔ کیا الزام غلط تھا؟ کیا مجیب الرحمن اور ان کے ساتھی بھارت کے ساتھ ساز باز نہیں کر رہے تھے؟ اب تو تاریخ کے ان اوراق سے تعصب اور سیاست بازی کی گرد جھڑ چکی ہے۔ حقائق تو اس وقت بھی یہی تھے کہ سازش ہوئی تھی اور جن لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا‘ جو گرفتار ہوئے اور عدالتوں میں گھسیٹے گئے‘ ان کے خلاف ثبوت موجود تھے‘ لیکن شیخ مجیب الرحمن اور دیگر رہنمائوں نے الزامات کی صحت سے انکار کیا۔ اس واقعہ کے ایک سال سے بھی کم عرصہ بعد ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑ گئی۔ آغاز طلبا کی تحریک سے ہوا‘ جس میں یہ ناچیز بھی آگے آگے تھا۔ ایوب خان کی آہنی گرفت پگھلنے لگی تو سیاسی جماعتوں نے بھی حوصلہ پکڑا اور میدان میں آ گئیں۔ ایوب خان کے بارے میں آپ کی جو بھی رائے ہو‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تحریک کے دوران پُرامن انتقالِ اقتدار کے لئے مخلص تھے۔ گول میز کانفرنس کا اہتمام نوابزادہ نصراللہ خان نے کیا تھا کہ ایوب خان کے ساتھ بیٹھ کر اگلے انتخابات اور ان کی سبکدوشی کا فیصلہ کیا جا سکے اور سیاسی ماحول کو ٹھنڈا کیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کسی بھی صورت میں اپنے سابق مربی کے ساتھ ایک میز پہ آنے کو تیار نہ ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمن نے یہ شرط لگائی کہ اگرتلہ سازش کیس سب ملزمان کے خلاف ختم کیا جائے۔ ایوب خان‘ جو کسی زمانے میں گرجتے تھے‘ اب نحیف آوازمیں ''ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے۔ علیحدگی پسندوں کیلئے اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی تھی کہ جس سازش کو وہ حکومت کی گھڑی گئی الزام تراشی کہتے رہے‘ خود حکومت نے اسے سیاسی مصلحت کیشی میں لپیٹ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔
فروری 2011 میں بنگلہ دیش کی پارلیمان کے رکن شوکت علی نے کھل کر بات کہہ دی کہ اگرتلہ سازش جھوٹ نہیں حقیقت تھی۔ مجیب الرحمن اور محمد علی رضا بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے بھارت کی حمایت حاصل کرنے اگرتلہ تشریف لے گئے تھے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سیاسی قائد عوام میں جڑیں بنا لیں تو حکومتیں جو بھی کہتی رہیں‘ زمینی سطح پر سچ اور جھوٹ کے معیار بدل جاتے ہیں۔ آمریت کی ''سچائیاں‘‘ ایسے ہی جھوٹ میں بدلتی رہی ہیں۔