پچھلے کئی دنوں سے ایک ہی بات موضوع بحث ہے کہ13 دسمبر کو پی ڈی ایم کے جلسے میں کتنے آدمی تھے؟ پوری قوم اس سوال کا جواب ایسے ڈھونڈنے میں لگی ہے جس طرح رویت ہلال کمیٹی 29 رمضان کو عید کا چاند تلاش کرتی ہے۔ حکومت اور ان کے حمایتی اسے ناکام جلسہ قرار دینے کے لئے ان تمام اینگلز سے تصاویر اور فوٹیجز پیش کرتے رہے جہاں سے مینارِ پاکستان میں پی ڈی ایم کا پنڈال خالی نظر آ سکے جبکہ پی ڈی ایم اور اس کے حامی بھرپور کامیاب جلسے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔ مریم نواز نے اس کنفیوژن کا الزام حکومت اور اس کے حمایتی چینلز پر لگا دیا کہ ابھی پی ڈی ایم قیادت جلسہ گاہ پہنچی بھی نہیں تھی جب کچھ چینلز نے دن12 بجے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ صرف تین یا چار ہزار لوگ ہیں۔ ''پی ڈی ایم کا فلاپ شو‘‘ بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ خیر یہ مریم نواز کا مؤقف ہے۔ گو کہ یہ پی ڈی ایم کے سابقہ جلسوں کی طرح ایک مناسب جلسہ تھا لیکن 'مسلم لیگ کے لاڑکانہ‘ کے طور پر لاہور اور لاہوریوں سے جو توقعات باندھی گئی تھیں‘ مریم نواز نے جس طرح لاہور میں ریلیاں نکال کر مسلم لیگ ن کے ووٹرز کو دعوت دی تھی‘ جس پر انہیں شیخ رشید کا طعنہ بھی سہنا پڑا‘ وہ توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ اگر لاہور میں مسلم لیگ ن کے 10 ایم این ایز اور 22 ایم پی ایز کے ووٹوں کا دس فیصد بھی مینارِ پاکستان پہنچ جاتا تو یہ لاکھوں سے کم کا مجمع نہ ہوتا بلکہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مریم نواز کے ساتھ صرف حمزہ شہباز موجود ہوتے تو شرکا کی تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ مریم نواز ابھی جس پراسیس سے گزر رہی ہیں‘ حمزہ شہباز ان گلیوں سے 20 برس پہلے گزر چکے ہیں۔ حکومت نے رد عمل میں ن لیگی رہنماؤں پر ایف آئی آرز درج کرا دی ہیں اور ساتھ ہی مینارِ پاکستان میں توڑ پھوڑ پر ایک کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھی جلسہ منتظمین کو بھجوا دیا ہے۔ ابھی لاہور جلسے کے متوقع کامیابی سے نیچے رہنے پر پارٹی کے اندر بحث و تمحیص جاری ہے کہ مسلم لیگ ن نے نہ رکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لانگ مارچ سے پہلے مریم نواز کی قیادت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس فیصلے پر کئی ن لیگی رہنما شش و پنج کا شکار نظر آتے ہیں۔ شیخوپورہ سے ن لیگی ایم این اے میاں جاوید لطیف کہتے ہیں کہ پارٹی پر لیڈرشپ کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ کئی پارٹی رہنما ''مخصوص‘‘ رابطوں میں ہیں اور وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں جس کا خواجہ سعد رفیق کو علم ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر احتساب ہونا چاہیے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پارٹی اجلاس کے اندر کس قسم کی باتیں ہوئی ہوں گی۔ جتنا کچھ میاں جاوید لطیف نے بتایا‘ شاید اس سے کہیں زیادہ ہوا ہو گا۔ ایسے میں ایک نئے محاذ پر نکل جانے کا مقصد شاید پارٹی کو مزید بے چینی سے بچانا ہے۔ اس سے مریم نواز دو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں یا پھر ان کے صلاح کاروں نے انہیں یہ مشورہ دیا ہو گا کہ ایک تو پارٹی پھر سے متحرک ہو جائے گی، دوسرا نچلی سطح پر ان کی گرپ بھی مضبوط ہو گی اور لوگ ان سے شناسا ہو جائیں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق لاہور جلسہ میں لوگوں کی عدم شرکت کی وجہ مسلم لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتوں کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ تھا اور یہ ایک طرح سے عوام کا فوج کے حق میں ریفرنڈم تھا کیونکہ اب تک مسلم لیگ ن کو پرو اسٹیبلشمنٹ جماعت کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اس کا پارٹی ووٹر بھی ایسے خیالات رکھتا ہے۔ مریم نواز کی ریلیوں کی صورت میں 31 جنوری تک مہم چلانے کا ایک محور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کے تناظر میں کار فرما سوچ کو پورے ملک تک وہ خود لے کر جائیں اور ان کا امیج ایک سول سپریمیسی کی حامل سیاسی لیڈر کا بنے۔
لاہور کے جلسے سے قبل مریم نواز کے لیے تیار کیا گیا کنٹینر بھی دکھایا گیا تھا جس میں آرام و طعام کی تمام تر جدید سہولتیں موجود تھیں۔ قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان ریلیوں کا فیصلہ جلسے سے قبل ہی کر لیا گیا ہو لیکن یہاں کچھ سوالات ابھرتے ہیں۔ مریم نواز جو کچھ کرنے جا رہی ہیں‘ کیا ان کے پارٹی صدر شہباز شریف ان کی اس مہم سے متفق ہوں گے؟ کیا ان ریلیوں اور اس بیانیہ کو ان کی اشیرباد حاصل ہے؟ بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ وہ موجودہ حالات میں کسی بھی طرح کسی کے ساتھ تصادم کی راہ پر نہیں جانا چاہتے۔ بلاول بھٹو جب کوٹ لکھپت جیل میں ان سے ملنے گئے اور مستقبل کی سیاسی مشاورت کی تو انہوں نے بلاول کی تجاویز کے برعکس ڈائیلاگ کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ پی ڈی ایم کے استعفوں پر بھی شہباز شریف کی رائے مختلف تھی۔ ان کے خیال میں یہ سب سے آخری آپشن ہونا چاہیے بلکہ شہباز شریف کے مطابق میاں نواز شریف بھی سندھ اسمبلی کی فوری تحلیل نہیں چاہتے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی دراصل یہی بیانیہ رہا ہے کہ کوئی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کیا جائے جس سے جمہوریت ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہو۔
ماضی میں بے نظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے مذاکرات کے ذریعے ہی این آر او لیا تھا۔ سابق صدرآصف زرداری جہموریت کو بہترین انتقام قرار دیتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جتنی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی شاید کم ہی پارٹیاں ایسا ٹریک ریکارڈ رکھتی ہیں۔ بلاول‘ شہباز ملاقات کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا جبکہ مسلم لیگ ن کی آر یا پار والی سیاست کو نقصان پہنچے گا۔ مریم نواز پی ڈی ایم کو ہوا کے جس رخ پر اڑا کر لے جانا چاہتی تھیں‘ اس کی شاید ان میں صلاحیت بھی موجود ہے مگر اب ہوا کا رخ بدلتا نظر آ رہا ہے۔ جو لوگ پتنگ بازی کے فن کے ماہر ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پتنگ اُڑاتے ہوئے اچانک ہوا کا رخ بدل جائے تو ڈور ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور بعض اوقات پتنگ‘ اڑانے والے کے کنٹرول سے نکل کر دھڑام سے زمین پر آ لگتی ہے۔
اندرونِ خانہ یہ خبریں گردش میں تھیں کہ پیپلز پارٹی استعفوں سے گریزاں ہے۔ اب شہباز شریف کی سیاسی سوچ سے انہیں سکھ کا سانس میسر آیا ہے بلکہ دھندلے سیاسی منظر نامے میں کچھ چیزیں آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت اور سینیٹ میں اپنی موجودگی بہرحال عزیز ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں وہ ہیں جن کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں۔ ایسے میں حکومت نے قبل از وقت سینیٹ کے انتخابات کی بات کر کے اپوزیشن اتحاد کو ایک اور مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اگر اپوزیشن اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت تحریک چلاتی ہے تو امکانی طور پر حکومت سینیٹ کا محاذ پہلے سے سر کرنے کی کوشش کرے گی۔ بصورت دیگر اپوزیشن کو اپنی آئندہ حکمت عملی پھر سے ترتیب دینا ہو گی۔ متفقہ استعفے اور لانگ مارچ کی حکمت عملی دوبارہ بنانا پڑے گی۔ اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ لانگ مارچ میں تمام جماعتیں بھرپور شرکت کریں تاکہ کل کو یہ مسئلہ پھر سے کھڑا نہ ہو جائے کہ ''کتنے آدمی تھے؟؟‘‘