تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     17-12-2020

سرخیاں، متن اور یاسمین سحر کی شاعری

پی ڈی ایم میں دراڑ نہیں، استعفے ایٹم بم ثابت ہوں گے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم میں کوئی دراڑ نہیں، استعفے ایٹم بم ثابت ہوں گے‘‘ اور ایٹم بم سے جو تباہی مچے گی، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے، اور یہاں بھی وہی کچھ ہو گا جو ہیرو شیما میں ہوا تھا کیونکہ اگر ہم نے احتساب اور مقدموں ہی کے رحم و کرم پر رہنا ہے تو اس سے طبلِ جنگ بجانا بہتر ہے اور مقدمات سے جان چھڑانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہو گا کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری بلکہ اینٹ سے اینٹ بھی بج جائے گی جس سے والد صاحب کا قول بھی پورا ہو جائے گا، اور ان کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائے گا اور عوام کی جان اس حکومت سے چھوٹ جائے گی۔ آپ اگلے روز جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم کی ویٹو پاور بچوں کے ہاتھ میں ہے: حافظ حسین 
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم کی ویٹو پاور بچوں کے ہاتھ میں ہے‘‘ اور یہ بچے وہ ہیں جو عقل کے بھی کچّے ہیں اور کانوں کے بھی جبکہ یہ پاور مولانا صاحب کے پاس ہونی چاہیے تھی جنہیں‘ محسوس ہوتا ہے کہ بس نمائشی طور پر سربراہ بنایا گیا ہے اگرچہ وہ خود بھی اس پر راضی ہیں کہ گندم اگر بہم نہ رسد، بھس غنیمت است؛ تاہم ہم پریشان ہیں کہ پارٹی پر یہ دن بھی آنا تھے جبکہ دونوں بڑی پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ انہوں نے مولانا کو پی ڈی ایم کا سربراہ بنایا ہے جبکہ پی ڈی ایم کی لگام بچوں کے ہاتھ میں ہے اور پی ڈی ایم اس سے بے لگام ہی اچھی تھی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
مقدمات حکومت کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہیں: نفیسہ شاہ
پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ ''مقدمات حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا ثبوت ہیں‘‘ حالانکہ حکومت کو بُردباری اور برداشت کا ثبوت دینا چاہیے جیسا کہ ہم کر رہے ہیں کہ مفتی محمود اور اچکزئی نے ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں عملی کردار ادا کیا تھا لیکن ہم نے انہیں گلے سے لگا رکھا ہے کیونکہ اس سے جتنا فائدہ ہم نے اٹھانا تھا‘ اٹھا چکے ہیں اور اب انہیں ایک قصۂ پارینہ سمجھتے ہیں بلکہ ہم نے بی بی کے قاتلوں کے خلاف بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی، حتیٰ کہ ان کے مقدمۂ قتل میں بھی کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے ہماری فراخ دلی کا ثبوت ملتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں، استعفے کب
دینے ہیں، دینے بھی ہیں یا نہیں: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں، استعفے کب دینے ہیں، دینے بھی ہیں یا نہیں‘‘ یہ صرف گیدڑ بھبکیاں ہیں ورنہ ہم تو دعائیں مانگ رہے ہیں کہ یہ استعفے دیں اور ہمیں کھل کھیلنے کا موقع ملے۔ اگرچہ پہلے بھی ہم کافی کھل کھیل رہے ہیں کیونکہ ہمارا کِلّہ قائم ہے اور پی ڈی ایم والوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے اور یہ وہی کلّہ ہے جس پر دونوں بڑی پارٹیاں باری باری اٹھکیلیاں کیا کرتی تھیں اور سمجھتی تھیں کہ وہ ہمیشہ ہی اس کلے سے بندھی رہیں گی جس طرح ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ کلہ اب ہمارے ہی لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔ مذکورہ دونوں پارٹیوں کی خوش فہمی تو دور ہو گئی ہے؛ البتہ ہماری ابھی تک باقی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اپوزیشن خود دبائو میں‘ حکومت کو کیا دبائو میں لائے گی: ندیم افضل 
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن خود دبائو میں آ گئی، حکومت کو کیا دبائو میں لائے گی‘‘ اور اس دبائو کی بڑی وجہ شیخ رشید کی ذاتِ بابرکات ہے کیونکہ ابھی انہوں نے وزارتِ داخلہ کا چارج بھی نہیں سنبھالا تھا کہ جلسۂ لاہور فلاپ ہو کر رہ گیا اور ہمیں یقین ہے کہ اپوزیشن اسی طرح اُن کے دبائو میں رہے گی اور اُن کا لانگ مارچ بھی کامیاب نہیں ہو گا اور استعفوں کی بھی نوبت نہیں آئے گی اور اگر آ بھی گئی تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
کچھ رہنما وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں: جاوید لطیف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''ہمارے کچھ رہنما وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں‘‘ تا کہ اگر ایک طرف سے ناکامی ہو تو دوسری طرف سے ہی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب ہو سکے؛ تاہم میاں شہباز شریف اور مریم نواز وکٹ کے ایک ہی طرف اور اپنی اپنی گیم کھیل رہے ہیں، تاہم شہباز شریف ایک دو شاٹس دوسری طرف بھی جا کر مار لیتے ہیں، تاہم سکور کسی سے بھی نہیں بن پا رہا اور آئوٹ وہ کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں جبکہ لندن میں بیٹھے ٹیم کے کپتان الگ پیچ و تاب کھا رہے ہیں کہ اگر یہ اَن فٹ تھے تو بہتر تھا کہ ریسٹ کر لیتے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یاسمین سحر کی شاعری:
طے ہوا تھا کہ ہجر جھیلوں میں
اس کھلونے سے کھیلوں شیلوں میں
بھوک تو ختم ہونے والی نہیں
روٹیاں اور کتنی بیلوں میں
اور تو کوئی کام شام نہیں
چھت پہ کوّوں کو ہی غلیلوں میں 
کتنے ماروں میں ہاتھ پائوں اور
اور کتنا ہوا سے کھیلوں میں
زندگی روک بڑھتے قدموں کو
اپنی مرضی کے سانس لے لوں میں
آئی جب اتنی دُور سے ہوں سحرؔ
کچھ دعا شعا ہی اس کی لے لوں میں
٭......٭......٭
گفتگو میں تھا ذکر تتلی کا
میری جگنو سے بحث چل نکلی
٭......٭......٭
اپنی تکمیل کو گھر میرا پہنچتا ہی نہیں
پیٹ کی بھوک سڑک پر مجھے لے آتی ہے
٭......٭......٭
تعارف میں محبت بھیج دینا
تمہارا چہرہ میں پہچان لوں گی
٭......٭......٭
ہمارا عکس جو شیشے کی زد میں آ جائے
تماشا گر بھی تماشے کی زد میں آ جائے
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اسے بھی اس پریشانی سے اب دوچار کیا کرتے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved