تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     17-12-2020

گھر گھر کی کہانی

لاہور کے پروفیسر فرخ محمود خلوص کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اُن کا شمار اُن چند لکھنے والوں میں ہوتا ہے جو ذہن کے میدان میں گھوڑے دوڑاکر دور کی کوڑیاں لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اُن کی کوشش بالعموم کامیابی پر منتج ہوتی ہے۔ پروفیسر فرخ ''بلیغیات‘‘ کے دلدادہ ہیں یعنی یہ کہ محض ایک جملے میں کوئی بہت بڑی بات کہی جائے۔ فی زمانہ یہ بھی ذہن کی خوراک تلاش کرنے والوں کی بڑی خدمت ہے کیونکہ لوگ چھوٹی سی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وقت کی کمی نے انسان کو مطالعے سے دور کردیا ہے۔ یوں بھی سمعی و بصری مواد کی ایسی بہتات ہے کہ پڑھنے پر مائل ہونے والوں کی تعداد کا گھٹتے رہنا افسوس ناک ہو تو ہو، حیرت انگیز ہرگز نہیں۔ پروفیسر فرخ کا ایک بلیغ و معنی خیز جملہ ہے ''شادی ایک ورک شاپ ہے جس میں شوہر ورک کرتا ہے اور بیوی شاپ (یعنی شاپنگ)!‘‘ اگر ذرا وضاحت سے کہنا ہو تو کہا جائے کہ پروفیسر فرخ اور اُن کی قبیل کے دوسرے مصنفین شوخی و شرارت سے بھرپور (cheeky) جملوں سے نوازتے ہیں۔ اِن شوخ جملوں میں کوئی نہ کوئی بڑی بات اس طور سموئی گئی ہوتی ہے کہ کوزے میں دریا بند کرنے والا معاملہ یاد آجاتا ہے۔ پروفیسر فرخ نے شادی کو ورک شاپ قرار دیتے ہوئے جو بات کہی ہے وہ ایک واضح حقیقت کی حیثیت سے ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے مگر ہم ایک قدم آگے جاکر کہیں گے کہ یہ گھر گھر کی انتہا پسندی ہے! 
ہم کم و بیش ہر معاملے میں انتہا پسند ہیں۔ سوچ میں بھی انتہا پسندی اور عمل میں بھی انتہا پسندی۔ غیر متوازن رویوں کے ایسے ہی نتائج برآمد ہوا کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ایسا بہت کچھ ہے جو حقائق کا جائزہ لینے پر زیادہ حیرت انگیز معلوم نہیں ہوتا؛ تاہم افسوس ناک ضرور ہے۔ گھریلو زندگی اُسی وقت معیاری کہلاتی ہے جب اُس میں بیشتر معاملات متوازن ہوں۔ میاں بیوی اگر غیر متوازن رویوں کے حامل ہوں یعنی کسی بھی معاملے میں اعتدال کو ترجیح دینے کے قائل اور عادی نہ ہوں تو صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔ معاملہ اچھا ہو یا بُرا، اعتدال کی راہ سے ہٹنے کی صورت میں صرف مشکلات پیدا کرتا ہے۔ بُخل اور اِسراف دونوں کے بطن سے مالی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ہونا ہی چاہئیں کیونکہ انتہائی رویہ خرابیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ 
یہ تو پروفیسر صاحب کی سادگی یا خلوص ہے کہ انہوں نے شادی کو ورک شاپ قرار دے کر مرد کی پریشانی یا ذمہ داری کو بیوی تک محدود رکھنے والی بات کہی۔ ہم خلوص و احترام کے ساتھ عرض کریں گے کہ معاملہ یہاں تک نہیں بلکہ اِس سے بہت آگے تک ہے۔ ہم اپنے اور دوسرے بہت سے لوگوں کے مشاہدے کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مرد عمومی سطح پر خاصی ''گدھایانہ‘‘ زندگی بسر کرتے ہیں یعنی اُن پر اچھا خاصا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ معاشرتی معاملات کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ گھر کے ساتھ ساتھ خاندان کا بھی اچھا خاصا بوجھ مرد ہی کو ڈھونا پڑتا ہے۔ جو بات پروفیسر صاحب نے کہی ہے وہ معاشرے کی ایک ایسی حقیقت ہے جو تلخ ہونے کے ساتھ ساتھ وضاحت طلب بھی ہے۔ ایسے معاملات ''بلیغیات‘‘ کے دائرے میں مقید نہیں کیے جاسکتے، بات بہت کھل کر بیان کرنا پڑتی ہے۔ کسی بھی گھر کو حقیقی مسرّت سے محروم کرنے والی حقیقت صرف اِتنی ہے کہ شوہر کو صرف کمانے والا تصور کیا جائے اور بیوی کو صرف خادمہ کے روپ میں دیکھا جائے۔ گھر کو ڈھنگ سے چلانے کی صرف ایک صورت ہے‘ یہ کہ کوئی خود کو برتر اور فریقِ ثانی کو کمتر تصور نہ کرے۔ 
کسی بھی گھر کو چلانے میں کلیدی یعنی مالی کردار شوہر کا ہوتا ہے۔ اُس کی کمائی ہی گھر کو چلانے کے لیے دستیاب وسائل کا حصول یقینی بناتی ہے۔ زندگی ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ توازن پیدا کرنے کا نام ہے۔ ہم زندگی بھر عدم توازن کے دلدادہ رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ عدم توازن پیدا نہیں کرنا پڑتا، خود بخود ہماری زندگی میں در آتا ہے۔ اِس کے برعکس توازن پیدا کرنے پر متوجہ رہنا پڑتا ہے۔ کسی بھی گھر کو حقیقی مسرّت سے ہم کنار کرنے والا اہم ترین عامل توازن ہے۔ شوہر کا کام کمانا ہے اور بیوی کا کام گھر چلانا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شوہر کو اے ٹی ایم سمجھ کر اُس میں سے ہر وقت تازہ کرنسی نوٹ نکالنے ہی کا سوچا جائے اور بیوی اگر گھر کے کام کاج کرتی ہے تو اُسے نوکرانی یا خادمہ کا درجہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں۔ گھر چلانے کے معاملے میں میاں بیوی کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ ایسی حالت میں ہونا چاہیے کہ عزتِ نفس برقرار رہے۔ اگر کوئی خود کو بہتر یا برتر سمجھتے ہوئے فریقِ ثانی کو نیچا دکھانے کی کوشش کرے تو گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ 
ہم بحیثیت قوم بیشتر معاملات میں انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ اگر کوئی کاہل ہے تو انتہا کا، جاہل ہے تو انتہا کا۔ کسی کو کام کرنے کا شوق ہے تو باقی سب کچھ ایک طرف رہ جاتا ہے اور زندگی میں صرف کام رہ جاتا ہے۔ یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ زندگی صرف توازن سے بنتی اور سنورتی ہے۔ توازن نہ رہے تو بگڑتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہم نے تو جیسے طے کرلیا ہے کہ ہر رویے کو انتہا تک پہنچاکر دم لیں گے۔ کھانا جسم کی ضرورت ہے مگر ہم نے اِس ضرورت کو شوق اور مشغلے کا درجہ دے کر جسم کی مٹی پلید کرتے رہنے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ یہی حال دوستی اور دشمنی کا ہے۔ اگر کوئی اچھا لگتا ہے تو ایسی گاڑھی چھنتی ہے کہ باقی تمام معاملات اِس چوکھٹ پر قربان ہو جاتے ہیں۔ کسی سے دشمنی ہو تو ہم اُسے بھی ''درجۂ کمال‘‘ تک پہنچانے پر بضد رہتے ہیں۔ گھر گھر پائی جانے والی یہ انتہا پسندی پورے معاشرے پر محیط ہوکر خرابیوں کا گراف بلند کرتی جارہی ہے۔ گھریلو زندگی میں مرد کو معاشی محاذ سنبھالنا پڑتا ہے۔ اس محاذ پر دکھائی جانے والی کمزوری گھر کو زیادہ خراب کرتی ہے۔ مرد کو کمانا ہی پڑتا ہے مگر اُسے کمانے والی مخلوق سمجھنے سے گریز لازم ہے۔ مرد کی بھی شخصیت ہوتی ہے۔ اگر اُسے محض مالی وسائل کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا جائے تو اُس کی شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہی معاملہ عورت کے لیے بھی ہے۔ وہ گھر کی حدود کے اندر رونما ہونے والے معاملات کو درست رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اس بنیادی ذمہ داری کے مطابق اعمال ترتیب دینے والی عورت کو اگر محض خادمہ تصور کرلیا جائے تو...؟ ظاہر ہے کہ اُس کی عزتِ نفس مجروح ہوگی، روح مسخ ہوگی، شخصیت منتشر ہو جائے گی۔ ہر عورت گھر کی ذمہ داریوں سے بڑھ کر بھی کچھ کرسکتی ہے۔ اُس کی فطری صلاحیتیں گھر کی چار دیواری کی نذر نہیں ہونی چاہئیں۔ ہر عورت گھریلو ذمہ داریوں سے بلند ہوکر بھی کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اُسے یہ حق ملنا ہی چاہیے۔ اگر مرد محض کمانے کی دُھن میں رہے تو اے ٹی ایم ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب اِس اے ٹی ایم سے نوٹ نہیں نکلتے تو متعلقین مایوس ہو جاتے ہیں اور وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو اے ٹی ایم سے روا رکھا جاتا ہے یعنی تحسین کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ انتہائی رویہ ہے۔ مرد صرف کمانے کے لیے نہیں آیا۔ اُسے اپنی شخصیت بھی پروان چڑھانا ہوتی ہے۔ عورت بھی محض گھریلو ذمہ داریوں کے سمندر میں غرق ہونے کے لیے نہیں۔ اگر وہ تخلیقی صلاحیتوں کے نقطۂ نظر سے کوئی اچھا مشغلہ رکھتی ہے تو اُسے پسندیدہ شعبے میں کچھ نہ کچھ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ 
پاکستانی معاشرہ انتہاؤں کے درمیان جی رہا ہے۔ لوگ توازن سے دور رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ توازن پیدا کرنے میں محنت لگتی ہے۔ گھریلو معاملات کا بھی یہی حال ہے۔ گھر گھر انتہا پسندی اس لیے ہے کہ لوگ اعتدال یقینی بنانے سے بھاگتے ہیں۔ یہ تن آسانی معاشرے کو بگاڑتی ہی چلی جارہی ہے۔ لوگ دوسروں کو کولہو میں جُتے ہوئے بیل جیسا بنانے پر تُلے رہتے ہیں اور خود دنیا بھر کے مزے لُوٹنا چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved