بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جب ریزرو پولیس کے دستے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی جانب آنسو گیس کے گولے اور ربڑ کی گولیاں برسا رہے تھے تو میڈیا پر ایک سکھ بچے کا خون آلود چہرہ دکھایا جا رہا تھا‘ جسے آنسو گیس کا گولہ لگا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر یکلخت میرا دھیان اس سکھ بچے کے ہم عمر‘ طفیل مٹو کی طرف چلا گیا جو بھارت کے خونیں جبڑوں میں پھرپھڑاتی لہولہان وادیٔ کشمیر کے ایک شہر بے چراغ میں ٹیوشن پڑھ کر گھر واپس لوٹتے ہوئے بھارتی فوج کے پھینکے گئے آنسو گیس کے زہریلے شیل کا نشانہ بنا تھا۔ اس کم سن طفیل شہید کا ایک اور ہم عمر جاوید اپنے عم زاد کے جنازے میں شرکت کیلئے گھر سے نکلا تو بھارتی بھیڑیوں نے آزادیٔ کشمیر کیلئے نعرے بلند کرنے کی پاداش میں اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ننھا جاوید عمر اور قد میں اتنا چھوٹا تھا کہ اپنے کزن کے جنازے کو کندھا دینے کے قابل بھی نہیں تھا مگر جنازے اور احتجاجی جلوس میں شریک ہو کر اس نے جس 'گناہ‘ کا ارتکاب کیا تھا‘ اس کی سزا بھارتی سکیورٹی فورسز کے قانونِ درندگی کے مطابق صرف موت تھی۔ انہی کی طرح کا ایک اور معصوم بچہ 29 جون کو سوپور میں اپنے فاتر العقل بھائی کی تلاش میں نکلا تو اپنے بھائی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس جلوس میں پہنچ گیا جہاں وحشیانہ تشدد، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے زہریلے گولوں کے علاوہ بھارتی فوجیوں کی براہِ راست فائرنگ سے ہر طرف لاشیں گر رہی تھیں۔ ہر طرف زخمی‘ چیختے ہوئے‘ تڑپتے ہوئے۔ پُرامن جلوس کے راستے لاشوں سے بھر گئے اور بھارتی فوجی اپنے سینوں پر فتح کے تمغے سجائے کلاشنکوفیں لہراتے رہے۔ انہی کلاشنکوفوں میں سے ایک کا برسٹ اُس بچے کے سینے کو بھی ادھیڑ گیا جو اپنے بھائی کو تلاش کر رہا تھا۔
جس طرح پنجاب کے سکھوں اور ہریانہ کے کسانوں کی بہو بیٹیوں پر مودی کی سپیشل فورسز نے سخت سردی میں واٹر ٹینک کے سرف ملے پانی کی بوچھاڑ کرتے ہوئے انہیں ٹھٹھرنے کے ساتھ ساتھ بے لباس کیا‘ سڑکوں پر گھسیٹا‘ اسی طرح ان کی ہم عمر عفت مآب کشمیری بیٹیاں شوپیاں میں بھارتی فوج کے افسروں کے ہاتھوں عصمت دری کے بعد بے رحمی سے قتل کی گئیں، ان کی برہنہ لاشیں نالہ ریمباریہ میں پھینک دی گئیں۔ ریمباریہ کے پانی میں تیرتی یہ لاشیں کیا مہذب دنیا اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ نہیں ہے؟ اقوام عالم کی عدالتِ انصاف میں سانحہ شوپیاں جیسے نجانے کتنے انسانیت سوز مظالم اور چیرہ دستیاں بھارتی مارکیٹ چھن جانے کی مصلحتوں کی نذر ہو چکی ہیں۔ دوسری جانب بھارتی تحقیقی اور تفتیشی اداروں کی طرف سے بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے عصمت دری اور وحشیانہ قتل جیسے گھنائونے جرائم پر پردہ ڈال کر جس خباثت کا ثبوت دیا جا رہا ہے وہ اگرچہ کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے کچھ نیا نہیں لیکن اقوام عالم کے دہرے نظامِ انصاف پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی بندوقوں کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور گرنیڈ حملوں تک کیونکر پہنچی‘ یہ الگ موضوع ہے لیکن آج کی نوجوان نسل اپنے جذبات کا اظہار باغیانہ نعروں اور پتھروں سے بھی اسی طرح کر رہی ہے جس طرح فلسطین کی غزہ پٹی کے مسلمان اسرائیلی فوج کے سلوک کا جواب سنگ باری سے دے رہے ہیں۔ غاصب بھارتی فوجی ان نہتے کشمیریوں کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو اسرائیلی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج کی موجو دگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت ان خالی ہاتھ مشتعل نوجوانوں سے ہنوز خوف زدہ ہے حالانکہ ''آتنک وادی‘‘ اب قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ اس وقت بغل میں چھری رکھ کر دنیا میں امن کی مالا جپنے والا بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کیلئے کوشاں ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کے پلّے ہے کیا؟ آٹھ سالہ طفیل مٹو کی گولیوں سے چھلنی لاش، دس سالہ جاوید کا ادھڑا ہوا معصوم جسم، شوپیاں کی نو عمر بچیوں کی عصمتوں کے لاشے ؟ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی ظلم و تشدد سے پتھرائی ہوئی لاشیں؟ کشمیر کی ہر گلی محلے میں تاحد نظر پھیلے ہوئے قبرستان؟ بھارتی جیلوں اور تفتیشی اداروں میں سالوں سے ظلم و تشدد سے سسکتے‘ چلاتے نوجوانوں کی بے بس چیخیں؟ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست لینے کیلئے یہی قابلیت درکار ہے؟
مقبوضہ کشمیر میں انسانی خون سے ہولی کھیلنے والی بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کم از کم 80 ہزار کشمیریوں کے خون کی ارزانی اور انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر مہذب دنیا خاموش بیٹھی ہے‘ یہاں تک کہ مسلم ممالک میں بھی اس ظلم پر کہیں سے کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوتی، کوئی اس بربریت پر آہ و فغان نہیں کرتا۔ کسی کا واویلا سنائی نہیں دیتا۔ کسی ایک بھی مہذب ملک نے بھارتی چیرہ دستیوں اور اقلیتوں سے اس کے ناروا سلوک پر اس کا معاشی و سماجی بائیکاٹ نہیں کیا؟ کیا حالیہ دنوں میں شائع ہونے والی امریکی رپورٹ میں بھارتی اقلیتوں کی حالتِ زار کا احوال بیان کیا گیا ہے؟ شاید ان کی نظر میں کشمیری انسان نہیں؟ ہسپتالوں میں سسکتے تڑپتے زخمیوں کے گہرے زخم چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس صدی کا سب سے بڑا ظلم ان پر ہو رہا ہے۔ اگر بھارتی چنگیزیت یہ سمجھتی ہے کہ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے کشمیری تھک کر چپ بیٹھ جائیں گے تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہر شہید کی لاش سے بہنے والا لہو آزادی کے چراغ کی لو کو مزید تیز کر رہا ہے اور تیسری نسل کے ننھے منے بچے بھارتی سفاکیت کو للکار لکار کر کہہ رہے ہیں کہ تم ظلم کرتے کرتے تھک جائو گے لیکن ہم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے نہیں تھکیں گے حتیٰ کہ آزادی کا سورج طلوع ہو جائے، جب تک انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والی دنیا، عدم تشدد کے نعرے لگانے والی دنیا، مہذب اطوار پر زور دیتی دنیا اپنے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پرآگے بڑھ کر بھارت کے پنجۂ استبداد کو مروڑ نہ دے۔ اس وقت تک‘ ہاں! اس وقت تک‘ قسم ہے کشمیر کی عفت مآب بیٹیوں کی‘ قسم ہے بوڑھے ماں باپ کی ترستی آنکھوں کی‘ قسم ہے ننھے منے بچوں کی خون میں نہلائی ہوئی مقدس لاشوں کی ہم نہیں تھکیں گے! ہم نہیں تھکیں گے!
بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے با وجود آرٹیکل 370 کو حذف کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کو اپنے خونیں جبڑوں میں جکڑ لیا ہے اور کشمیریوں کی خون سے لکھی جانے والی تحریک آزادی کا ہر لفظ بھارتی سفاکی کے گھائو عیاں کر رہا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ جنگلی حیات کی معدوم ہوتی نسلوں حتیٰ کہ حشرات الارض کی بقا کیلئے فلمیں دکھانے والی مہذب دنیا کشمیری مسلمانوں کی یہ نسل کشی دیکھنے سے عاری ہے۔ کشمیر کی کٹھ پتلی اور بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام کی عملی تصویر بنی بھارتی قیادت کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ کشمیری نوجوان موت سے خوفزدہ نہیں بلکہ ان کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں۔ بھارت کیلئے کشمیریوں کی نفرت انگیزی کا پیغام مقبوضہ وادی کی پر دیوار پر لکھا ہے کہ ''گو بیک انڈیا‘‘۔ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) کے تحت ''باغیوں‘‘ کی ہلاکتیں اور زیر حراست کشمیریوں کو سزائے موت دینا بھارتی فوجیوں کیلئے اس قدر آسان اس لیے ہے کہ انہیں مکمل یقین ہے کہ کوئی ان سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے۔ وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں بلکہ ناچتی گاتی بھارتی ثقافت کی رنگینیوں میں گم ہو کر وہ اس حقیقت سے بے خبر ہو چکے ہیں کہ وادی کشمیر میں ہر طرف موت ناچ رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نئی دہلی میں ساز و آواز کی گونج ہے تو مقبوضہ کشمیر میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور کشمیری نوجوانوں کی درد اور تکلیف سے گونجتی چیخیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو کیا دوش دیں کہ اب پاکستان کے چند نام نہاد اینکرز اور تجزیہ کار بھی کشمیریوں کی جدوجہد ِآزادی کو دیوانے کا خواب کہنا شروع ہو چکے ہیں۔ شاید یہ آج کے لارنس آف کشمیر ہیں۔