اپوزیشن الائنس پی ڈی ایم کی طرف سے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکی پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا: تم اپنا یہ شوق بھی پورا کرلو‘ ہم ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کرادیں گے۔ وزرا کرام اور وفاقی وصوبائی حکومتوں کے ترجمان بھی کورس میں یہی گیت گارہے ہیں۔ ادھر پی ڈی ایم قیادت کا کہنا ہے کہ استعفے دے کر ہم گھر تھوڑی بیٹھ جائیں گے۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نصف کے لگ بھگ خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ یہی بات جمعرات کی سہ پہر مریم نواز نے جاتی امرا میں اپنی پریس کانفرنس میں کہی: تقریباً 500 نشستوں پر ضمنی انتخاب کیسے کرائو گے اور یہ کون کرانے دے گا؟
13دسمبر کے جلسے اور اس سے اگلے روز جاتی امرا میں پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں 31 دسمبر تک وزیر اعظم کے استعفے‘ بصورت دیگر جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں استعفوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے اعلان کے بعد اپوزیشن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں گئی۔ بلاول بھٹو زرداری کی کوٹ لکھپت جیل میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ملاقات ایک اہم سیاسی سرگرمی تھی۔ بلاول کے بقول‘ اس ملاقات کا بنیادی مقصد شہباز صاحب سے ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کا اظہار تھا۔ (وہ جاتی امرا جاکر مریم سے بھی تعزیت کر آئے تھے) بلاول نے شہباز صاحب سے ملاقات کیلئے جیل حکام کو درخواست دی تو باوثوق ذرائع سے ابتدائی خبریں یہ تھیں کہ اجازت نہیں ملے گی‘ اس عذر کے ساتھ کہ جیل میں ملاقاتوں کی اجازت صرف فیملی کے قریبی افراد ہی کو دی جاتی ہے‘ لیکن اجازت مل گئی۔ اس ملاقات کی خاص اہمیت یہ بھی تھی کہ ماضی میں شہباز صاحب کی طرف سے بلاول کے پاپا کے خلاف خاصی سخت زبان استعمال کی جاتی رہی۔ اس موقع پر بعض ٹی وی چینلز پر شہباز صاحب کے وہ بیانات اور بلاول کی طرف سے سخت تر الفاظ میں جواب آں غزل کی یاددہانی بھی کرائی گئی‘ لیکن اپنے ہاں سیاست میں اب ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ مشرف دور کے ٹاک شوز میں خان صاحب اور جنابِ شیخ روبرو اور دوبدو ایک دوسرے کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتے رہے۔
شہباز صاحب اور بلاول بھٹو کی اس ملاقات کے حوالے سے میڈیا کے ایک حصے میں دورکی کوڑیاں بھی لائی گئیں‘ مثلاً یہ کہ شہباز صاحب نے استعفوں اور لانگ مارچ وغیرہ سے اتفاق نہیں کیا اور نیشنل ڈائیلاگ کی اسی تجویز کا اعادہ کیا جو انہوں نے والدہ صاحبہ کے انتقال پر پیرول پر رہائی کے دوران میڈیا سے گفتگو میں پیش کی تھی۔ نوابزادہ صاحب کہا کرتے تھے: سیاسی رہنما کسی ایجنڈے کے بغیر ہی لنچ یا ڈنر پر مل بیٹھیں تو اس کی بھی اہمیت ہوتی ہے‘ حکمرانوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ اندر کی بات کی ٹوہ لگانے لگ جاتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں اس ملاقات کی سیاسی اہمیت ضرور تھی لیکن ظاہر ہے اس میں بنیادی نوعیت کے پالیسی معاملات توزیر بحث نہیں آئے ہوں گے کہ یہ ملاقات تخلیے میں نہیں تھی‘ موقع پر جیل کے دو افسربھی موجود تھے۔ مریم نواز نے جمعرات کی پریس کانفرنس میں اس ملاقات کے حوالے سے اخباری قیاس آرائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ خود شہباز صاحب یہ بات کہہ چکے ہیں کہ استعفوں سمیت پی ڈی ایم اور میاں نوازشریف کے تمام فیصلوں کو ان کی تائید حاصل ہوگی۔
انہی دنوں بلاول کا مریم نواز کو فون ایک اور اہم سیاسی سرگرمی تھی‘ جس کا بنیادی مقصد مریم نواز کو 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کی (13ویں) برسی میں شرکت کی دعوت تھی۔ ظاہر ہے‘ اسے قبول کرنے میں مریم کو کیا ہچکچاہٹ ہوسکتی تھی۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ بلاول پی ڈی ایم کے دیگر قائدین کو بھی برسی میں شرکت کی دعوت دیں۔ اس فون کال میں دونوں لیڈروں کے مابین سینیٹ کے انتخابات کے سلسلے میں وزیر اعظم کے تازہ بیان پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
موجودہ سینیٹ کے نصف ارکان کی مدت 11مارچ 2021ء کو مکمل ہوجائے گی۔ 14اگست 1973ء کو آئین کے نفاذ کے بعد 1974ء میں سینیٹ کے پہلے انتخابات ہوئے۔ تب سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سینیٹ کی نصف سیٹوں پر انتخاب‘ ان کے خالی ہونے کی تاریخ سے ایک آدھ دن پہلے ہوتا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں میں سیاسی جماعتوں کی عددی طاقت کے حساب سے کہا جاتا ہے کہ سینیٹ کی نصف سیٹوں پر انتخاب کے بعد‘ پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل ہوجائے گی جس کے بعد اسے قانون سازی میں آسانی ہوگی کہ ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ اسے پہلے ہی اکثریت حاصل ہے (یہ اکثریت بہت کمزور سی سہی) کہا جاتا ہے اپوزیشن کی طرف سے مارچ سے پہلے اسلام آباد مارچ اور استعفے‘ سینیٹ کے انتخابات کو روکنے کی کوشش ہے‘ جبکہ پی ڈی ایم استعفوں اور لانگ مارچ کا بنیادی مقصد ''سلیکٹڈ حکومت‘‘ کا خاتمہ قرار دیتی ہے۔
وزیر اعظم کی طرف سے مارچ کے بجائے فروری میں سینیٹ کے انتخابات کے اعلان کو پی ٹی آئی کے خیرخواہ دانشور کپتان کا ماسٹر سڑوک قرار دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ جناب وزیر اعظم (اوران کے رفقا) کی طرف سے اس انتخاب کیلئے سیکرٹ بیلٹ کے بجائے ''شو آف ہینڈز‘‘ کا طریق کار اپنانے کی بات بھی بحث کا نیا موضوع بن گئی ہے۔ قانون کے مطابق سینیٹ کا انتخاب‘ نشستیں خالی ہونے سے پہلے ایک ماہ کے اندر کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن الیکشن شیڈول کا اعلان اور اس کے لیے جملہ انتظامات‘ حکومت کی نہیں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اور اس کے اختیارات میں آتے ہیں‘ جس میں حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے فروری میںسینیٹ الیکشن کے انعقاد کا اعلان‘ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں مداخلت اوراس کی آزادو خودمختار اتھارٹی کو انڈر مائن کرنے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن‘ جولائی 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے پہلے ہی ''دفاعی پوزیشن‘‘ میں رہتا ہے۔ اس کے لیے الیکشن کی رات آرٹی ایس بیٹھنے اور پولنگ ایجنٹوں کو فارم 44 کے بجائے سادہ کاغذ پر رزلٹ فراہم کرنے کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ اب وزیر اعظم صاحب کی طرف سے فروری میں سینیٹ انتخابات کرانے کے اعلان پر الیکشن کمیشن کی خاموشی نے اس کی آزادی و خودمختاری کے سامنے ایک بارپھر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ عوام کو جناب چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے نہ سہی کمیشن کے ترجمان کی طرف سے ہی‘ اس دوسطری بیان کا انتظار رہاکہ الیکشن شیڈول کا فیصلہ اوراس کا اعلان کسی اورکی نہیں‘ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری اوراختیار ہے۔
سینیٹ انتخابات کیلئے ''شو آف ہینڈز‘‘ ایک آئینی معاملہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے سوا‘ تمام الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے ہوں گے۔ سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ سے ووٹوں کی خریدوفروخت یا مطلوبہ نتائج کے لیے مینجمنٹ آسان ہوجاتی ہے۔ تازہ مثال اس سال کے اوائل میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر دیکھنے میں آئی۔ ایوان میں کھڑے ہوکر تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے والے 64 ارکان‘ پردے کے پیچھے‘ سیکرٹ بیلٹ پر مہر لگاتے ہوئے‘ 50 کے قریب رہ گئے۔
جمعرات کی پریس کانفرنس میں مریم کا کہناتھا: ہم بھی سینیٹ الیکشن کو حقیقی معنوں میں فیئر اینڈ فری بنانے کیلئے‘ سیکرٹ بیلٹ کے موجودہ طریقے میں تبدیلی کے حامی ہیں‘ لیکن جناب وزیراعظم کو یہ خیال اب کیوں آیا ہے؟ کیا اس لیے کہ پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک کے نتیجے میں انہیں اپنے ارکانِ اسمبلی پر اعتبار نہیں رہا؟