تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''تمام معاشی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں‘‘اور اگر اس کا اثر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس میں قصور عوام کا ہے، اشاریوں کا نہیں؛ اگرچہ ہم شروع سے اشاریوں ہی پر چل رہے ہیں کیونکہ اگر ان اشاریوں کے اشاروں پر نہ چلیں تو ہمارے اپنے اشارے خراب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم ہمارے اشارے ہی درست سمت میں جاتے رہیں، نیز عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے اشارے درست سمت میں رکھیں کیونکہ ان کے مثبت اشارے بھی چلتے چلتے جام ہو جاتے ہیں جس میں ظاہر ہے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد رابطہ کمیٹی برائے ایس ایم ایز کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
مریم وکٹ کے ایک ہی طرف کھیل رہی ہیں: محمد زبیر
نواز لیگ کے رہنما اور میاں نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے کہا ہے کہ ''مریم وکٹ کے ایک ہی طرف کھیل رہی ہیں‘‘ اس لیے خواجہ آصف صاحب ان مسلم لیگی لیڈروں کے نام بتائیں جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں جبکہ میاں نواز شریف کا بیانیہ ہی وہ وکٹ ہے جس پر کھیلا جا سکتا ہے؛ اگرچہ یہ اکثر رہنمائوں کو بے حد مشکل میں ڈالے ہوئے ہے کیونکہ میاں صاحب جس حد تک آگے جا چکے ہیں وہاں سے واپس ہونے کو وہ اپنا سیاسی انجام سمجھتے ہیں اگرچہ وہ اس مرحلے سے بھی گزر چکے ہیں کیونکہ اب سیاسی آغاز یا سیاسی انجام ان کے لیے ایک برابر ہو چکے ہیں اور اپنے لیے سارے راستے خود ہی بند کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات ہوئے تو ہم
چوڑیاں پہن کر گھر نہیں بیٹھیں گے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات ہوئے تو ہم چوڑیاں پہن کر گھر نہیں بیٹھیں گے‘‘ جبکہ چوڑیاں اتار کر بیٹھیں گے کیونکہ ہر وقت چوڑیاں پہنے رہنا کچھ اچھا نہیں لگتا جبکہ ان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے جبکہ جلسۂ لاہور سے ہم پہلے ہی کافی عبرت حاصل کر چکے ہیں اور لاہور سے متعلقہ لیڈروں اور کارکنوںکو جو ظہرانہ دیا گیا تھا وہ جلسے کی ناکامی کے سلسلے میں ان کی عدم کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے تھا بلکہ بعض سست الوجود افراد کی تو میں نے سرزنش بھی کی ہے جب تک انہوں نے اپنی سست روی اور کاہلی سے توبہ نہیں کر لی۔ آپ اگلے روز پریس کانفرنس میں سینیٹ الیکشن پر گفتگو کر رہی تھیں۔
لوگوں کی زندگیوں میں آسانی لانا حکومت کا ہدف ہے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''لوگوں کی زندگیوں میں آسانی لانا حکومت کا ہدف ہے‘‘ حالانکہ یہ لوگوں کی عادات خراب کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ان کی زندگیاں ایک عرصے سے مشکلات میں اس طرح رچی بسی ہوئی ہیں کہ آسانیوں کے نام سے ہی ان کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے جبکہ حکومت بھی اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ مشکلات ہی لوگوں کو جفا کش بناتی ہیں جبکہ ہمارے ملک کو ضرورت بھی جفا کش لوگوں کی ہے جس میں وہ کافی ترقی کر چکے ہیں اور اب انہیں کسی ترقیٔ معکوس سے دو چار کرنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہو گا اور ہمارا اس ضمن میں ہدف حاصل نہ کر سکنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
سینیٹ کے شفاف الیکشن پر تمام جماعتیں
وزیراعظم کا ساتھ دیں: فرخ حبیب
تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''سینیٹ کے شفاف الیکشن پر تمام جماعتیں وزیراعظم کا ساتھ دیں‘‘ کیونکہ شو آف ہینڈز کے ذریعے اسے اسی لیے شفاف بنایا جا رہا ہے کہ صاف پتا چل سکے کہ کون حکومت کا ساتھ دیتا ہے اور کون نہیں کیونکہ اسے کئی اور اطراف سے بھی مانیٹر کیا جا رہا ہو گا، اول تو اس تردد کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ اپوزیشن جماعتیں یا تو مستعفی ہو چکی ہوں گی یا الیکشن کا بائیکاٹ کریں گی اور اس طرح گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی جن میں صرف مرزا یار ہی پھرتا نظر آئے گا۔ اس لیے ہمارے لیے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اپوزیشن کے لیے یہ الیکشن پریشانی اور حیرانی کا باعث ہو گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
ستارے سوچتی آنکھیں
یہ ازہرندیم کا مجموعۂ نظم ہے جسے بک ہوم نے شائع کیا ہے۔ انتساب بڑے بھائی غضنفر سعید کے نام ہے۔ دیباچہ ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر نے لکھا ہے۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور سجاد احمد بری کی تحریر ہے جس کے مطابق: ازہر ندیم کی نظموں کے ساتھ میں نے ڈھیر سارا وقت گزارا ہے۔ اپنے اندر اور باہر کی طرف سفر کرتی ان نظموں نے وجودی سطح پر مجھ پر تین مظاہر منکشف کیے، ایک ظاہر، دوسرا باطن اور تیسرا ظاہر اور باطن کے وصال سے نکلتا ہوا ان نظموں کا مجموعی پیراہن، یہ تیسرا مظہر ہی نظم کی تخلیق میں شاعر کا امتحان ہوا کرتا ہے اور ازہر ندیم اس امتحان میں سرخرو ہوئے ہیں۔ ان نظموں میں بظاہر بہت سادہ، آسان اور سہولت کی ایک مانوس فضا ہے لیکن اپنے جمالیاتی رچائو میں یہ فضا نئے راستوں کا اذن ہے ‘یہ کسی عام شاعر کے تجربے ہرگز نہیں ہیں۔ اندرونِ سرورق رائے دینے والوں میں مصباح نوید، ضیغم رضا، اظہر فراخ اور وفا سعادت شامل ہیں۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی غزل:
تھے نا امید بہت ہم یہاں سے پہلے ہی
زمیں نے ظلم کیے آسمان سے پہلے ہی
یہ سارا شامتِ اعمال کا کرشمہ تھا
کہ اپنی گرد اُڑی کارواں سے پہلے ہی
فضا رکی ہوئی تھی پیشتر ہوائوں سے
شجر کٹا ہوا تھا، آشیاں سے پہلے ہی
نشہ خمار سے پہلے ہی کیوں ہوا وارد
سکوت کیوں ہے یہ قطعِ زبان سے پہلے ہی
وہاں کا قصد ہے درپیش پھر ہمیں اک بار
کہ ہو کے آ گئے ہیں شاید وہاں سے پہلے ہی
کچھ اپنے اپنے معانی نکالتے رہے ہیں
بیان ہو بھی چکا تھا بیاں سے پہلے ہی
کچھ اس میں تھا کہیں کردار تو ہمارا بھی
کہ اٹھ کے چل دیے ہم داستاں سے پہلے ہی
عجب تو یہ ہے کہ ہم راستے ہی میں تھے کہیں
وہ آ چکا تھا نہ جانے کہاں سے پہلے ہی
یہ کاروبار ہمیں راس ہی نہ تھا جو ظفرؔ
حساب کر لیا سُود و زیاں سے پہلے ہی
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی