اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) ''رہا جھاگ تو وہ (بے فیض ہونے کے سبب) بھَک سے اڑجاتا ہے اور جو چیز انسانوں کو نفع پہنچائے، تو اُسے زمین میں قرار ملتا ہے، اللہ تعالیٰ اسی طرح (چشمِ بصیرت کھولنے کے لیے) مثالیں بیان فرماتا ہے‘‘ (الرعد:17)، (۲) ''مال اوربیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے پاس ازروئے ثواب اور امید کے بہت بہتر ہیں‘‘ (الکہف:46)، (۳) ''اے اہلِ ایمان! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اورہر شخص سوچ لے کہ کل (صبحِ قیامت) کے لیے وہ کیا آگے بھیج رہا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب باخبر ہے‘‘ (الحشر:18)، (۴) ''جب آسمان پھٹ پڑے گااورجب ستارے جھڑجائیں گے اور جب سمندر بہادیے جائیں گے اور جب قبریں کھول دی جائیں گی (یعنی قیامت قائم ہوجائے گی) تو ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ اُس نے آگے (آخرت کے لیے) کیا بھیجا اور پیچھے (دنیا میں) کیا چھوڑا‘‘ (الانفطار:1تا5)۔
دنیا کی زیب وزینت کی کشش انسان کی کمزوری ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(۵) ''لوگوں کے لیے دل پسند چیزوں یعنی عورتوں،بیٹوں، سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانوں،نشان زدہ گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتی کی محبت دلکش بنادی گئی ہے، یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ کے پاس ہی بہترین ٹھکانا ہے‘‘(آل عمران:14)۔(۶) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اورتلاوت کرو جو تمہارے رب کی کتاب تمہیں وحی ہوئی، اس کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور آپ اس کے سوا ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ لازم رکھیں جو صبح اور شام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی آنکھیں ان سے نہ ہٹائیں کہ آپ دنیاکی زندگی کی زینت کا ارادہ کرتے ہوں اور آپ اس شخص کا کہا نہ مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے، اس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا اور آپ کہیے:حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، سو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بے شک ہم نے ظالموں کے لیے ایسی دوزخ تیار کی ہے جس (کے شعلوں) کی چار دیواری ان کا احاطہ کرے گی،اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری ہوگی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا، جو ان کے چہروں کو جلادے گا، وہ کیسا برا مشروب ہے اور وہ دوزخ کیساہی برا ٹھکانا ہے، بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے، یقینا ہم ان لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے جنہوں نے نیک کام کیے ہوں، ان کے لیے دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، انہیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے،وہ وہاں ریشم کے ہلکے اور دبیز سبز کپڑے پہنیں گے (اور) وہ وہاں مسندوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے، کیسا اچھا اجر ہے اور وہ جنت کیسی اچھی آرام کی جگہ ہے‘‘ (الکہف:27 تا31)۔
انسان کی ایک بشری کمزوری یہ ہے کہ وہ دنیا کی ناپائیدار چیزوں کو ابدی اور دائمی سمجھ لیتا ہے اور آخرت کی دائمی نعمتوں کو فراموش کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور آپ انہیں دو مردوں کا قصہ سنائیے جن میں سے ایک شخص کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے،جن کے چاروں طرف ہم نے کھجور کے درختوں کی باڑ لگادی تھی اور ان دونوں کے درمیان ہم نے کھیت پیدا کیے تھے، دونوں باغ خوب پھل لائے اور پیداوار میں کوئی کمی نہیں کی اور ہم نے ان کے درمیان دریا رواں کردیے تھے، جس شخص کے پاس پھل تھے، اس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا:''میں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میری افراد ی قوت بھی زیادہ ہے‘‘، وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا: ''مجھے گمان نہیں کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ مجھے اس پر یقین ہے کہ کبھی قیامت قائم ہوگی اور اگر(بالفرض) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو میں ضرور ان باغوں سے بہتر پلٹنے کی جگہ پائوں گا، اس کے ساتھی نے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا:''کیا تم اس ذات کا انکار کر رہے ہو جس نے تم کو مٹی سے بنایا، پھر نطفہ سے، پھر تمہیں مکمل مردبنایا، لیکن وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائوں گا اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم باغ میں داخل ہوئے تھے تو کہتے:''جو اللہ نے چاہا وہ ہوا اور اللہ کی مدد کے بغیر کسی کی کوئی طاقت نہیں‘‘، اگر تم یہ گمان کرتے ہو کہ میں مال اور اولاد کے لحاظ سے تم سے کم ہوں، تو وہ دن دور نہیں کہ میرا رب مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے باغ پر آسمان سے کوئی عذاب بھیج دے تو وہ چٹیل چکنا میدان بن جائے یا اس کا پانی زمین میں دھنس جائے،پھر تم اس کو ہرگز تلاش نہ کرسکو اور اس شخص کے پھل (عذاب میں) گھیر لیے گئے اور اس نے اس باغ میں جو خرچ کیا تھا، وہ اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا،وہ باغ اپنی چھپریوں پر گرا پڑا تھا اور وہ شخص کہہ رہا تھا:''کاش !میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا‘‘اور اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتی اور وہ بدلہ لینے کے قابل نہ تھا، یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اختیارات اللہ ہی کے پاس ہیں جو سچا ہے، وہی سب سے اچھا ثواب دینے والا ہے اور اسی کے پاس بہترین انجام ہے اور آپ ان کے سامنے کی زندگی کی مثال بیان کیجیے جو اس پانی کی مثل ہے، جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کے سبب سے زمین کا ملا جلا سبزہ نکلا، پھر وہ سوکھ کر چورا چورا ہوگیا جس کو ہوا اڑا دیتی ہے اور اللہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے، مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے پاس ازروئے ثواب اور امید کے بہت بہتر ہیں‘‘ (الکہف28 تا 46)۔
ان آیات سے معلوم ہواکہ انسان دولت وجاہ کو اپنے لیے اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت ومحبوبیت کا سبب سمجھ لیتا ہے اورکہتا ہے کہ اگر بالفرض قیامت قائم بھی ہوگئی، تو وہاں بھی میرے وارے نیارے ہوں گے، کیونکہ میں اللہ کا محبوب ہوں،لیکن انسان اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ دولت وجاہ کبھی اللہ کا انعام ہوتا ہے اور کبھی اللہ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے، سورۂ کہف کی ان آیات نے اس حقیقت کو واضح کردیا۔
نیز کوئی یہ بھی نہ سمجھے کہ دنیا میں کسی کا نادار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے،ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کو فرمایاکہ آپﷺ اپنی نگاہِ عنایت کو غریبوں سے کبھی دور نہ کریں، ارشاد ہوا: ''اوران (نادار مسلمانوں) کو (اپنے سے) دور نہ کیجیے جو صبح وشام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اس کی عبادت کرتے رہتے ہیں، ان کا حساب بالکل آپ کے ذمہ نہیں ہے اور آپ کا حساب سرِ مو ان کے ذمہ نہیں ہے، پس اگر (بالفرض) آپ نے ان کو دور کردیا تویہ کام انصاف سے بعید ہوگا‘‘(الانعام:52)۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: (۱) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: بہت سے افراد پراگندہ حال نظر آئیں گے، لوگ انہیں اپنے دروازوں سے دھتکار دیں گے، (لیکن اللہ کی بارگاہ میں اُن کی مقبولیت کا عالَم یہ ہے کہ) اگر وہ اللہ کی قسم کھاکر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ تعالیٰ انہیں قسم میں سچا ثابت فرماتا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 2622)، (۲) ''مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں: اُن کے والد سعد نے گمان کیا کہ انہیں (شجاعت اور سخاوت کی وجہ سے) اپنے سے کم تر لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہیں جو نصرتِ الٰہی اور رزق کی کشادگی ملتی ہے، یہ کمزوروں کی دعائوں کی برکت سے ملتی ہے‘‘ (صحیح البخاری: 2896)۔
بعض اوقات انسان اپنے سے برتر لوگوں کو دیکھ کر احساسِ محرومی میں مبتلا ہوتا ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:(۱) ''تم میں سے جب کوئی مال اور صورت وشکل میں اپنے سے بہتر کو دیکھے، تو وہ اپنے سے کم تر لوگوں پر نظر ڈالے (تاکہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ بن سکے)‘‘(صحیح البخاری: 6490)، (۲) آپﷺ نے فرمایا: ''اپنے سے کمتر لوگوں کو نظر میں رکھو، اپنے سے برتر لوگوں کو للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھو، اس شِعار سے تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بے قدری سے محفوظ رہو گے‘‘ (صحیح مسلم:2963)، (۳) ''حضرت سہلؓ بن سعد بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک شخص کا گزرہوا، آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا:تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہو، صحابہ نے عرض کی:یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اسے قبول کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے، اگر یہ کوئی بات کرے تو اس کی بات توجہ سے سنی جائے، حضرت سہل نے کہا:پھر آپ خاموش ہوگئے، پھر فقرائے مسلمین میں سے ایک شخص کا وہاں سے گزرہوا تو آپﷺ نے صحابہ سے پوچھا:تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہو، صحابہ نے عرض کی:یہ شخص اس لائق ہے کہ اگر یہ نکاح کا پیغام دے تو اس کا نکاح نہ کیا جائے، اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے، اگر یہ کوئی بات کرے تو اس کی بات نہ سنی جائے، تب رسول اللہﷺنے فرمایا:(تھوڑی دیر پہلے جس شخص کی تم تعریف کر رہے تھے) اگر اُس جیسے لوگوں سے زمین بھر جائے تو یہ ایک شخص اُن سب سے بہتر ہے‘‘ (صحیح البخاری:5091)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''دنیا کی زندگی کی مثال محض اس پانی کی طرح ہے جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کی وجہ سے زمین کی وہ پیداوار خوب گھنی ہوگئی جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں، حتیٰ کہ عین اس وقت جب کھیتیاں اپنی تروتازگی اور شادابی کے ساتھ لہلہانے لگیں اور ان کے مالکوں نے یہ گمان کرلیا کہ وہ ان پر قادر ہیں، تو اچانک رات یا دن کو ان پر ہمارا عذاب آگیا، پس ہم نے ان کھیتوں کو کٹا ہوا (ڈھیر) بنادیا جیسے کل یہاں کچھ تھا ہی نہیں، غوروفکر کرنے والوں کے لیے ہم اسی طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں‘‘ (یونس:24)۔ (ختم)