2020ء اختتام پذیرہے‘ پوری دنیا کے لیے یہ سال زیادہ اچھی خبریں نہیں لا سکا۔ خصوصی طور پر معاشی اعتبار سے تقریباً سبھی کاروبار اس سال کافی متاثر ہوئے۔ اگرچہ فارماسوٹیکل اور آن لائن بزنس سمیت کچھ نئے کاروبار ابھرے بھی ہیں اور چمکے بھی ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں حالات باقی دنیا سے مختلف رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ کورونا کیسز میں کمی اور حکومت کی بہترین حکمت عملی تھی۔ پاکستان میں جس وقت کورونا عروج پر تھا‘ وزیراعظم عمران خان نے کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم متعارف کروائی تھی۔ گو کہ اس کا نام ایمنسٹی سکیم کے بجائے کنسٹرکشن انسینٹو پیکیج رکھا گیا لیکن اس میں دی گئی مراعات ایمنسٹی سکیم والی ہی تھیں۔ اس پروگرام کے تحت 31 دسمبر 2020ء تک جو بھی تعمیراتی منصوبہ شروع کیا جائے گا اس پر خرچ کی جانے والی رقم کا ذریعہ یعنی سورس نہیں پوچھا جائے گا۔ سیمنٹ اور سٹیل کی صنعتوں کے علاوہ تعمیراتی شعبے سے منسلک تمام صنعتوں کو وِد ہولڈنگ ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ سیلز ٹیکس کم اور گھر بیچنے پر کیپٹل گین ٹیکس ختم کیا گیا۔ کنسٹرکشن انڈسٹری ڈویلپمنٹ بورڈ بنانے کی منظوری دی گئی۔ سکوائر یارڈ اور سکوائر فٹ کے حساب سے فکسڈ ٹیکس لگایا گیا۔ نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ میں انویسٹمنٹ کرنے والوں کو فکسڈ ٹیکس کا صرف دس فیصد چارج کرنے کی منظوری دی گئی۔ نیا پاکستان ہائوسنگ پروجیکٹ کے لیے تیس بلین روپے سبسڈی منظور کی گئی۔ بینکوں کو اپنے پورٹ فولیو کا پانچ فیصد ہائوسنگ منصوبے کے لیے مختص کرنے کی ہدایت کی گئی۔جائیداد کی منتقلی پر سی وی ٹی ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کی گئی۔نان فائلرز کے لیے ٹیکس ریٹ چار فیصد سے کم کر کے دو فیصد کیا گیا۔ اس پیکیج نے تعمیرات کے شعبے سے منسلک کم و بیش چالیس سے زائد صنعتوں کو متحرک کیا۔ جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، ٹیکس اکٹھا ہوا اور معیشت کو بھی سہارا ملا۔کنسٹرکشن ایمنسٹی کی وجہ سے ہی مالی سال 21-2020ء کی پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر نے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ پہلی سہ ماہی کا ٹیکس ہدف 959 بلین روپے تھا جبکہ ایف بی آر نے 993 بلین ٹیکس اکٹھا کیا۔ 34 بلین روپے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا معیشت کی بہتری کی غمازی کرتا ہے۔آنے والے دنوں میں حکومت یہ کارکردگی برقرار رکھ پاتی ہے یا نہیں‘ اس کا انحصار حکومتی پالیسی کے تسلسل پر ہے۔
کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم عملی طور پر 31 دسمبر 2020ء کو ختم ہو رہی ہے جس سے کاروباری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت نے اس سکیم سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے جو وقت مقرر کیا ہے‘وہ بہت کم ہے۔ پاکستان کا سرکاری نظام سست روی کا شکار ہے اور پلاٹ خریدنا،گھر یا عمارت کا نقشہ بنوانا، اسے منظور کروانا، تعمیر کے مراحل تک لانا اور متعلقہ اداروں کو اس کے بارے میں آگاہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق پورے ملک میں جو کمپنیاں اور لوگ اس پیکیج میں دلچسپی رکھتے ہیں ان میں سے شاید پچیس فیصد ہی اس سے مستفید ہو سکے ہیں۔معیشت میں جو بہتری دکھائی دیتی ہے وہ اسی پچیس فیصد کی بدولت ہے۔ اسی لیے عوامی سطح پر مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس رعایت کی میعاد میں اضافہ کیا جائے۔ دوسری جانب وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ ایمنسٹی سکیم کا حقیقی فائدہ عوام تک پہنچانے کے لیے سرکاری اداروں میں بھی اصلاحات نافذ کریں۔کسی بھی فائل کی منظوری میں غیرمعمولی تاخیرکو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ رئیل اسٹیٹ کے تمام سرکاری دفاتر میں خصوصی ٹاسک فورسز قائم کی جائیں جو ٹرانسفر، اپروول، ڈیمارکیشن سمیت تمام بنیادی کاموں کو چوبیس گھنٹوں میں حل کرنے کی پابند ہوں۔ کمپیوٹرائزڈ فرنٹ ڈیسک اورکنسٹرکشن ایمنسٹی ہیلپ لائن کا قیام بھی اس ضمن میں سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف تعمیراتی پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے ستمبر 2022ء تک کی مہلت دی گئی ہے جو کمرشل پروجیکٹس کے لیے کافی مشکل ہے۔ بعض منصوبے اس نوعیت کے ہوتے ہیںجن پر اگر دن رات بھی کام کیا جائے تو دوسال میں ان کامکمل ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ خاص طور پر کورونا وبا کے باعث کام کی رفتار سست ہے۔اس لیے تکمیل کی تاریخ میں بھی توسیع کی ضرورت ہے جو کم از کم پانچ سال ہونی چاہیے۔جو منصوبے سائز میں زیادہ بڑے ہوں ان کو مکمل کرنے کے لیے پانچ سال سے زیادہ وقت بڑھانے کی آپشن بھی دی جائے۔کمرشل اور ڈومیسٹک تعمیرات کی تکمیل کے وقت کے لیے ایک ہی معیار مقرر کرناکسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ میعاد بڑھانے سے فائدہ یہ ہو گا کہ بڑے پروجیکٹس معیار کے مطابق تعمیرکیے جائیں گے جبکہ حکومتی دبائو کے پیش نظر کوالٹی کے معیار پر سمجھوتہ کرنے کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
اگر تحریک انصاف حکومت نے اس سکیم میں توسیع نہ کی تو اس کے کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں‘ آئیے ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں! سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیا کی کوئی بھی معیشت صرف سفید دھن کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر امریکا کی معیشت میں سے کالا دھن نکال دیا جائے تو شاید چند دنوں میں ہی یہ تنزلی کی طرف سفر کرنے لگے۔ پاناما جیسی ریاستوں میں سرمایہ کاری کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا بھر سے کالا دھن امریکا منتقل کیا گیا اور وہاں سے برطانیہ سمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی گئی۔ دبئی کا ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کو دعوت دی گئی کہ اپنا پیسہ دبئی لائیں، سرمایہ کاری کریں اور پیسہ کمائیں۔ یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے کمایا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے اربوں ڈالر دبئی منتقل ہوئے اور حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں اور آج بھی ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے یہ پیسہ کیسے کمایا۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک اتنی چھوٹ دے رہے ہیں وہاں پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کو بھی اس پالیسی پر مستقل مزاجی سے عمل کرناچاہیے۔ جو پیسہ دبئی، امریکا اور برطانیہ منتقل ہو رہا ہے‘ اسے پاکستان میں ہی انویسٹ کروانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں یہ سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہو سکتا ہے۔ پاکستانی رئیل اسٹیٹ میں سے پیسہ نکل کر ڈالر اور سونے کی شکل میں محفوظ ہوتا ہے‘ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ڈالر اونچی اڑان بھر سکتا ہے اور سونا تاریخ کی بلند ترین سطح سے بھی اوپر جا سکتاہے، مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہو سکتا ہے جسے روکنا شاید حکومت کے بس کی بات نہ ہو۔ ایسے وقت میں جب سیاسی طور پر بھی ماحول خاصا گرم ہو‘ گیارہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد حکومت کے خلاف جلسے کر رہا ہو، لانگ مارچ کی تیاری ہو رہی ہو، ایوانوں سے استعفے دینے کی باتیں ہو رہی ہوں اور سینیٹ کے انتخابات سر پر ہوں، کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم کی تاریخ کو نہ بڑھانا دانش مندانہ فیصلہ ثابت نہیں ہو سکے گا۔
حکومتی حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف اس طرح کی سکیموں کے خلاف ہیں۔ عالمی اداروں کی طرف سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ اس قسم کی سکیموں سے گریز کیا جائے اور ان میں مزید توسیع نہ کی جائے ورنہ کریڈٹ لائن بحال نہیں ہو سکے گی۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان اس طرح کی صورتحال سے دو چار رہا ہے لیکن دانشمندانہ اپروچ سے معاملات کو بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کو بتایا جا سکتا ہے کہ فی الحال کووڈ 19 کے باعث پوری دنیا کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک بھی منہ کے بل آ گرے ہیں‘ اگر یہ سکیم واپس لے لی گئی تو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک کی چالیس صنعتیں بند ہو سکتی ہیں اور ان کے ساتھ منسلک کروڑوں لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں جس سے نہ صرف غربت بڑھنے کے امکانات بڑھ جائیں گے بلکہ آئی ایم ایف کے ٹیکس اہداف بھی حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ جس طرح ماضی میں عالمی اداروں سے اس سکیم کو لانچ کرنے کی اجازت لی گئی تھی، اب اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ پھر توسیع لیناممکن ہے۔