مسائل میں ایک ایسی خوبی پائی جاتی ہے جس کی داد دینا تو بنتی ہے۔ یہ ہماری جان کبھی نہیں چھوڑتے یعنی زندگی بھر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مسائل کا کام ہمارے ساتھ ساتھ چلنا ہے اور ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ اُنہیں مسائل کے درجے سے نکال کر چیلنج کی منزل تک لائیں اور اُن سے بخوبی نپٹنے کی تیاری کرتے رہیں۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ معنی خیز بنانے کا اِس سے اچھا طریقہ کوئی نہیں۔ مسائل اس لیے ختم نہیں ہوتے کہ دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے، مسائل نمودار ہوتے رہیں گے اور اگر اُنہیں بروقت حل کرنے پر توجہ نہ دی گئی تو پنپتے بھی رہیں گے۔ کوئی بھی مسئلہ بیج کی مانند ہوتا ہے۔ اگر بیج کو زمین، کھاد اور پانی ملتا رہے تو اُسے تناور درخت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مسائل کو سازگار ماحول میسر رہے تو اُن کے پنپنے کا عمل جاری رہتا ہے اور معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرہ اس وقت مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ مسائل کی محض تعداد نہیں بڑھ رہی بلکہ اُن کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مسائل کی ایک عادت اور بھی ہے‘ یہ کہ اگر اُنہیں بروقت حل نہ کیا جائے تو اُن کے بطن سے مزید مسائل پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں معاملات پر انسان کا اختیار کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہی ہوتا آیا ہے! بہت سے چھوٹے مسائل اب بہت بڑے اور پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ صفائی ستھرائی سے متعلق صورتحال کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ گھر کا کچرا ڈھنگ سے ٹھکانے لگانے کے معاملے کو لاپروائی کی نذر کرتے رہنے سے اب شہر کے شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ صحتِ عامہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک طرف تو لوگوں میں صحت برقرار رکھنے کے حوالے سے شعور کی سطح گرتی جارہی ہے اور دوسری طرف سرکاری مشینری بھی اپنے حصے کا کام نہیں کر رہی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے یعنی کہ طرح طرح کے عوارض لاحق ہوتے جارہے ہیں اور عمومی صحت کا گراف تیزی گر رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کام کرنے کی سکت ہی متاثر نہیں ہورہی، لگن بھی ماند پڑتی جارہی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ معاشی ہو یا معاشرتی، ظاہری ہو یا باطنی، دینی ہو یا دُنیوی‘ حل اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب اُس کے ساتھ کچھ دیر ٹھہرا جائے۔ ہم بالعموم کسی بھی مسئلے سے نپٹنے کے معاملے میں جان چھڑانے جیسا انداز اختیار کرتے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ اِس لیے نہیں ہوتا کہ اُسے دیکھ کر اُسی طرح آنکھیں بند کرلی جائیں جس طرح بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے یا جان چھڑانے کو ترجیح دی جائے۔ ہر مسئلہ اوّل و آخر اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے حل کیا جائے۔ محض نظر انداز کردیے جانے سے کوئی بھی مسئلہ حل کی طرف نہیں جاتا بلکہ مزید پروان چڑھتا ہے، زیادہ پیچیدگی اختیار کرتے ہوئے زیادہ بڑے بگاڑ کی راہ ہموار کرتا ہے۔
عظیم طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا ''میرے بارے میں سب سے زیادہ کہی جانے والی بات یہ ہے کہ میں بہت عقل مند ہوں۔ ایسا نہیں ہے! میں کسی بھی طور اوروں سے زیادہ یا بہت زیادہ ذہین نہیں ہوں۔ معاملہ یہ ہے کہ میں مسائل کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہوں!‘‘ ہمارا بنیادی مسئلہ یہی تو ہے کہ ہم کسی بھی مسئلے کو اپنے سامنے پاکر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کے بجائے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ہماری ذہنی ساخت میں یہ انتہائی بے بنیاد تصور ٹھنسا ہوا، ٹھنکا ہوا ہے کہ مسئلے کو محض نہ دیکھنے سے راحت کا سامنا ہو جائے گا۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا کہ ایسا کچھ بھی ہونے دینا کائنات کی فطرت میں نہیں۔پاکستانی معاشرے میں مسائل کو چیلنج سمجھ کر اُن سے بھرپور جوش و خروش کے ساتھ نپٹنے کی ذہنیت مجموعی طور پر مفقود ہے۔ لوگ بہت سے مسائل کے ہاتھوں خاصی منتشر، بے ربط اور بے سمت زندگی بسر کر رہے ہیں مگر مسائل کے حل کی طرف نہیں آتے۔ یہ بھی تصور کرلیا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل خود بخود کمزور ہوتے چلے جائیں گے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب اُن کا وجود ہی نہ رہے گا۔ سادہ لوحی پر مبنی یہ سوچ اپنے آپ کو چَھلنے کے مترادف ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا بھی اِسی کو کہتے ہیں۔ مسائل کو بطریقِ احسن حل کرنے کے لیے ہمیں بھی وہی کرنا ہے جو البرٹ آئن سٹائن نے کیا۔ کسی بھی مسئلے کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اُسے وقت دینے کے معاملے میں منطقی سوچ اپنائیں۔ منطقی سوچ اپنائے بغیر ہم کسی بھی معاملے میں ڈھنگ سے کچھ سوچ سکتے ہیں نہ معیاری انداز سے کوئی فیصلہ ہی کرسکتے ہیں۔ لوگ بنے بنائے کھیل کو بھی عجلت پسندی یا بے صبری کے ہاتھوں بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ جو معاملات ایک مدت کے دوران بگڑے ہوں اُنہیں راتوں رات درست کرنے کی ہر کوشش انتہائی نوعیت کا بُودا پن ظاہر کرتی ہے اور عمومی سطح پر ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ علمی سطح پر غیر معمولی تحقیق سے وابستہ شخصیات مطلوب نتائج کے حصول کی خاطر بہت محنت کرتی ہیں۔ وہ مختلف امور پر مطالعہ کرتی ہیں، حقائق کی چھان پھٹک کے مرحلے سے گزرتی ہیں اور مطلوب نتائج تک پہنچتی ہیں۔ اگر وہ غیر ضروری اور غیر منطقی عجلت پسندی کا مظاہرہ کریں تو بنی ہوئی بات بھی بگڑ جائے۔ لوگ مسائل کو تیزی سے حل کرنے کی کوشش میں وہ سب کچھ بھی کھو بیٹھتے ہیں جو آسانی سے مل چکا ہو یا مل رہا ہو۔
آج ہر شعبے میں پیشرفت کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ کسی معاملے کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ مسابقت جان لیوا حد تک بڑھ چکی ہے۔ جسے کچھ کرنا ہے وہ اپنے شعبے کے مختلف پہلوؤں سے بے خبر رہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ خسارے سے دوچار رہتے ہیں۔ مسائل کی تعداد ہی نہیں شدت بھی ایسی بڑھی ہے کہ اب عجلت پسندی بیشتر معاملات میں انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں کسی بھی اور زمانے کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی درکار ہے اور المیہ یہ ہے کہ عمومی سطح پر سنجیدگی کو الوداع کہی جاچکی ہے! اہم ترین معاملات کو بھی سرسری طور پر قبول کرنے اور برتنے کی روش عام ہے۔ لوگ وہاں بھی سنجیدہ نہیں ہوتے جہاں سنجیدگی بقا کی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ کسی بھی معاملے میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو اُسے پنپنے میں دیر نہیں لگتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے کہ ہم زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں۔ اس معاملے میں ہمیں البرٹ آئن سٹائن بننا پڑے گا۔ مسائل سے دور بھاگنے یا اُنہیں ہانک کر ایک طرف کرنے کے بجائے اُن کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی روش اختیار کرنا پڑے گی۔ کوئی بھی مسئلہ اپنے مؤثر حل کے لیے جتنے انہماک کا متقاضی ہوتا ہے اُس سے کم انہماک بروئے کار لانے کی صورت میں مطلوب نتائج کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ آج کا پاکستانی معاشرہ مسائل سے اَٹا ہوا ہے۔ مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اُن سے نظر چرانے کی روش کسی بھی طور کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اہلِ دانش نے مسائل حل کرنے کے جتنے بھی طریقے بتائے اور سُجھائے ہیں اُن میں سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اُن سے خوفزدہ ہوئے بغیر اُن کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ جب ہم اس مرحلے سے گزریں گے تو مسائل کو سمجھنے کی توفیق بھی عطا ہوگی اور یوں ہم اُن کے حل کی طرف بھی بڑھ سکیں گے۔ ذہانت کس میں نہیں ہوتی؟ ہر انسان کسی نہ کسی سطح پر ذہانت کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو لوگ توجہ دیتے ہیں اُن میں ذہانت پروان چڑھتی ہے اور مسائل کے حل کی گنجائش بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم کسی بھی مسئلے کو جان کا روگ بنانے کے بجائے اُسے سمجھنے اور حل کرنے کو اپنا فرض گردانتے ہوئے اُتنی محنت کریں جتنی لازم ہے۔ ہر جینیئس نے یہی بتایا ہے کہ معاملات توجہ دینے سے درست ہوتے ہیں نہ کہ غیر معمولی ذہانت سے۔ اگر کسی میں ذہانت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو تب بھی توجہ نہ دینے پر معاملات تشنہ ہی رہ جاتے ہیں۔