تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-12-2020

ایک پنجابی محاورے کے مطابق …(2)

سابق گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے صوبے کے بہت سے سرکاری کالجوں کو یونیورسٹی کا چارٹر دلوایا؛ تاہم ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ یونیورسٹی کا درجہ پانے والے ہر کالج کے نام کے ساتھ یونیورسٹی کا سابقہ لگا دیا گیا‘ یعنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد‘ اسی طرح دیگر کالجز کے ساتھ ہوا۔ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے نام کے ساتھ لازمی نہیں کہ یونیورسٹی کا دُم چھلا زبردستی ٹانک دیا جائے۔ لندن سکول آف اکنامکس اپنی درجہ بندی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین جامعات میں شمار ہوتا ہے اور اس کے نام کے ساتھ یونیورسٹی کا لفظ موجود نہیں بلکہ سکول لکھا ہوا ہے۔ ہارورڈ بزنس سکول، ہارورڈ لاء سکول اور میساچیوسٹس انسٹیٹیوف آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) ایسے ناموں کی مثالیں ہیں جو اپنے اعلیٰ تعلیمی مقام اور معیار کے باعث دنیا بھر میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں لیکن ان کے ساتھ یونیورسٹی کا سابقہ یا لاحقہ نہیں لگا ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور جیسا تاریخی اور امتیازی حیثیت والا تعلیمی ادارہ اپنے پرانے نام کے ساتھ بھی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر سکتا تھا‘ مگر ہمارے ہاں بھیڑ چال کی روایت اور احساس کمتری بڑی شدت کے ساتھ طاری ہے۔
ملتان میں نشتر میڈیکل کالج کو بھی ستمبر 2017ء میں پنجاب اسمبلی سے پاس شدہ ایکٹ کے تحت یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔تین سال سے زائد عرصہ ہو چکا‘ مگر اس یونیورسٹی کو ڈگری جاری کرنے کا اختیار تک نہیں اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈگری جاری کر رہی ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کا پہلا اختیار اور پہلی ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ وہ ڈگری جاری کرنے والا ادارہ ہو اور یہاں حالت یہ ہے کہ پوری یونیورسٹی کا اپنا ایک بھی فیکلٹی ممبر نہیں ہے۔ صرف ایک وائس چانسلر یونیورسٹی کا تنخواہ دار ملازم تھا۔ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا کا جولائی 2020ء میں کورونا کے باعث انتقال ہو گیا۔ اب یونیورسٹی کو گزشتہ پانچ ماہ سے پرووائس چانسلر ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود چلا رہے ہیں؛ تاہم وہ خود نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے بجائے نشتر میڈیکل کالج کے پروفیسر ہیں‘ جو کاغذوں میں نشتر میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق شدہ Constituent college ہے۔ الحاق کیلئے آنے والی کمیٹی اور اس وقت اس سلسلے میں ہونے والے سوال و جواب بڑے دلچسپ تھے۔ کمیٹی کے سامنے فیکلٹی کی دو فہرستیں تھیں۔ ایک نشتر میڈیکل کالج کی اور دوسری نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی، یہ محض اتفاق تھا دونوں فہرستوں میں سرِ مُو فرق نہ تھا۔ اب یہی کچھ ایمرسن کالج کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ 
ایمرسن کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کم از کم چار الحاق شدہ تعلیمی ادارے ہوں۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے یونیورسٹی بننے کے لیے اس کے ساتھ چار عدد Constituent تعلیمی اداروں کا ہونا لازمی ہے۔ ایمرسن کالج کے لیے جن چار اداروں کا بندوبست کیا جا رہا ہے وہ اس کے دائیں بائیں موجود ہیں۔ کبھی یہ ساری زمین ایمرسن کالج کی تھی جس پر یہ تعلمیی ادارے بنائے گئے ہیں۔ جب ایمرسن کالج اپنی پرانی عمارت سے نئی جگہ پر منتقل ہوا تو جنوبی عمارت اس کا آرٹس بلاک کہلاتی تھی جبکہ شمالی عمارت اس کا سائنس بلاک تھی اور وہاں ایم اے کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں۔ پرنسپل صاحب بھی سائنس بلاک میں بیٹھتے تھے۔ سارا شور شرابا، ہنگامہ آرائی، گہماگہمی اور سیاسی ہلچل کا مرکز آرٹس بلاک ہوتا تھا۔ پھر آرٹس بلاک میں کالج آف ایجوکیشن آ گیا اور سائنس بلاک میں توسیع کے بعد سارے کا سارا ایمرسن کالج وہاں چلا گیا۔ درمیان میں ڈیڑھ فرلانگ کے لگ بھگ جو میدان تھا اس میں ہاسٹل بن گئے اور بعد ازاں ایک عدد گرلز کالج بھی تعمیر ہو گیا۔ کالج کے شمال مشرق میں خالی جگہ تھی۔ وہاں گورنمنٹ کالج آف سائنس بن گیا۔ اب یہی تین ادارے یعنی کالج آف ایجوکیشن، گورنمنٹ کالج آف سائنس اور گورنمنٹ گرلز کالج چونگی نمبر6 اس کے دیگر تین الحاقی ادارے ہوں گے اور چوتھا از خود ایمرسن کالج ہو گا۔ ایمرسن کالج صرف ایف اے، ایف ایس سی تک کا کالج رہ جائے گا اور سارے کا سارا بی ایس پروگرام (گریجوایشن)؛ اور ماسٹرز پروگرام ایمرسن یونیورسٹی کا تعلیمی حصہ بن جائیں گے۔ سو سال قبل کا ڈگری کالج سو سال بعد انٹرمیڈیٹ کالج بن کر رہ جائے گا، جس ڈگری کالج سے میرے والد گرامی نے، میرے بڑے بھائی نے اور میں نے گریجویشن کی تھی وہ ایم اے، بی اے اور بی ایس سی سے نیچے آ کر ایف اے، ایف ایس سی تک کا تعلیمی ادارہ رہ جائے گا۔
اس وقت ایمرسن کالج میں ساڑھے سات ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان طلبہ و طالبات میں ان گنت ایسے ہیں جو میرٹ کے اعتبار سے زکریا یونیورسٹی میں داخلہ لے سکتے تھے مگر صرف اس بنا پر اس کالج میں داخل ہوئے کہ جس بی ایس پروگرام کیلئے زکریا یونیورسٹی فی سمسٹر اکتیس ہزار کے لگ بھگ فیس لے رہی ہے‘ ایمرسن کالج میں اسی مضمون میں آپ پہلے سمسٹر کیلئے 9785 روپے اور پھر اگلے تمام سمسٹرز (بی ایس میں کل 8 سمسٹرز ہیں) کیلئے فی سمسٹر صرف 6110 روپے ادا کریں گے‘ یعنی چار سال کے دوران آٹھ سمسٹرز کیلئے آپ کل 57555 روپے فیس ادا کریں گے؛ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ستاون ہزار روپوں میں سے طلبہ مبلغ 5300 روپے بطور رجسٹریشن اور پانچ ہزار روپے فی سمسٹر (8سمسٹر) امتحانی فیس کی مد میں چالیس ہزار روپے یعنی کل پینتالیس ہزار تین سو روپے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو ادا کرتے ہیں۔ کالج بذات خود آپ سے صرف بارہ ہزار دو سو پچپن روپے لیتا ہے اور اس میں سے مبلغ تین ہزار روپے لائبریری سکیورٹی آپ کو تعلیم ختم ہونے پر واپس کر دیتا ہے‘ یعنی فیس کی مد میں آپ کالج کو چار سالوں میں کل نو ہزار دو سو پچاس روپے ادا کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں طلبہ کالج کو ادا کردہ ایک روپے کے مقابلے میں پانچ روپے بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کو ادا کرتے ہیں‘ حالانکہ امتحان کالج لیتا ہے یونیورسٹی صرف رزلٹ کارڈ جاری کرتی ہے۔ اور طرہ یہ کہ رزلٹ کارڈ کے علیحدہ سے پانچ سو روپے وصول کیے جاتے ہیں۔
ایم ایس سی/ ایم اے کی تعلیم کے عوض پہلے سمسٹر میں کل فیس مع رجسٹریشن 14800 روپے ہے اور اگر آپ نے بی ایس زکریا یونیورسٹی سے کیا ہو تو یہ رجسٹریشن فیس جو مبلغ 5300 ہے ادا نہیں کرنا پڑتی اور آپ محض 9500 روپے میں داخلہ لے لیتے ہیں اور پھر اگلے تین سمسٹرز میں چھ ہزار آٹھ سو روپے فیس ادا کرتے ہیں۔ اس میں سے پانچ ہزار روپے فی سمسٹر امتحانی فیس بہائوالدین زکریا یونیورسٹی لے جاتی ہے۔ ایمرسن کالج میں ماسٹرز کرنے کیلئے آپ دو سال کے دوران جتنی فیس مع داخلہ ادا کرتے ہیں‘ اس سے زیادہ رقم آپ کسی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت پہلے دن ادا کر دیتے ہیں۔ جب ایمرسن کالج کو‘ جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے ماسٹرز لیول کی تعلیم دے رہا ہے‘ یونیورسٹی بنائیں گے تو کیا ہوگا؟
پہلا کام تو یہ ہوگا کہ ماسٹرز ڈگری تک کی تعلیم دینے والا یہ سو سال قدیم ادارہ ایک صدی کے بعد 'اپ گریڈ‘ ہو کر ڈگری کالج سے انٹرمیڈیٹ کالج ہو جائے گا اور اس کے طلبہ جو بی ایس میں فی سمسٹر (علاوہ لائبریری سکیورٹی و رجسٹریشن) چھ ہزار ایک سو پچاس روپے کے لگ بھگ فیس ادا کرتے ہیں‘ یونیورسٹی بننے کے بعد فی سمسٹر اکتیس ہزار روپے ادا کریں گے، یعنی اس 'اپ گریڈیشن‘ کے عوض وہ فی سمسٹر تقریباً اس فیس سے پانچ گنا زیادہ ادا کریں گے جو وہ اب کالج میں ادا کر رہے ہیں۔ پنجابی میں اس کے لیے ایک محاورہ ہے کہ مج ویچ کے کھوتی لئی، دودھ پینوں گئے تے لِد ہونجنی پئی یعنی بھینس بیچ کر گدھی خریدی اور دودھ پینے سے محروم ہونے کے علاوہ اس کی لید بھی صاف کرنا پڑ گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved