سال 2020ء جہاں پوری دنیا کے لئے ایک مشکل سال رہا‘ وہیں تیسری دنیا کے ممالک کی مشکلات بھی دوگنی کر گیا ہے لیکن یہ کوئی پہلا ایسا سال تو نہیں۔ فرسٹ ورلڈ کی جانب سے تیسری دنیا کو دئیے گئے تحفوں میں (خاص طور پر کالونیل نظام سے آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں) آلہ کار حکومتوں کا قیام یا ان میں اس دور میں نوازے گئے طبقات کی شراکت بھی شامل تھی۔ 40 کی دہائی میں جنگ عظیم دوم کے بعد جب تاج برطانیہ کمزور ہو گیا تو مجبوراً اسے غلام ممالک کو آزادی دینا پڑی۔ دیگر محرکات کے ساتھ کالونیل نظام سے پوری دنیا کی آزادی کا سہرا اگر ہندوستان کے سر باندھا جائے توغلط نہ ہو گا۔ ہندوستان کی آزادی پسند اقوام نے برٹش ایمپائر کو کبھی چین سے حکومت نہیں کرنے دی۔ 1757ء سے لے کر 1947ء تک لگ بھگ 2 سو برس تک ہندوستانی اقوام طاقت ور انگریز سے آزادی کے لئے بر سر پیکار رہیں۔ ٹیپو سلطان، شاہ ولی اللہ کی تحریک،1857 کی جنگ آزادی، مدرسہ دیو بند، کانگریس، علی گڑھ، مسلم لیگ، تحریک خلافت جیسی تحریکوں کا انگریز سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہندوستان چھوڑ دو۔ اگر غدار طبقات اپنے معمولی مفادات کی خاطر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد نہ کرتے تو آج دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا، طاقت کا توازن بھی کچھ اور طرح کا ہوتا۔
پچھلی دو صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے غلبے نے جس طرح اقوام عالم کی دولت کو نچوڑا‘ ایسا نہ ہو پاتا۔ دنیا میں پایا جانے سیاسی اور معاشی تفاوت بھی اس قدر گہرا نہ ہوتا۔ روئے ارض پر کالونیل نظام کے خلاف‘ آزادی کا شعور پیدا ہونے سے طاقت ور اقوام کے لئے براہ راست کنٹرول مشکل ہوا تو نیو کالونیل ازم کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ڈوبتے برطانوی سامراج کی وراثت یعنی ابھرتی سرمایہ دار طاقت امریکا کے حصے میں آئی۔ بوڑھی طاقت نے جوان طاقت سے الحاق کر کے اپنے حلیفوں کو بھی نئی طاقت کا مطیع کر دیا‘ یوں ایک فرسٹ ورلڈ تشکیل دی گئی‘ جسے دنیا آج جی سیون (اب ایٹ) کے نام سے جانتی ہے۔ برطانوی سامراج جاتے جاتے آزادی حاصل کرنے والے خطوں میں ایسی جغرافیائی تبدیلیاں کر گیا کہ ان ملکوں میں حکومت ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میں ہی جا سکے تاکہ بظاہر آزادی کی آڑ میں ایک بار پھر نیا سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا پر مسلط رہے۔ اس کے لئے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے کنٹرولڈ ادارے بنائے گئے۔ یوں جن جن ممالک نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی آج ان کی اکثریت کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے۔
قائد اعظم کے مضبوط جمہوری فکر، معاشی مساوات، عدل اور با شعور معاشرے کے تصور کے برعکس آج ہم جس سوسائٹی میں رہ رہے اس کا بغور جائزہ لیں تو قائد کے افکار سے لا تعلق سوسائٹی نظر آتی ہے۔ یوں زندگی میں آنے والی مشکلات کا بحیثیت منظم قوم مقابلہ کرنے کی جو اہلیت پیدا ہونی چاہیے تھی‘ وہ نہ ہو سکی۔ اس لئے آزمائش کے ادوار میں قوم کے برعکس قیادتوں کا رسپانس منقسم اور مفاداتی نظر آیا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے ہماری معاشی ترجیحات کا تعین کرتے نظر آتے ہیں۔ اور تو اور بجلی، گیس اور ڈالر کی قیمتوں کا تعین کرنا تک ہماری حکومتوں کے اختیار میں نہیں۔ 73 برسوں میں صنعت تو کیا زراعت کو بھی منصوبہ بند معیشت کے دائرے میں نہیں لایا جا سکا۔ قومی اہداف کا حقیقی تعین اور اس کے حصول کی حکمت عملی حکمرانوں کی ترجیح ہی نہیں رہا۔
ہمارا موجودہ نظام تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، انرجی، روزگار جیسے بنیادی مسائل تک حل نہیں کر سکا۔ ہمارا شمار دنیا کی پسماندہ اور مقروض اقوام میں ہوتا ہے۔ اس وقت کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہر طرح کے موسم، سونا اگلتی زمین، معدنی ذخائر، ہیومن ریسورسز اور جدید ٹیکنالوجی کی جانب پیش رفت کا پورا ماحول رکھنے کے باوجود ایسی کیا دقتیں ہیں جو حکمرانوں کو کوئی ایک حکمت عملی بنانے سے روکتی ہیں۔ یہاں ایک امر قابل غور ہے کہ خود یہ چھوٹا سا فیصلہ ساز بالا طبقہ نا صرف شاہانہ طرز زندگی رکھتا ہے بلکہ اس کے کاروبار بھی جدید خطوط پر ترقی کر رہے ہیں، ان کی اولادیں جدید علوم میں فارن گریجویٹ ہیں، مختصراً بہترین طرز زندگی کے وسائل ان کی دسترس میں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ فیصلہ سازی کا رخ مخصوص مفادات کی طرف موڑنا ہے۔ پچھلے 73 برسوں میں جمہوریت اور سول سپریمیسی کی لڑائیاں تو لڑی گئیں لیکن اس کا نتیجہ بحق عوام نہیں نکل سکا‘ بلکہ ہر بار انہی طبقات میں سے ایک مخصوص خاندان یا گروہ مزید مضبوط اور طاقتور ہوا ہے۔ بظاہر اس تمام سیاسی جدوجہد میں عوام کی بات کی جاتی ہے۔ لانگ مارچوں، جلسوں اور ریلیوں میں کی جانے والی تقریروں میں اس قدر عوام کا دکھ اور درد بیان کیا جاتا ہے کہ سننے والے کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں لیکن درحقیقت اپنے مفادات پر پڑنے والی زد ان حکمران طبقات کو میدان میں اترنے پر مجبور کرتی ہے۔ مزید بغور جائزہ لیں تو دراصل دونوں جانب مقابلہ مفاداتی طبقات کا ہی ہے لیکن ہر بار چارہ عوام کو بنایا جاتا ہے۔ بنیادی ترین حقوق سے محروم عام آدمی مجبور ہے کہ وہ پھر سے انہی طبقات پر بھروسہ کرے‘ جو اس کی اس حالت کے ذمہ دار ہیں۔ قربانیوں کے نام پر وہ خراج عوام سے وصول کیا گیا ہے کہ آج وہ اور ان کی آنے والی نسلیں تک گروی ہو چکی ہیں‘ یعنی مقروض ہیں۔
آمریت کے سال ہوں یا جمہوری دور‘ بدلا کیا ہے ؟ آج بھی لوگ بھوک سے خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ عصمتیں لٹ رہی ہیں۔ علم کے نور پر اندھیرے غالب ہیں۔ کبھی فاقہ کشوں کے زرد چہرے اور بنا گوشت کے ڈھانچے تو دیکھیں۔ کبھی گاڑی روک کر کسی چوک میں کھڑے مزدوروں میں سے کسی ایک کو آواز دینے کا تجربہ کر کے دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ سارے فاقہ کش چیلوں کی طرح آپ جھپٹ پڑے ہیں۔ ہاتھ جوڑ کر آپ سے مزدوری کی بھیک مانگیں گے۔ دل دہلا دینے والی اس غربت کے سامنے اکنامک انڈیکیٹرز کے گورکھ دھندے کس کو سمجھ آتے ہیں؟ دو جمع دو کا جواب چار روٹیاں دینے والے کو کیسے تجارتی توازن کی کہانیاں سمجھ آئیں گی؟ یاد رکھیں غربت کی آمریت دور کئے بغیر جمہوریت کا درس نہیں سمجھایا جا سکتا۔ ہمارے حکمران دعوے تو اسلام، انقلاب، انصاف اور ریاست مدینہ وغیرہ کے کرتے رہے ہیں‘ لیکن عملی طور پر طبقاتی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو عوام پر مسلط کر رکھا ہے‘ کیونکہ یہ ان طبقات اور عالمی طاقتوں کو موافق ہے۔ عوام سے موافقت نہیں تو کیا ہوا۔
لیکن اب عوامی شعور بدل رہا ہے ۔ احتساب کا نعرہ لگا کر تبدیلی کی امید دلانے والے خود بے نقاب ہو رہے ہیں۔ قدرتی جبر کے ذریعے عام آدمی کی رسائی میں آنے والی سمارٹ فون ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے ماضی کی بہت سی قدغنون کو دور کر دیا ہے ۔ اب دنیا میں کوئی آہنی پردہ (آئرن کرٹن) باقی نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کی موجودگی میں جھوٹ بولنا آسان نہیں رہا۔ پہلی اور تیسری دنیا کا فاصلہ سمٹ گیا ہے ۔ کون کہاں بیٹھ کر کیا کرتا ہے سب کچھ لمحوں میں آشکار ہو جاتاہے ۔ لیکن اس دور جدید میں بھی حکمرانوں کا ہتھیار وہی سب سے پرانا ہے کہ لوگوں کو بنیادی مسائل میں اس قدر الجھا کر رکھو کہ جانتے بوجھتے بھی ان کے پیچھے جانے پر مجبور ہوں۔ تیسری دنیا میں 2020 کوئی نیا مشکل سال نہیں، ان کے غم کی رات بہت طویل ہے ۔ صرف حقیقی شعور ہی اجالا ہے !!