دسمبر کا مہینہ ہمیشہ ہمیں ایک ایسے سیاسی بحران کی یاد دلاتا رہے گا جسے طاقت کے ذریعے سنبھالنے کی کوشش میں ہم آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگال کی علیحدگی کے اسباب داخلی سیاسی بحران کی کوکھ سے نمودار ہوئے لیکن اس ایشو کو اگر تھوڑا گہرائی میں جا کے دیکھا جائے تو بنگالیوں کی برگشتگی کے عناصر میں تقسیم ِہند کا وہ بنیادی فارمولہ بھی کارفرما تھا جسے برطانوی مقتدرہ نے اس خطے میں اپنے مستقبل کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دیا تھا۔حال ہی میں برطانیہ میں تعینات امریکی سفیرWoody Johnson نے انکشاف کیا کہ برطانوی وزیراعظم اٹیلی نے 1947ء میں اُس وقت کے امریکی سفیر Lewis W. Douglasکو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے چند سالوں میں بنگال کو علیحدہ مملکت کی صورت میں ڈھال لیا جائے گا۔بنگال کی علیحدگی اُسی عالمی سکیم کا حصہ تھی جس میں رنگ بھرنے کی خاطر ہماری حکمران اشرافیہ کی معاونت سے سیاسی بحران پیدا کرایا گیا۔ عالمی برادری نے بھارت کو تو ایک خودمختاراور منظم ریاست بن کر ابھرنے میں مدد فراہم کی لیکن اُسی ٹرانزٹ پیریڈ میں برطانیہ اور امریکہ نے ہماری کمزوریوں کا بھرپوراستحصال کیا۔ طویل عرصہ تک اس مملکت کو سرزمین بے آئین رکھنے کے علاوہ براہ راست مداخلت کر کے پہلے سے بنے بنائے سسٹم کو بیکار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا ۔
افسوس کہ ہمیں ماضی کے اُس ریکارڈ تک رسائی نہیں جس سے پتا چلتا کہ ہندوستان کی آزادی کی سکیم کو عملی جامہ پہناتے وقت عالمی طاقتیں کیا سوچ رہی تھیں‘ تاہم گاہے بگاہے چھن چھن کے باہر آنے والی ادھوری معلومات سے اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسی نوزائیدہ مملکت کی تخلیق کے باوجود مغربی طاقتیں ہمیں ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پہ دیکھنے کی ہرگز متمنی نہ تھیں۔خود فلاحی معاشروں اور جمہوری آزادیوں سے لطف اندوز ہونے والی مغربی مملکتوں نے روزِ اول سے یہاں عوامی حمایت سے محروم ایسی استبدادی حکومتوں کی پشت پناہی کو شیوہ بنا لیاجو قومی بقا کے مقاصد کو مقدم رکھنے کی بجائے عالمی سیاست کے تقاضوں کی تکمیل کو اولیت دیتی رہیں۔بنگال کی علیحدگی کے ضمن میں ابھی تک کسی آزاد اورغیرجانبدار محقق نے اس زاویے سے تحقیق نہیں کی کہ وہ کون سے خارجی عوامل تھے جو تراشیدہ سیاسی بحرانوں کی دھند میں تحریک پاکستان کی اساس رکھنے والے تعلیم یافتہ بنگالیوں کو علیحدگی کی منزل تک پہنچانے کا وسیلہ بنے۔اگرچہ سرخضر حیات ٹوانہ کی سوانح لکھنے والے مغربی محقق ٹالبوٹ کے علاوہ جنرل شیرعلی اور جنرل اعظم خان کی خودنوشتوں میں بھی مملکت کی تخلیق کے اصل محرکات اور سقوطِ بنگال کے پس منظر بارے واضح اشارے ملتے ہیں‘ لیکن ان موہوم اشارات کی تفہیم کی جسارت ابھی تک کوئی نہیں کر سکا۔ قرائین بتاتے ہیں کہ بنگال کی علیحدگی کے بعد عالمی طاقتوں کی طویل المدت پالیسی میں پاکستان کی نسلی و لسانی بنیادوں پر مزید تقسیم کا منصوبہ بھی شامل ہو گا‘اسی لئے آج بھی سانحۂ بنگال ہی کو باقی ماندہ پاکستان میں پختون‘بلوچ‘سندھی اور پنجابی قوم پرستی کی تحریکوں کو ابھارنے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے؛چنانچہ جب بھی یہاں سیاسی کشمکش کے آثار ہویدا ہوئے تو اس مملکت کے اہلِ دانش سانحۂ بنگال کی اُن اذیت ناک یادوں سے اثر لیکر پریشان ہو جاتے ہیں جن کی حقیقت آج بھی پردہ ابہام میں مستور ہے۔بنگال ایک ایسے ماحول میں ہم سے جدا ہوا جب پوری قوم آخری لمحے تک سانحے کے وقوع پذیر ہونے سے لاعلم رہی‘15 دسمبر تک مغربی پاکستان کے عوام چین کی نیند سوتے رہے‘قوم 16 دسمبر کی صبح اس وقت اچانک مایوسی کے اندھیروں میں گھر گئی جب ڈھاکہ ڈوب چکا تھا۔اس مرحلے پہ لوگوں کا ردعمل وہی تھا جو کسی شکست خوردہ قوم کا ہوتا ہے۔کاش ہمارے اربابِ اختیار ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کی روایت قائم کرتے‘مگرہم آج بھی اپنی کوتاہیوں کے جواز پیش کر کے خود فریبی سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ شکست کے باوجود پچھلے پچاس سالوں کی سیاسی تاریخ اس اَمر کی گواہ ہے کہ ہماری ریاستی مقتدر نے لوگوں میں قومی شعور بیدار کرنے والی وہ مربوط سوچ پروان نہیں چڑھائی جو ملّی وحدت کی صورت میں مملکت کی قوتِ بنتی‘بلکہ حکمران اشرافیہ قومی یکجہتی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کرعالمی مقتدرہ کے مفادات کی تکمیل میں مشغول نظر آئی اور یہی سرگرانی ہماری معاشی زبوں حالی اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ان ساری لن ترانیوں کے باوجود پاکستانی سماج میں ذہنی ارتقا کا سفر کبھی رکا نہیں‘آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوم کی اکثریت اس ذہنی بلوغت کو پا چکی ہے جو سیاسی اور سماجی آزادیوں کے شعورکو قوم و مملکت کی تشکیل میں بروئے کار لاتی ہے۔1960-70 ء کی دہائی میں جب بنگال میں سیاسی بحران سر اٹھا رہا تھا اس وقت ملک کی دونوں بڑی جماعتیں‘ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی نے اپنی عوامی طاقت کو اس بحران کے عسکری حل کی حمایت میں جھونک کر تقسیم کے عمل کو تیز تر بنایا‘اگر پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی بنگالیوں کے مینڈیٹ کے خلاف مزاحمت کی بجائے تنازعات میں توازن کی خاطر طاقت کے مراکز پہ دباؤ ڈالتیں تو آج ہماری تاریخ مختلف ہوتی۔جماعت اسلامی کی قیادت رموزِ حکمرانی کے فن اور عوامی سیاست کی سائنس سے ناواقف تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو حصول اقتدار کی خاطر جانتے بوجھتے ہوئے عالمی قوتوں کی سکیم کا حصہ بن گئے۔صورتحال یہ تھی کہ ہم لوگ اس دام ہم رنگِ زمین سے بچ نہیں سکتے تھے کیونکہ ہماری منتخب سیاسی قیادت‘حکمران اشرافیہ اوراجتماعی دانش اس وقت تک سیاسی پختگی کے اس مقام تک نہیں پہنچی تھی جیسی آج ہمیں دکھائی دیتی ہے ۔ہمیں سیاسی خرابیوں اورجمہوری بدنظمی سے اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب یہ ملک سرزمینِ بے آئین ہے نہ سیاسی قیادت قومی سلامتی کے دفاع سے لاتعلق‘اس وقت ذہنی التباسات کی دھند چھٹ چکی ہے‘قوم کی اکثریت نے اپنی بقا کے تقاضوں کو خوب پہچان لیا ہے۔موجودہ کشمکش میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں اور علاقائی شناخت کی حامل چھوٹی بڑی پارٹیوں کے علاوہ ہمارے سماج کی مذہبی پیشوائی کا فرض ادا کرنے والے علماء کرام بھی سیاسی ارتقا کی جدلیات کو سمجھنے لگے ہیں۔گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران فطرت نے تدبیرِ مخفی سے ہمارے ذہنی ارتقا کے رجحان روز افزوں رکھا‘اگر ہم پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو ایوب خان کی نسبت ضیا الحق نے اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود زیادہ بہتر انداز میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کو منیج کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی پاپولر سیاسی لہر نے قوم کے دل و دماغ میں سیاسی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حصول کی ایسی جوت جگائی جس نے ہمارے سماج کو اجتماعی زندگی کے مفید ادراک سے جوڑ دیا۔بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے مابین برپا رہنے والی ناگوارکشمکش کے دوران بھی عام لوگوں کو ملکی امور میں شمولیت کا موقعہ ملا۔اسی طرح پرویز مشرف نے امریکہ کو زیادہ بہترانداز میں ہینڈل کر کے اس ملک کو عالمی استعمار کے خونخوار جبڑوں سے نجات دلانے میں مدد دی۔
بیشک گزشتہ چالیس سالوں سے جاری افغان جنگ کے دوران اس قوم نے بہت کچھ کھویا‘ لیکن ان دونوں جنگوں کے مظاہر نے جہاں دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو ناقابلِ یقین پسپائی کا مزہ چکھایا‘وہاں انہی شورشوں نے اس ملک کو دفاعی اور سیاسی اعتبار سے ناقابل تسخیر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔دوسری جانب آمریت کے بحرانوں اور حالات کی ستم ظریفیوں نے آسائش پسند اشرافیہ کے اندر سیاسی مزاحمت کی ایسی روح پھونک دی جس نے ہمارے سماج کے اُن مراعات یافتہ طبقات کو ملک میں جمہوری آزادیوں اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کی جدوجہد میں قربانیاں دینے کے قابل بنایا جو منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہوتے تھے۔قصہ کوتاہ‘اس وقت ملک میں برپا سیاسی جدلیات ایسی صحت مند سیاسی سرگرمی بن کر ابھر رہی ہے‘جو ہمیں عالمی طاقتوں کی ذہنی و اقتصادی غلامی سے نجات دلانے کا ذریعہ بنے گی۔ہماری قومی قیادت آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے جس بنیادی نقطہ پہ متفق ہوئی‘اسی میں مملکت کی بقا کا سامان اور قومی وحدت کا جامع میکنزم موجود ہے ۔