جزیرہ سر بمہر ہے۔ کوئی وہاں سے باہر نکل سکتا ہے نہ اندر داخل ہو سکتا ہے۔
یہ گئے وقتوں کی طلسماتی داستان نہیں جس میں پریاں اور شہزادے جزیرے میں قید کر دیے جاتے تھے۔ ان داستانوں میں ایک بھاری بھرکم، ڈراؤنا، دیو، بھی ہوتا تھا۔ یہ دیو، کبھی ولن کا کردار ادا کرتا تھا اور کبھی مددگار ثابت ہوتا تھا۔ ایک فقیر قسم کا کریکٹر بھی ہوتا تھا جو مشکلات حل کرتا تھا۔ پیر تسمہ پا بھی ہوتا تھا جو دھوکے سے گردن پر سوار ہوتا اور پھر اترنے کا نام نہ لیتا۔ کوہ ندا بھی ہوتا تھا جہاں آواز سن کر، پیچھے دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا تھا۔ ان داستانوں میں سب کچھ ممکن تھا۔ تپتے سلگتے صحراؤں میں، عین سراب کے بیچ، پانی کے چشمے ابل پڑتے، گھوڑے پرندوں کی طرح اُڑتے اور سمندر جادو کے زور سے پار کیے جاتے۔
مگر یہ سب داستانیں تھیں۔ خیالی! تصوّراتی! آج جزیرے حقیقت میں سر بمہر ہیں۔ سِیل کر دیے گئے ہیں۔ جنوبی بحرالکاہل اور بحرِ ہند کے درمیان اور ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع، دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ، مقفل کر دیا گیا ہے۔ جو وہاں ہیں وہ جزیرے سے نکل نہیں سکتے۔ جو باہر ہیں وہ اندر نہیں جا سکتے۔ عجیب ڈرپوک ہیں اس جزیرے والے! لکڑی کے بنے ہوئے آئٹم اور کھانے پینے کی اشیا لے جانے پر پہلے ہی پابندی تھی۔ اب انسان بھی نہیں جا سکتے۔ وہاں سے بھی نہیں آ سکتے۔ جزیرے سے باہر جانا ہو تو پہلے ہوم آفس کو درخواست دیں۔ جانے کی وجہ بتائیں۔ وہ فیصلہ کریں گے کہ یہ ایمرجنسی کا معاملہ ہے یا نہیں! اور جس نے سچ بولنا ہو کہ ماں باپ سے ملنے جانا ہے تو اسے تو اجازت ملنے کا امکان بھی نہیں۔ یہ لوگ والدین کو خاندان کا حصہ شمار ہی نہیں کرتے۔ یہ مرتبہ صرف بیوی اور بچوں کو حاصل ہے۔ جزیرہ چھوڑنے کی اجازت مل جائے تو واپسی پر قرنطینہ میں رکھتے ہیں جس کے لیے فی کس زر کثیر وصول کرتے ہیں۔ چار پانچ افراد کے کنبے کو یہ ''سرکاری‘‘ قرنطینہ خاصا کمر توڑ پڑتا ہے۔
مجھے اس جزیرے سے کوئی دلچسپی نہیں سوائے اس کے کہ وہاں کچھ سنہری پرندے ہیں۔ ان پرندوں میں میری جان ہے بالکل اسی طرح جس طرح داستانوں میں شہزادے یا شہزادی کی جان توتے میں ہوتی تھی۔ رواں سال، اپریل میں جانا تھا! کورونا کا ڈراؤنا دیو، گرز ہاتھ میں پکڑ کر راستے میں کھڑا ہو گیا۔ پوتی اور پوتوں کو ملے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے۔ کمپیوٹر پر ہر روز با تصویر بات ہوتی ہے مگر انہیں چھوا نہیں جا سکتا۔ گود میں نہیں بیٹھ سکتے۔ کندھے پر نہیں چڑھ سکتے۔ ہاتھ سے قلم نہیں چھین سکتے۔ قیمتی کاغذات پر لکیریں نہیں ڈال سکتے۔ کتابوں سے کھیل کھیل کر ان کے ٹائٹل نہیں پھاڑ سکتے۔ وہ مطالبے پورے نہیں کرا سکتے جن کی ان کے ماں باپ اجازت نہیں دیتے۔ پارک، ریستوران، بازار جانے کی ضد نہیں کر سکتے۔ نئے کھلونے نہیں خرید سکتے۔ رات سونے سے پہلے کہانی نہیں سن سکتے۔ عالم یہ تھا کہ ایک طرف زہرا لیٹتی تھی‘ دوسری طرف حمزہ۔ ہر ایک چاہتا کہ رُخ اس کی طرف ہو۔ کمپیوٹر پر ملاقات بھی کیا ملاقات ہے۔ سراب سے پانی پینے والی بات ہے۔ بقول فراز:؎
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
ہر عمر کے بچے کا اپنا چارم اور اپنا مزا ہوتا ہے۔ ایک بار عمر کا جو مرحلہ گزر جائے، واپس نہیں آتا۔ اگر آپ نے اپنے پوتے یا نواسے یا پوتی یا نواسی کی عمر کا ایک سٹیج مِس کر دیا تو یوں سمجھیے، فلم کے ایک حصے سے بہرہ مند نہیں ہو سکے۔ کہانی مکمل نہیں ہو سکے گی۔ چھ سالہ سمیر جب کہانی سناتا ہے، فتح جنگ پنڈی گھیب کی خالص ہندکو آمیز پنجابی میں، مگر انگریزی لہجے میں، تو اس کا اپنا ذائقہ، اپنا لطف اور اپنا سرور ہے۔ تین سالہ سالار کی گفتگو کا اپنا رنگ ہے۔ اس کے گھر میں سب اردو بولتے ہیں مگر کارٹونوں کا کرشمہ کہ وہ زبانِ فرنگ کی طرف مائل ہے۔ ماں کو تلقین کر رہا تھا کہ آپ کو سوری کہنا چاہیے۔ ماں نے سوری کیا تو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ''اِٹ اِز او کے‘‘۔ اس کا بڑا بھائی، آٹھ سالہ تیمور، جب بھی کوئی مضمون لکھتا ہے تو ماں کو کہتا ہے کہ یہ ابو (دادا) کو بھیجیں۔ اسے یاد ہے کہ یہ کام کون کراتا تھا۔ جب بھی ہم سیر سے، یا لائبریری سے، یا آئس کریم کھا کر، واپس آتے تو میں اسے کہتا اب سارا حال لکھو۔ فوراً بیٹھ کر، جتنی انگریزی آتی، اسے بروئے کار لاتے ہوئے لکھتا اور آ کر دکھاتا۔ اردو وہاں، دیار غیر میں، ان کے ماں باپ پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حمزہ اور زہرا کے باپ نے، شدید مصروفیت کے باوجود ان کے لیے وقت نکالا، مشقت کی، اور اردو لکھنے پڑھنے میں انہیں رواں کر دیا۔ اب وہ اردو میں کہانیوں کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں۔ کچھ مشقیں میں یہاں سے بھیج دیتا ہوں جو وہ کر کے مجھے میل یا وٹس ایپ کر دیتے ہیں۔ رہی فارسی، اِس خانوادے میں کئی نسلوں سے چلا آتا تہذیبی نشان، تو اُس کی اِس نسل میں پذیرائی کی امید ہے نہ حالات ہی اس کے موافق ہیں۔ یہ سلسلہ آگے موقوف ہی لگتا ہے۔ زینب، گرما کی تعطیلات گزارنے لاہور سے یہاں اسلام آباد آتی ہے۔ دو سال پہلے، جب وہ ساتویں میں تھی، اسے فارسی شروع کرائی‘ مگر اگلی گرمیوں میں آئی تو صاف صاف کہہ دیا کہ نانا ابو! میں یہاں آرام کرنے آتی ہوں، پڑھنے نہیں آتی۔ میں ہنسا اور کہا تو صرف یہ کہا کہ آپ کی اماں تو ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی! چند روز پڑھنے کا بھی فائدہ ہو گیا۔ کلاس میں ایک دن استانی نے پوچھا علامہ اقبال کی کتابوں کے نام کون بتائے گا! سخت افرنگ زدہ کلاس میں وہ واحد بچی تھی جو بتا سکی۔ استانی نے اس ''علم‘‘ کا ذریعہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ کتابوں کے نام نانا ابو نے یاد کرائے تھے۔
بچوں کا دادا دادی اور نانا نانی سے اتحاد فطری اور قدرتی ہے۔ ان کی وہ باتیں جو ان کے والدین نہیں سنتے، والدین کے والدین سنتے ہیں اور بہت دلچسپی سے سنتے ہیں۔ بچوں کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ بعض اوقات بچوں کی معقول باتیں بھی اس مصروف اور ہنگامہ خیز، تیز، زندگی میں والدین نہیں مانتے۔ بزرگ ایسے مواقع پر ''سفارت کاری‘‘ کا ہنر استعمال کرتے ہوئے یہ باتیں منوا لیتے ہیں۔ یوں بچوں کی داد رسی ہو جاتی ہے۔
ایک باریک نکتہ اس سارے قصے میں یہ ہے کہ اس پھل کی مٹھاس وہی جانتا ہے جو اسے کھاتا ہے۔ دنیا کی کسی زبان، کسی لغت میں اتنی صلاحیت نہیں کہ جو شخص ابھی دادا یا نانا نہیں بنا، اسے یہ سمجھا سکے کہ اس رشتے میں کیا طلسم ہے اور کیسا افسوں ہے؟ یہ تعلق الفاظ سے ماورا ہے۔ ماں اور بیٹی کی طرح یہ رشتہ بھی شاید بہشت سے براہ راست اترا ہے۔ عمر کے اُس حصے میں جب انسان اپنے آپ کو زائد از ضرورت اور ایکسٹرا سمجھنے لگتا ہے، پوتے نواسے اور پوتیاں نواسیاں، سب اپنی محبت اور وابستگی سے، اور ہر معاملے میں طرف داری کر کے، باور کراتے ہیں کہ ''آپ بہت اہم ہیں۔ اتنے کہ ہماری تو ساری دنیا آپ ہی کے گرد گھومتی ہے‘‘۔ ایسے میں دادا کو اپنا دادا یاد آتا ہے! کیا بادشاہی تھی اور کیا عیش و طرب تھا:؎
یوں تھا کہ میں بھی چاند تھا، دادا مرا بھی تھا
اک پیڑ تھا اور اُس پہ الوچے لگے ہوئے!