ایوب خان کے خلاف جمہوری تحریک اور سیاسی بیداری کا مثبت نتیجہ ممکن تھا‘ لیکن سیاسی ادارے مفلوج ہو چکے تھے‘ باہمی اعتماد کمزور ترین سطح پر تھا اور قومی افق پر ابھرنے والے سیاسی رہنما اپنے محدود مفادات کے دائرے میں بند ہو چکے تھے۔ بڑے عرصے سے یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی ذمہ دار اس وقت کی آمرانہ قیادت تھی یا سیاسی رہنما تھے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر طرف سوچ کے زاویے ذاتی مفاد پرستی بلکہ خود غرضی کی آخری سطحوں کو چھو رہے تھے‘ نہ کوئی ایک جماعت تھی‘ نہ کوئی بلند قامت سیاسی رہنما‘ جو ریاست کو سیاسی گرداب سے نکال کر کسی محفوظ کنارے لگا سکتا۔ نواب زادہ نصراللہ خان اس وقت واحد رہنما تھے‘ جنہوں نے کئی ماہ تک سیاسی قائدین کو اکٹھا کرکے ان سے مشاورت کے بعد متفقہ لائحہ عمل بنانے کی جدوجہد کی۔ میرے نزدیک ذمہ دار وہی تھے‘ جن کے ہاتھ میں اس وقت اقتدار تھا۔ اگلے کالم میں کچھ سیاسی رہنمائوں کے فیصلوں‘ منشور اور غلط فہمیوں کی بات کریں گے۔ ایوب خان اس وقت آئین کے مطابق صدر تھے؛ اگرچہ ان کا انتخاب نہ آزادانہ تھا اور نہ ہی شفاف۔ اگر محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف وہ دھاندلی کا ارتکاب نہ کرتے‘ اور محترمہ منتخب ہو جاتیں تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ کی ابتدا ایوب خان کے مارشل لا سے شروع ہو چکی تھی۔ آزادی کے بعد پہلی دہائی میں سیاسی عدم استحکام ضرور رہا‘ لیکن مار دھاڑ میں سیاستدانوں کا حصہ کم اور نوکر شاہی کا زیادہ تھا کہ غلام محمد اور سکندر مرزا‘ گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال کر اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے دھڑے بندی میں مصروف رہے۔ اس کے باوجود سیاستدانوں نے متفقہ پارلیمانی آئین بنایا‘ صوبائی انتخابات کرائے اور ملک کو ہموار سیاسی راستہ فراہم کر دیا‘ جس پر چل کر پارلیمان کے اندر اور باہر ملکی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا تھا‘ لیکن نوکر شاہی نے اپنے گماشتوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور قائدین کے بارے میں کرپشن‘ نااہلی اور لسانیت کے بیانیے پروان چڑھا رکھے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان کا غلبہ قائم رہے۔ نوکر شاہی نے اپنی کمزوری دور کرنے کیلئے ایوب خان‘ جو اس وقت کمانڈر انچیف تھے‘ کو کابینہ میں بطور وزیر دفاع شامل کیا تھا۔ یہ انوکھا واقعہ تھا کہ جمہوری حکومت میں وزیر دفاع کا عہدہ باوردی عسکری سربراہ کے پاس تھا۔ ایوب خان بھی ان سرکاری افسروں میں شامل تھے‘ جن کے مطابق پاکستانی قوم اور سیاست کی تشکیل کی ذمہ داری اس وقت کی سیاسی قیادت پر نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ یہ بالکل سامراجی سوچ تھی‘ اور تب کی غیر سیاسی قیادت اور نوکر شاہی انگریزی حکومت کے سائے میں اپنی ترقی کی منزلیں طے کرکے اب نئی قومی ریاست کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے۔
ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے امریکہ کا دورہ کیا تھا اور وہاں نہ جانے کن کن لوگوں سے ان کی ملاقات رہی۔ انہی دنوں ایک مضمون لکھا تھا‘ جس کا عنوان تھا: پاکستان کے مسائل اور ان کا حل۔ اس مضمون پر تبادلہ خیال انہوں نے اپنے بااعتماد لوگوں سے پاکستان کے اندر کر رکھا تھا۔ انہوں نے اپنی تصنیف ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں اس مضمون کے بنیادی نکات کو دہرایا کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف انکے پاس ہے۔ تاریخی تناظر میں یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ کمانڈر انچیف ملک کا دستور نئے سرے سے ترتیب دے رہے ہیں‘ اور جو عوامی نمائندوں نے بنایا‘ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔ ظاہر ہے‘ وہ اکیلے نہ تھے‘ سیاسی خاندانوں میں سے کوئی نہ تھا‘ جو ایوب خان کی قربت کا خواہش مند نہ تھا۔ یاد رہے کہ ایوب خان نے مارشل لا لگایا تو اسے ''سنہری انقلاب‘‘ کا نام دیا۔ اسی زمانے میں ایران کا بادشاہ ''سفید انقلاب‘‘ کی باتیں کر رہا تھا۔ آمرانہ حکومتوں کے دیگر ادوار میں بھی نہ تو بیانیے میں کوئی فرق نظر آیا اور نہ ہی ان حکومتوں میں شامل ہونے والے سیاسی رہنمائوں کی کبھی کمی نظر آئی۔ خیر یہ تو ایک غلط ابتدا کی بات تھی‘ مگر اقتدار سے فارغ ہونے کے موقع پر بھی ایوب خان نے اپنا ہی آئین پامال کر ڈالا۔ عہدۂ صدارت سے سبکدوشی کے اعلان کیساتھ اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے سپرد کرتے تو پاکستان بحران کے خطرے سے بچ سکتا تھا۔
ایسا کیوں نہ ہوا؟ میری نظر میں اس کی وجہ یحییٰ خان کے خفیہ عزائم تھے۔ ان کی آئینی ذمہ داری تھی کہ وہ قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار منتقل کراتے‘ لیکن وہ خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے اور ایسے تباہ کن فیصلے کئے جو سقوط ڈھاکہ کا باعث بنے۔ اگر ان کی نیت درست ہوتی‘ سیاسی سوجھ بوجھ یا تاریخ سے کوئی شغف ہوتا تو وہ 1962 کا آئین مسترد نہ کرتے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ انتخابات کرائے جاتے اور آئین میں تبدیلیاں لانے کا آسان طریقہ بھی موجود تھا؛ چنانچہ سب کچھ آنے والی اسمبلی پر چھوڑ دیتے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ ایوب خان کے صدارتی آئین پر سیاسی رہنمائوں کو اعتراض تھا‘ تو پھر 1956 کا متفقہ دستور بحال کرنے میں کیا مشکل تھی؟ اس میں بھی اگر نمائندگی کے مسئلے پر یا صوبائی خود مختاری کو بڑھانے کا مطالبہ تھا تو آنے والی اسمبلی ضروری ترامیم کر سکتی تھی۔
نیا دستور اور نئی دستور ساز اسمبلی نہ جانے کس نا پختہ سیاسی ذہن کی پیداوار تھے۔ ہم اس زمانے میں سیاست پڑھنے اور سمجھنے کے ابتدائی دور میں تھے‘ لیکن ہمیں بھی معلوم تھا کہ اس ایک چال سے کتنے بحران جنم لے سکتے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا‘ریاست کی باگ ڈور طاقت کے نشے میں مست کھلاڑیوں کے ہاتھ لگ چکی ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ سی مثال انتخابات سے قبل پیش کردہ ''لیگل فریم ورک آرڈر‘‘ تھا جس کے مطابق انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ اب چونکہ سب لوگ اپنی آخری منزلوں کو پہنچ چکے ہیں‘ اس لئے کچھ زیادہ کہنا مناسب نہیں‘ مگر کسی قانونی اور آئینی ماہر میں کچھ تو اخلاقی جرأت ہوتی۔ جو یحییٰ خان کے اقتدار کے سائے میں مزے کر رہے تھے‘ وہ ان کے خطرناک راستے پر چلنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ یہ فریم ورک آرڈر تضادات کا مجموعہ تھا۔ اس میں سے صرف دو باتیں عرض کروں گا: ایک یہ کہ کسی ایسی جماعت کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا جو نظریہ پاکستان اور ملکی سالمیت کے خلاف ہو۔ صدر صاحب کے انتخاب سے پہلے اور بعد کے سب اقدامات اس شق کی کھلم کھلا خلاف ورزی معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ نئی اسمبلی 120 دنوں میں نیا دستور بنائے گی‘ اور اگر ایسا کرنے میں ناکام رہی تو صدر اپنی طرف سے آئین نافذ کریں گے۔ اور یہ بھی سن لیں کہ اگر صدر اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین سے متفق نہ ہوئے تو اسے مسترد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ہم اور کیا عرض کریں؟
انتخابات کے نتائج آئے اور معلوم ہوتا ہے کہ جو اطلاعات یحییٰ خان کو دی جا چکی تھیں‘ ان کے مطابق ان کی توقع کے خلاف نئی سیاسی قوتیں پیدا ہو چکی تھیں۔ اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد تین مارچ انیس سو اکہتر کو ہونا طے پا چکا تھا۔ یہ بھی نا قابلِ فہم ہے کہ فریم ورک کے مطابق آئین اکثریتِ رائے سے بننا تھا۔ کسی نے اگر امریکی آئین سازی کی تاریخ پڑھی ہوتی تو کم از کم تین چوتھائی صوبوں کی تائید‘ تین چوتھائی صوبائی اسمبلی کی اکثریت سے کرانا ضروری سمجھتا۔ اس بات کو بھی چھوڑئیے‘ جب اعلان ہو چکا تھا تو پھر اس بات پر زور کیوں کہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور مجیب الرحمن کے مابین آئین کے خدوخال پر اتفاق ہو‘ اور پھر اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے۔ یحییٰ خان آخری حد تک بھٹو کی اقتدار میں شرکت کی کوشش میں تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ تو اسی دن ہو چکا تھا‘ جب اسمبلی کا اجلاس دو دن قبل منسوخ کر دیا گیا۔ سیاست سیاست دانوں پر چھوڑتے تو ہزاروں جانوں کا ضیاع نہ ہوتا اور پاکستان دولخت ہونے سے محفوظ رہ سکتا تھا۔