تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     22-12-2020

اسرائیل کے بارے کیا سوچا جا رہا ہے؟

خبروں کی بھرمار ہے‘ ہر طرح کی خبریں میڈیا مارکیٹ میں موجود ہیں‘ قارئین اور ناظرین کے پاس بھی اب ان تمام خبروں کا جائزہ لینا اور ان کا احاطہ کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ خبریں زیادہ ہیں اور وقت کم ‘ لیکن اس کے باوجود ہماری میڈیا مارکیٹ کا اتنا والیم ہے کہ اس میں ہر طرح کی خبریں آتی ہیں اور ان کی کھپت بھی ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی خبریں بھی شائع اور نشر ہوجاتی ہیں جنہیں قانون اجازت نہیں دیتا ‘ پھر بھی نام نہاد دانشور کہتے ہیں کہ انہیں آزادی میسر نہیں ۔قومی سیاست میں کچھ بظاہر ٹھہراؤ آیا ہوا ہے‘ لاہور کے پی ڈی ایم کے ایک اوسط درجے کے جلسے نے اپوزیشن کی تحریک میں سے جاہ و جلال نکال دیا اور( ن) لیگ کے بعد مولانا کی جماعت کے اندرونی اختلافات اب ان سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کے لیے خلفشار کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ (ن) لیگ میں ایسے رہنماؤں کو تلاش کیا جارہا ہے جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ ایسے باغیوں کی تعدادمحض چار‘ چھ بتائی جارہی ہے اور اتنا کم تخمینہ لگانا ایک مذاق معلوم ہوتا ہے‘ جھگڑا یہ نہیں کہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا کوئی شجر ممنوعہ ہے‘اصل فساد اور فرسٹریشن کا موجب یہ ہے کہ ارکان کو ذاتی فائدے کے بجائے یہ کھیل پارٹی اور پارٹی قیادت کی سہولت کے لیے کھیلنا چاہیے اور سب کے لیے آسانیوں کے حصول کی جدوجہد کرنا چاہیے‘ لیکن نفسا نفسی اور خود غرضی کے اس دور میں وضع داری کا کلچر ناپید ہوچکا ہے اور ہر رہنما ‘ہر پارٹی صرف اور صرف اپنا فائدہ سوچ رہی ہے اور بہتر سے بہتر ڈیل کی کوشش میں مصروف ہے۔ بعض پر عنایات ہوچکی ہیں اور باقی قطار میں لگے ہوئے ہیں کہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی مل ہی جائے گا۔
جس طرح سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور صرف اور صرف دماغ سے سوچا جاتا ہے کہ بس کسی بھی طریقے سے اپنا مقصد حاصل کیا جائے ‘وہ مقصد مقدس ہے یا شیطانی‘ اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ورنہ تو ماضی قریب اور بعید میں شریف خاندان ‘ بھٹو اور زرداری خاندان نے ایک دوسرے کے بارے کیا کچھ نہیں کہا اور اتنے سخت انداز میں کہا گیا کہ دشمنی واضح طور پر جھلکتی تھی۔ ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے والا کوئی تیسرا کھلاڑی نہیں تھا بلکہ آپس ہی میں دست وگریبان رہے‘ پھر مولانا فضل الرحمن تو ان دونوں جماعتوں کو برابر لتاڑتے رہے ‘لیکن پھر بھی تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے واحد مقصد نے سب کو ایک فورم پر جمع ہونے کے لیے مجبور کردیا۔کچھ ایسے ہی اصول بین الاقوامی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔غیر مسلم ملکوں کے مسلم ممالک سے باہمی تعلقات میں بھی وضع داری ناپید تھی ہی لیکن ٹونٹی ٹونٹی کے رواں سال میں کرکٹ کی طرح عالمی سیاست خاص طور پر مسلم اُمہ کہلانے کے دعویدار حکمرانوں نے بھی باہمی تعلقات کو ٹونٹی ٹونٹی کی طرح کھیلنے کا نیا ٹرینڈ پیدا کر دیااور دہائیوں پر پھیلے اعتماد اور دینی بھائی چارے کے تعلقات انتہائی کمزور ہوچکے ہیں‘ ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ بھارتی آرمی چیف عرب ملکوںکا دورہ کرے گا اور مسلم عرب ممالک دفاعی اور فوجی تعلقات کے فروغ کے لیے مسلم عوام کے قاتل ملک انڈیا میں ایک سو ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا اعلان کریں گے اور مودی کو اعلیٰ ترین اعزازات دیے جائیں گے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ دنیا کمرشلزم اور کارپوریٹ کلچر میں تبدیل ہورہی ہے ۔صرف یہ دیکھا جارہا ہے کہ کس ملک سے کتنا مالی فائدہ ہوگا اور دولت کے انبارمیں کیسے اضافہ ہوگا ‘اقتدار کا طول اور بادشاہتیں کیسے سلامت رہ سکتی ہیں؟
یہ سوچ بڑی تیزی سے نو آمیز سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سرایت کرچکی ہے۔چند ماہ قبل تک اسرائیل جو مسلم اُمّہ کا دشمن اوّل سمجھا جاتا تھا‘ اب اسی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے امریکی منصوبے پر برق رفتاری سے عمل ہوتا نظر آرہا ہے اور پاکستان نے انہی عرب ملکوں کی دشمنی کو اپنی دشمنی سمجھ کر اسرائیل کے خلاف جنگوں میں ان کی مدد بھی کی‘ آج دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پرعرب اور خلیجی ممالک اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے بعد مراکش ‘ سوڈان‘ بحرین اسرائیل سے تعلقات استوار کرچکے جبکہ انڈیا کے ذریعے بھوٹان میں بھی اسرائیل پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم‘ موساد چیف کے ہمراہ سعودی عرب میں امریکی وزیرخارجہ کی موجودگی میں ولی عہدمحمد بن سلمان سے بھی ملاقات کرچکے اور غالب امکان یہی ہے کہ سعودی عرب کچھ مزید شرائط منواکر اور اندرونی طور پر اپنی گرفت مضبوط کرکے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرلے گاکیونکہ اسرئیلی شہریوں اور سرمایہ کاروں کا آنا جانا شروع ہوچکا اور اسرائیل کے لیے سعودیہ کی فضائی حدود بھی کھول دی گئی ہیں۔
مسلم حکمران اسرائیل کو تسلیم کیے جارہے ہیں جبکہ عوامی سطح پر کروائے جانے والے سروے کے مطابق ان گیارہ ملکوں کے 82 فیصد مسلم عوام اسرئیل کو تسلیم کرنے کے عمل کے خلاف ہیں ‘عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے بعد پاکستانی عوام آج کل ترکی اور صدرطیب اردوان کے مداح ہیں اور ارطغرل کا کردار ادا کرنے والے اداکار کو اصل ہیرو سمجھ کر اپنی محبتیں اور دولت نچھاور کر رہے ہیں مگر ترکی کے اسرائیل سے تعلقات ایسے ہیں کہ ترکی اور اسرائیل کے حکمرانوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا لگا رہتا ہے اور دوسال سے جاری باہمی تعلق میں تعطل ختم ہوچکا اور ترکی نے دوبارہ اپنا سفیر اسرائیل کے لیے تعینات کردیا ہے۔ یہ سب پیش رفت تیزی سے ہورہی ہیں اور امریکی وزیرخارجہ پومپیو اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے ایک درجن سے زائد ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں اور واضح کرچکے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی سوچ کے حامل ممالک ''کینسرزدہ‘‘ ہوسکتے ہیں‘اس لیے اسرائیل مخالف رویوں کو ترک کردیا جائے‘ جبکہ نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ مسلم اکثریتی ملک پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو یہ پائیدار امن کے لیے بہت مفید ہوگا۔
پاکستان کے اسرائیل سے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تمام حکومتوں نے اس بارے میں اپنے عوام کو مکمل اندھیرے میں رکھا اور حقائق کے برعکس عوامی سطح پر کبھی بھی اسرائیل کے حق میں بات کرنا تو درکنار اسرائیل کا نام لینا بھی شجر ممنوعہ قرار پایا‘ مگر زمینی حقائق مختلف ہیں اور اب جو خبریں اسرائیل اور مغربی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں ان کے مطابق ماضی قریب کی تمام حکومتوں بشمول نوازشریف‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ پرویز مشرف‘ سب نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ رابطے رکھے اور تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کی ۔موجودہ حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنا تو درکنار‘ کسی بھی قسم کے تعلقات اور رابطوں کی نفی کررہی ہے ۔وزیراعظم عمران خان اوروزیرخارجہ شاہ محمود قریشی مسلسل دوٹوک انداز میں ایسی تمام خبروں کی تردید کررہے ہیں‘ دوسری جانب جو صورتحال جنم لے رہی ہے اور پاکستانی صحافی اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر کھل کر پاکستان اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کررہے ہیں‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں جیسا کہ بیان کئے جارہے ہیں ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ غیر محسوس انداز میں کہیں نہ کہیں اس بارے عوامی سطح پر ذہن سازی کا عمل شروع ہوچکا ہے کہ مستقبل قریب میں جب یہ اُفتاد آن پڑے تو متوقع ردعمل سے بچا جاسکے یا ردعمل کم سے کم ہو کیونکہ ریاست کا کام بند گلی میں قید ہونا نہیں ہوتا بلکہ تعلقات کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں خارجہ تعلقات کی زیادہ سے زیادہ لبرل سوچ کو فروغ دیا جارہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved