تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     22-12-2020

فضائے سبزگوں اور نیلگوں آسمان

شاید قارئین کو یاد ہو کہ ایک مرتبہ پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ دنیا کے حسین مناظر و لمحات سے لطف اندوز ہونے کا ہر کسی کا اپنا اپنا ذوق ہے۔ کسی کے نزدیک ساون کی برکھا حسین ترین لگتی ہے‘ کسی کو سمندر کنارے دور افق پر ڈوبتے سورج کا منظر اپنی دلکشی میں لاجواب محسوس ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے پسِ دیوارِ زنداں لکھے گئے اپنے مکاتیب ''غبارِ خاطر‘‘ میں لکھا ہے کہ میرے نزدیک دنیا کا سب سے بڑا نشاط یہ ہے کہ شدید سردی کا موسم ہو اور میرے کمرے کے پرانے طرز کے آتشدان میں لکڑی کے بڑے بڑے کُندے جل رہے ہوں جن سے شعلے بلند ہو رہے ہوں اور میں آتشدان کے قریب بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہوں۔ یقینا یہ منظر نہایت رومانٹک ہے‘ تاہم زندگی کا جو منظر لڑکپن سے لے کر اب تک میرے دل و دماغ میں بسا ہوا ہے اس کی جگہ کوئی اور منظر نہیں لے سکا۔ 
کالج کے ابتدائی دنوں میں یہی سب سے بڑا لطف تھا کہ چھٹی کے روز صبح سائیکل پر گھر سے نکلتے‘ ہینڈل کے ساتھ ایک تھیلا لٹک رہا ہوتا جس میں چند کتابیں ہوتیں جن میں نصابی کم اور غیرنصابی زیادہ ہوتیں‘ ایک ٹرانسسٹر ریڈیو بھی ساتھ ہوتا تھا۔ نہر عبور کرتے ہی ہم شہر کی گہما گہمی سے نکل آتے اور آغوشِ فطرت ہمیں اپنی پناہ میں لے لیتی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی اُن دنوں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں پروفیسر تھے اور اکثر اپنے گھر کے پچھواڑے میں واقع اس حسین منظر سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے۔ اسی حسیں نظارے کی ڈاکٹر صاحب نے نہایت دلکش منظرکشی کی ہے۔ ذرا اُن کی نظم پگڈنڈی کو ملاحظہ کیجئے۔
سبزگوں کھیتوں میں مٹیالی سی پگڈنڈی کا حسن
یہ سحر کے جھٹ پٹے میں ایک نورانی لکیر
اے زمیں کی مانگ! کس افشاں سے بھر دوں میں تجھے
اشک برسائوں کہ چن دوں پھول تا حدِّ نظر
تو افق تک بھی اگر جائے تو کب دھندلائے گی
ساتھ دینے کو مری حدِّ نظر بڑھ جائے گی
چینی مفکر لِن-یوتانگ کی نظر میں مثالی شہر وہی ہے جس کی آبادی کم ہو۔ لوگ ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہوں‘ دکھ درد میں ایک دوسرے کے کام آتے ہوں۔ ایسے شہر میں لوگوں کو کام پر جاتے ہوئے بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ کام پر جاتے ہوئے ایک دوسرے سے علیک سلیک بھی کرتے ہیں‘ اگر انہیں نیلگوں آسمان پر اڑتی ہوئی سفید کونجیں نظر آ جائیں تو وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اس حسین منظر سے لطف اٹھاتے اور پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک سرگودھا شہر کی آبادی ڈیڑھ پونے دو لاکھ تھی جو آج 2020ء میں آٹھ نو لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ سڑکیں وہی ہیں‘ گلیاں وہی ہیں‘ چوک اور چوراہے بھی وہی ہیں‘ مگر اب اتنی بڑی آبادی پر مشتمل لوگ پیدل چل سکتے ہیں‘ نہ سائیکل چلا سکتے ہیں اور گاڑیاں ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتی دکھائی دیتی ہیں۔ سرگودھا میں ایک سے بڑھ کر ایک باصلاحیت اور صاحبِ ذوق کنٹونمنٹ آفیسر آئے اور انہوں نے اپنی انتظامی مہارت سے شہر کو صاف ستھرا بھی رکھا‘ سجایا بھی اور اس کے حسن کو نکھارا بھی۔ میرے ابتدائی زمانۂ طالب علمی میں ملک محمد صدیق کنٹونمنٹ آفیسر تھے جن کا تعلق ساہیوال کے ایک دینی خانوادے سے تھا۔ سرگودھا میں اُنہوں نے نہایت دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی انجام دیے مگر اب وہی سرگودھا جیسا مثالی شہر بدانتظامی اور عدم دلچسپی کی بنا پر کچرا کنڈی بن چکا ہے اور ہر طرف خودرَو تجاوزات کا گھنا جنگل دکھائی دے رہا ہے۔ اب یہی غیرمنظم طرزِ زندگی ہمارا قومی کلچر بن چکا ہے۔ اب کبھی سرگودھا جائیں تو ہمارے لیے اپنے سابقہ مکان کو پہچاننا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے اور گھر اور نہر کے درمیان جو خالی علاقہ تھا وہاں بغیر کسی اجازت کے کچی پکی بے ہنگم آبادیاں بن چکی ہیں۔ اب یہی غیرمنظم طرزِ زندگی ہمارا قومی کلچر بن چکا ہے۔ 
ہاں مجھے یاد آیا کہ ملک کے معروف شاعر جمیل یوسف بھی دو بار 1970ء کی دہائی میں کنٹونمنٹ سرگودھا میں خدمات انجام دیتے رہے۔ جمیل یوسف صاحب نے شہر کی تزئین و تجمیل کے علاوہ اہلِ سرگودھا کو یادگار غزلوں کا تحفہ بھی پیش کیا۔ اُن کی ایک نہایت خوبصورت غزل کے دو تین اشعار مجھے یاد رہ گئے ہیں۔
شامِ وعدہ کے گزرتے پل ذرا آہستہ چل
کیا خبر پھر کون ہو گا کل ذرا آہستہ چل
اے تھکے ہارے مسافر یہ سوادِ شام ہے
پھر کہاں یہ سرمئی آنچل ذرا آہستہ چل
لڑکپن کی یہ دلفریب یاد میرے نزدیک زندگی کا سب سے بڑا نشاط ہی نہیں‘ زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش اثاثہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی دور کی قباحتوں میں سے ایک قباحت‘ بڑے بڑے شہر بھی ہیں۔ دو تین شہروں کو چھوڑ کر باقی سب شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ پر پابندی ہونی چاہئے۔ علامہ اقبالؒ نے ذکر کیا تھا کہ ایک حدیث پاک ہے کہ شہر پھیلنے لگیں تو ان کی جگہ نئے شہر بساؤ۔ ہم بنیادی طور پر ایک زرعی معاشرہ ہیں اور میری رائے میں اگر ہم چھ سات لاکھ سے اوپر کسی شہر کو نہ جانے دیں‘شہر مختصر ہوں تو اس سے ایک نہیں ہزار مسائل حل ہوتے ہیں اورجرائم میں خاطر خواہ کمی ہوتی ہے۔ سرگودھا کی مثال دیکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شہروں کی صفائی ستھرائی‘ خوبصورتی اور سماجی بھلائی کے لیے سب سے اہم کردار بلدیاتی اداروں کا ہے۔ قرطبہ سے غرناطہ جاتے ہوئے میں نے راستے میں دیکھا کہ ایک طرف سڑک کے دونوں کناروں پر زیتون کے درخت لگے ہوئے تھے اور زیتون کو محفوظ کرنے کی فیکٹریاں کام کر رہی تھیں۔ مزید معلومات لینے پر پتہ چلا کہ یہ ساری منصوبہ بندی اور کمال ہر علاقے کی اپنی بلدیہ کا ہے‘ جس کی نگرانی میں سارے کام انجام دیے جاتے ہیں۔ جہاں تک ہماری سول حکومتوں کا تعلق ہے وہ مسلم لیگ کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی یا اب پی ٹی آئی کی ‘وہ ان بلدیاتی اداروں کو کام نہیں کرنے دیتیں۔ بہرحال اگر ٹاؤن پلاننگ کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ کیا جائے تو میرا مشورہ یہی ہو گا کہ امریکہ کی طرح بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ٹاؤن آباد کئے جائیں جو اپنی بنیادی ضروریات میں خود کفیل ہوں۔
لاہور میں فضائی آلودگی اپنے عروج پر ہے۔ سردیوں کی وہ سنہری اوررو پہلی دھوپ‘ صاف ستھرا نیلگوں آسمان‘ سبز گوں کھیتوں کی بہار تواب ایک یاد کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے زمانۂ طالب علمی‘ 1970ء اور 1980ء کا زمانہ یاد ہے‘ تب لاہور میں بھی سرگودھا والے رنگ دکھائی دیتے تھے‘ مگر پھر ہم نے شہر کے بے ہنگم پھیلاؤ سے سرسبز کھیتوں‘ روشن صبحوں اور سردیوں کی دھوپ جیسی نعمت کا اپنے ہاتھوں سے خون کر دیا۔ ہم اگر زندگی کو آرام دہ اور خوبصورت بنانے میں اپنا حصّہ نہیں ڈال سکتے تو کم از کم قدرت کی نعمتوں کو تو اپنے شہریوں کو محفوظ کریں۔ ان نعمتوں میں سردیوں کی دھوپ فضا کے سبزگوں اور نیلگوں آسمان سرفہرست ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved