تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     22-12-2020

رفتگاں کی کہکشاں

سالِ رواں کی آخری سہ ماہی میں ہمارے فکری اور سیاسی آسمان پر چمکتے ہوئے کئی روشن ستارے ٹوٹ کر راہی ٔملک ِعدم ہوئے۔ وہ زندہ تھے تو ان کے وجود کی روشنی کالم نگار کو چھ ہزار میل کے فاصلے سے بھی نظر آتی تھی۔ وہ اپنی غمزدہ اور دل گرفتہ قوم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے تو وطنِ عزیز سے ہزاروں میل دُور سالہا سال سے رہنے والے مگر ہمیشہ مشرقی اُفق پر نظریں جمائے رکھنے والے تارکین وطن کی آنکھوں کے سامنے چھایا ہوا اندھیرا اور گہرا ہو گیا۔ اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے۔ جن جلیل القدر اور محترم اور ممتاز چھ افراد کی راہ تمام ہوئی اُن کے اسم ہائے گرامی ہیں :اشفاق سلیم میرزا‘ قاضی جاوید‘ میر ظفر اللہ جمالی‘ صاحبزادہ فاروق علی خان‘ شیر باز خاں مزاری اورعبدالقادر حسن ۔پہلے دوبلند پایہ مفکر اور مصنف تھے‘ اُنہوں نے سبط حسن کے جلائے ہوئے چراغ کو روشن رکھا۔ فاروق علی صاحب اور اُن کے مرحوم بھائی رئوف صاحب اپنے نام کے ساتھ صاحبزادہ کیوں لکھتے تھے‘وہ میں نہیں جانتا۔ صاحبزادہ رئوف پولیس کے محکمے کے سب سے بڑے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود نیک نام اور محترم تھے۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں فاروق صاحب قومی اسمبلی کے سپیکر تھے۔ ساری عمر ملتان میں گزاری اور بڑی عمدہ وکالت کی۔ شکار کا (اور وہ بھی خصوصاً ہرن کے شکار کا) شوق تھا۔ وہ 40 سال پہلے سیاست کے خار زار سے نکلے تو چولستان کے صحرائوں میں اپنا یہ شوق پورا کرتے رہے۔ اگرکالم نگار کی طرح کوئی بھولا بھٹکا مہمان اُن کو ملنے اور اُن کی باتیں سننے اُن کے گھر چلا جاتا تھا تو وہ آنکھیں بچھا دیتے اور بار بار کہتے تھے کہ اگر ایک دن اور رُک جائیں تو وہ مہمان کے ساتھ صحرانوردی کریں گے اور ہرن کا شکار بھی۔ جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ شکار کریں گے اور مہمان بصد رغبت شکار ہو جانے والے ہرن کا بھنا ہوا گوشت کھائے گا۔ فاروق صاحب کو بہت سے دوستوں اور خیر خواہوں نے خود نوشت لکھنے کا مشورہ دیا ہوگا‘ میں خوش ہوں کہ میں بھی اُن میں شامل ہوں۔ فاروق صاحب نے (میری توقع کے برعکس) جو کتاب لکھی وہ قابلِ مطالعہ‘ علم افروزاور دلچسپ ہے۔ اُن کی وفات کی المناک خبر ملی تو میں نے اپنے مطالعہ کے کمرہ میں اسے ڈھونڈ کر نکالا۔ دوبارہ پڑھا‘ پھر لطف اندوز ہوا۔ اُن کی مغفرت کی دعا مانگی اوراپنے دوسرے پانچ مرحوم دوستوں کے لیے بھی۔
شیر باز مزاری اعلیٰ اخلاقی قدروں کی پاسبانی ‘ عوام دوستی‘ روشن دماغی‘ علم دوستی اورسماجی انصاف کی ترجمانی کے حوالے سے اُسی طرح روشنی کا مینار تھے جس طرح جام ساقی ‘ جناب غوث بخش بزنجو‘ جناب مسعود کھدر پوش‘ جناب جسٹس بھگوان داس‘جسٹس سعید الزمان صدیقی‘ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اور اُن سے پہلے مولانا حسرت موہانی‘ جناب اختر حمید خان‘ میاں عبدالباری صاحب‘سردار عبدالرب نشتر‘ جناب حمید نظامی اور جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس کار نیلئس۔ دوستی کا رشتہ اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف صنف (Gender)عمر‘ تعلیم‘ سماجی رتبے کی سرحدیں بلکہ نظریاتی اختلاف کی چار دیواری بھی پھلانگ جاتا ہے۔ 
عبدالقادر حسن کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ مُڑ کر دیکھوں تو اُن سے میری دوستی کی عمر 65 سال بنتی ہے۔ میں پچاس کے عشرے کے آخری نصف حصے میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات کا طالب علم تھا اور وہ میدانِ صحافت میں قدم قدم چلنا سیکھ رہے تھے۔ اُن کے لاکھوں مداحوں کو غالباً یہ علم نہ ہوگا کہ اُنہوں نے رسمی اور رواجی تعلیم صرف پرائمری درجہ تک حاصل کی لیکن نہ صرف اُردو‘ فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل کیا بلکہ سماجی علوم کی بہت سی اچھی کتابیں پڑھیں۔
فاروق علی خان کی کتاب کا نام ہے ''جمہوریت صبر طلب‘‘ (غالب کے لیے عاشقی صبر طلب تھی) اُن کا قابل ِفخر سیاسی ریکارڈ یہ ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح اور حسین شہید سہروردی کے بھی قریبی ساتھی رہے۔ مناسب ہوگا کہ میں اپنے قارئین کو فاروق علی خان کی لکھی ہوئی وہ سطور پڑھوائوں جو اُن کی مذکورہ بالا کتاب کے سر ورق پر شائع کی گئیں۔وہ لکھتے ہیں: میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں جن کے لیے میں ہر وقت اللہ سے معافی مانگتا رہتا ہوں‘ لیکن میری غلطی ایسی بھی ہے جسے میں ایک ناقابل تلافی ناقابل معافی جرم سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے ترددّ اور خاصی مشکلات کا سامنا کر کے 14 اگست1976ء کو موجودہ پارلیمنٹ ہائوس کا سنگ بنیاد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو سے رکھوایااور اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کروایا۔ اگر مجھے آنے والے وقت میں جمہوریت اور جمہوری اداروں سے ہونے والے سلوک کا اندازہ ہوتا اور اس بات کا ذرا سا بھی شائبہ ہوتا کہ آنے والے وقت میں اس اسمبلی کی حیثیت صفر کر دی جائے گی اور عوام کی رائے خود اس عمارت میں بیٹھنے والے لوگوں کے ذریعے ہی ختم کر دی جائے گی تو میں شاید اس غلطی کا ارتکاب نہ کرتا۔ فاروق صاحب قومی اسمبلی کے سپیکر تھے تو اُنہوں نے چوہدری ظہور الٰہی اور حزب اختلاف کے اراکین کو (زبردستی) ایوان سے باہر لے جانے کا حکم دیا تو یہ حکم سنا کر وہ خود ہی ایوان سے اُٹھ کر اپنے دفتر چلے گئے تاکہ وہ اپنے آنکھوں سے ایک بہت ناخوشگوار اور تکلیف دہ منظر نہ دیکھ سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بھٹو صاحب لمبی لمبی تقریریں کرتے تھے اور اُس کا مظاہرہ قومی اسمبلی کے اندر کرنے سے بھی ہر گز گریز نہ کرتے۔ ایک بار اُن کی تقریر (جو یقینا دل پذیر نہ تھی) تین گھنٹے سے تجاوز کر گئی تو فاروق صاحب کو جماہی آگئی جو بھٹو صاحب نے دیکھ لی اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ جناب سپیکر کو جماہیاں آ رہی ہیں اس لئے وہ اپنی تقریر ختم کرتے ہیں۔
ظفر اللہ جمالی کا تعلق اُس قابل ِصد احترام گھرانے سے تھا جسے قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم اور 1964 ء میں مادرِ ملت کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کے قریبی عزیز سکندر جمالی میرے ساتھ 1964ء میں ایچی سن کالج میں پڑھاتے تھے۔ سکندر نے تعلیم بھی اسی درسگاہ میں حاصل کی تھی۔ نومبر 1964 ء میں ہم دونوں ایچی سن کالج سے اس جرم میں اکٹھے برطرف کئے گئے کہ ہم مادرِ ملت کی انتخابی مہم میں حتی المقدور حصہ لیتے دیکھے گئے۔ جمالی صاحب اُسی طرز کے درویش مزاج وزیراعظم تھے‘ جس طرح میرے ایک اور مرحوم دوست ملک معراج خالد۔ زمانۂ طالب علمی میں ظفر اللہ جمالی (سکندر جمالی کی طرح) ہاکی کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔ جمالی صاحب کا پرویز اشرف سے اصولی اختلاف ہوا تو اُنہوں نے بلاتاخیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ گزشتہ سالوں میں جب بھی کراچی گیا۔ وہ بڑی محبت سے ملتے تھے۔ بلو چوں میں پائی جانے والی تمام خوبیوں کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ صد افسوس کہ کالم نگار اپنی اُن تمام کوششوںمیں ناکام ہوا جو اُس نے جمالی صاحب کو بلوچستان کی محرومیوں کے ازالہ کرنے کے لیے آواز بلند کرنے پر رضا مند کرنے کی غرض سے کی تھیں۔ مجھے یہ شکایت جناب شیر باز خاں مزاری سے بھی تھی۔ کالم نگار فریاد کرتا کرتا خود بوڑھا ہو گیا۔ بدقسمتی سے اب وہ بڑے لوگ ہی اُٹھتے جا رہے ہیںجو میرے شکوے اور شکایتیں تحمل اور خندہ پیشانی سے سن لیتے تھے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کے آخری ایام خود کلامی میں گزریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved