تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-06-2013

پاکستانی اور امریکی حکومت کی ترجیحات

امریکہ میں امریکہ کے اندر کی حدتک تو معاملات ٹھیک ہیں یعنی طبقاتی تقسیم بڑی حدتک نہ ہونے کے برابر ہے مگر باقی دنیا کے حوالے سے امریکیوں کے ذہن میں خناس بھرا ہوا ہے اور وہ خود کو باقی دنیا سے علیحدہ اور بہتر سمجھتے بھی ہیں اور باقیوں کو باور کرانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ٹوئن ٹاور میں مرنے والوں کی تعداد دوہزار نوسو چھیانوے تھی۔ امریکیوں نے بلا تصدیق ہزاروں افغان شہریوں کا قتل عام کردیا۔ 2001ء میں شروع ہونے والے امریکی حملے کے بعد سے اب تک کتنے افغان شہید ہوچکے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ امریکیوں کے علاوہ دیگر اقوام اور خصوصاً مسلمان کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ 2001ء سے لے کر 2006ء تک تو اس سلسلے میں کسی ادارے، کسی این جی او اور کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے پاس بھی کوئی ڈیٹا (Data)نہیں ہے۔ مرنے والے لاوارث ، غریب، بے نام ونشاں اور شاید انسانی درجے سے کچھ نیچے کے لوگ تھے کہ ان کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ کہیں نہیں ملتا۔ البتہ 2006ء کے بعد کے اعدادوشمار کسی حدتک میسر ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق (اور یہ اندازہ بھی تعصب کے باعث ناقابل اعتبار ہے ) صرف 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے میں اکتیس ہزار افغان شہری شہید ہوئے تھے۔ تین ہزار امریکیوں کی موت کے بدلے میں افغانستان میں اب تک بارہ سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہید ہوچکے ہیں۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پراپیگنڈے کی بنیادپر 2003ء میں عراق پر ہونے والے امریکی حملے کے بعد سے اب تک جاں بحق ہونے والے عراقی شہریوں کی تعداد کے بارے میں بھی بہت زیادہ گھپلا ہے۔ امریکی ایسوسی ایٹڈ پریس یہ تعداد ایک لاکھ دس ہزار کے لگ بھگ بتاتا ہے۔ کاسٹ آف وار پراجیکٹ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ نوے ہزار کے لگ بھگ ہے۔ Lancet Survey کے مطابق یہ تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اوپینئن (Openion) ریسرچ بزنس یہ تعداد دس لاکھ تینتیس ہزاراور امریکیوں کی چرائی گئی معلومات پر مبنی ’’وکی لیکس کلاسیفائیڈ عراق وار‘‘ یہ تعداد دس لاکھ نوے ہزار بتاتا ہے۔ یعنی محض تین ہزار امریکیوں کی ہلاکت کے بدلے میں اب تک امریکہ افغانستان اور عراق میں بارہ لاکھ سے زائد انسانوں کا قتل عام کرچکا ہے اور ابھی اس کے ڈرون حملے پاکستان، یمن، عراق، افغانستان اور صومالیہ میں جاری ہیں۔ امریکہ کے حساب سے دنیا میں انسان صرف امریکی ہیں باقی سب شاید کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں میں چار امریکی شہری بھی تھے اور ان میں ایک انوار العولاقی تھا جو امریکی شہری تھا اور یمن میں ایک ڈرون حملے میں جاں بحق ہوا تھا۔ اس کے ساتھ اس کا بیٹا عبدالرحمان العولاقی اور دو امریکی شہری سمیر خان اور جیوڈکپتان محمد تھے۔ اس پر امریکی پریس میں خاصا شور مچا حالانکہ یہ چاروں افراد القاعدہ سے مشتبہ تعلق کی بنیاد پر اس امریکی لسٹ میں شامل تھے جو زندہ یا مردہ مطلوب تھے مگر محض امریکی ہونے کی بنیاد پر اس پر شور وغوغا مچا جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والی خواتین اور بچوں پر بھی کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ امریکی اپنے آپ کو باقی دنیا سے علیحدہ اور مختلف ثابت کرنے کے لیے عجیب وغریب حرکتیں کرتے ہیں۔ ساری دنیا میں جب 220وولٹ بجلی کا تصور تھا امریکیوں نے 110وولٹ بجلی کا کلیہ اپنا لیا۔ اب امریکہ میں بجلی کی تمام اشیا 110وولٹ پر چلتی ہیں۔ دنیا میں بجلی آن آف کرنے کے لیے استعمال ہونے والے سوئچ نیچے کرنے پر آن ہوتے ہیں اوپر کرنے پر آف ہوجاتے ہیں۔ امریکیوں کی رگ یہاں بھی پھڑک اٹھی ہے اور امریکہ میں سوئچ نیچے کرنے پر آف اور اوپر کرنے پر آن ہوتے ہیں۔ جب برطانیہ اپنے راج کے دوران دنیا بھر میں رائٹ ہینڈ ڈرائیوکے اصول کے مطابق ٹریفک قوانین وضع کرتے ہوئے گاڑی کا سٹیرنگ دائیں ہاتھ پر اور ٹریفک بائیں ہاتھ پر چلائی تو امریکیوں نے گاڑیوں میں سٹیرنگ بائیں ہاتھ لگادیا اور ٹریفک دائیں ہاتھ چلادی۔ دنیا کرکٹ کھیلتی تھی امریکیوں نے بیس بال شروع کردیا اور معاملہ یہاں تک آگیا کہ دنیا بھر کا سب سے مقبول کھیل فٹ بال بھی امریکیوں نے بالکل الٹا کررکھ دیا اور امریکہ میں کھیلی جانے والی فٹ بال دنیا کی سب سے عجیب وغریب فٹ بال ہے جو پائوں کے بجائے ہاتھوں سے کھیلی جاتی ہے۔ صرف پہلی بار کوئی کھلاڑی فٹ بال کو ہاتھ میں پکڑ کر پائوں سے کک مارتا ہے اس کے بعد تمام کھلاڑی گیند پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بلکہ یہ لفظ گیند بھی شاید میں نے غلط لکھ دیا ہے۔ امریکی فٹ بال گول نہیں بلکہ بیضوی یعنی انڈے کی شکل کی ہوتی ہے جس کے دونوں طرف کونے نکلے ہوئے ہوتے ہیں۔ سب کھلاڑی اس گیند کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کھلاڑیوں نے فائبر گلاس کے ہیلمٹ پہنے ہوتے ہیں اور کندھوں اور گھٹنوں پر پیڈ چڑھائے ہوتے ہیں۔ اس کھیل میں چھینا جھپٹی اور تقریباً تقریباً مار کٹائی ہوتی ہے۔ یہ کھیل کسی مہذب گیم سے زیادہ فن پہلوانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کھیل کا گول دولمبے پائپوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے اوپر کوئی تیسرا پائپ نہیں ہوتا یعنی یہ اوپن گول ہوتا ہے۔ یہ امریکیوں کا فٹ بال ہے۔ امریکہ کی آبادی اکتیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ دنیا کی کل آبادی سات ارب سے تھوڑی سی زیادہ ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو امریکی دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ساڑھے چار فیصد ہیں مگر دنیا کی کل خوراک کا تیس فیصد امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔ امریکی بلامبالغہ بڑے پیٹو ہیں اور بہت کھاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جتنا کھاتے ہیں اس سے زیادہ ضائع کرتے ہیں۔ ہوٹلوں میں کھانے جائیں تو ڈشیں بڑی بڑی ہیں اور کھانا کئی کئی کورس میں آتا ہے۔ آپ چاہیں بھی تو سارا نہیں کھاسکتے۔ آدھے سے زیادہ اور کہیں تقریباً سارا کھانا کوڑے کے ڈرم میں چلا جاتا ہے۔ سکول میں بچوں کو مفت لنچ بکس ملتے ہیں۔ بچے لنچ بکس کھولتے ہیں پسند کی چیز نہ ہو تو ڈسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں۔ باقی بچے کھولنے کی زحمت بھی نہیں کرتے اور دوسرے بچے کے لنچ بکس سے اندازہ کرکے اپنا پیک شدہ لنچ بکس کوڑے کے ڈرم میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی سکولوں میں فراہم کیا جانے والا اسی فیصد کھانا کوڑے کے ڈرموں میں چلا جاتا ہے۔ ایک امریکی دانشور کے مطابق ہم صرف اس اصراف کا ہی حساب نہیں دے پائیں گے۔ عام امریکی شہری کو باقی دنیا سے رتی برابر غرض نہیں ہے لیکن وہ اپنے اور اپنے بچوں کی سکیورٹی کے حوالے سے بہت فکر مند ہے اور اس کے حساب سے اگر ساری دنیا کو تباہ کرنے سے وہ محفوظ رہ سکتا ہے تو اسے یہ سودا قبول ہے۔ امریکیوں کی ساری انسان دوستی، تحمل، رواداری اور وسیع القلبی اس وقت رخصت ہوجاتی ہے جب ان کی اپنی جان کا مسئلہ آجائے۔ امریکی حکومت اپنے شہریوں کے اس پہلو سے واقف ہے اور واقف کیوں نہ ہو؟عوام کو حفاظت اور سکیورٹی کا یہ سارا سبق خود حکومت نے اپنے پراپیگنڈے اور محنت سے پڑھایا ہے ۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے اور امریکی حکومت کو دنیا بھر میں کہیں بھی اپنی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کا آغاز کرنا مقصود ہوتا ہے وہ امریکیوں کے لیے خطرے کا ڈھنڈورا پیٹنے لگ جاتی ہے۔ ساری رائے عامہ تمام تر لبرل ازم ، انسان دوستی اور حقوق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ امریکی میڈیا بظاہر بڑا آزاد نظر آتا ہے مگر شاید دنیا کا سب سے بے ایمان میڈیا ہے۔ جو بات چھپانی ہو وہ سارا میڈیا ایسے چھپا لیتا ہے کہ کسی کو بھنک بھی نہیں پڑتی۔ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر اس کے دوہرے معیار ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں یا دیگر مذاہب کے لیے ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکی حکومت کی ساری ترجیحات اپنی عوام کی حفاظت کے لیے ہیں اور وہ اس کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ امریکی صرف اپنی جنگ لڑنے کے قائل ہیں اور ہم امریکی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved