تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-12-2020

چلو ‘ اب سینیٹ تباہ کردیں

امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن سے تھامس جیفرسن نے پوچھا‘ قانون سازی کے لیے تو کانگریس کے ایوانِ زیریں میں لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں پھر سینیٹ جیسا اضافی ادارہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جارج واشنگٹن نے جواب میں کہا‘ سینیٹ کی امریکی نظام میں وہی اہمیت ہے جو چائے کی پیالی کے ساتھ پرچ کی ہے‘ جس طرح پرچ میں چائے ٹھنڈی کرکے پی جاسکتی ہے اسی طرح سینیٹ میں آنے والے نمائندے قانون سازی پر سیاسی گرما گرمی کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کیا کریں گے۔جیمز میڈیسن نے اس ادارے کیلئے کہا تھا کہ سینیٹ چھوٹی ریاستی اکائیوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے بنائی گئی آئینی باڑ ہے۔ گویا دنیا کی اس پہلے سینیٹ کو بنانے والوں نے اس ادارے کے ذمے دو کام رکھے‘ چھوٹی بڑی وفاقی اکائیوں کو اس میں برابر نمائندگی دے کرتوازن قائم کرنا اور ایوانِ زیریں میں ہونے والی قانون سازی کو وقتی ضروریات کے بھینٹ نہ چڑھنے دینا۔ ان دو نکات پر مبنی سینیٹ کا یہی امریکی تصور ان تمام ملکوں میں پہنچا جو چھوٹی بڑی ریاستی اکائیوں‘ صوبوں یا ریاستوں سے مل کر وجود میں آئے۔ پاکستان بھی چونکہ ایک وفاقی ملک ہے اس لیے کئی طرح کے آئینی تجربوں کے بعد یہاں پہلی بار1973 ء کے دستور میں سینیٹ ادارے کے طور پر ابھرا۔دستور بنانے والوں نے سینیٹ میں تمام صوبوں کو برابر نشستیں تو دے دیں لیکن الیکشن کے لیے بالواسطہ راستہ اختیار کیا‘ یعنی سینیٹ کے ارکان صوبائی اسمبلیوں سے ووٹ لے کر آنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس امریکی سینیٹ کو ہم نے اپنے لیے مثال بنایا تھا وہ اُس وقت بھی عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوتا تھا جب ہم اپنا دستور بنا رہے تھے۔ ہم نے اس کی خالص جمہوری حیثیت کو ختم کرکے اپنی حرکتوں کے مطابق بگڑی ہوئی شکل میں اختیار کرلیا۔ صوبائی اسمبلی کے ذریعے سینیٹ کے انتخاب میں وہ تمام قباحتیں داخل ہوگئیں جو ہمارے سیاسی کلچر میں پائی جاتی ہیں۔سینیٹ میں دو چار ایسے لوگ آگئے جن کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ انہوں نے اس محترم ایوان کی رکنیت پیسے دے کر خریدی ہے۔ سیاسی جماعتیں اور بالخصوص تحریک انصاف جو سینیٹ کی نشستوں کے حوالے سے خریدو فروخت کا واویلا کرتی ہیں وہ دراصل انہی دو چار نشستوں کی حد تک ہے ورنہ عمومی طور پر سینیٹ کے اراکین اپنی اپنی پارٹی کی مدد سے ہی منتخب ہوکر آتے ہیں۔ اگر اتنی ہی اندھیر نگری ہوتی جس کا شور ہے تو راجہ ظفر الحق‘ رضا ربانی‘ انوار الحق کاکڑ‘ رانا مقبول اور مشاہد حسین سید جیسے لوگ سرے سے منتخب ہی نہ ہو سکتے۔ 
بھارتی سیاستدان بھی چونکہ پاکستانی سیاستدانوں جتنے ہی عقل مند یا نالائق ہیں‘ اس لیے وہاں بھی راجیہ سبھا یعنی ایوانِ بالا کا انتخاب ریاستی اسمبلیوں کے اراکین خفیہ ووٹ کے ذریعے کرتے تھے۔ 1999 ء میں جب وجے مالیا نامی دولت مند شراب فروش کرناٹک اسمبلی کے ووٹ خرید کر راجیہ سبھا کا ممبر بن گیا تو وہاں بھی یہی بحث چھڑ گئی۔پیسے کی سیاست‘ جمہوریت کی بے حرمتی اور نجانے کیا کیا اس بحث میں کہا گیا۔ آخرکار ایک دستوری ترمیم کے ذریعے بھارت میں راجیہ سبھا کے انتخاب کا وہ طریقہ اختیار کرلیا گیا جو عمران خان پاکستان میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ اس طریقے سے رکن صوبائی اسمبلی سینیٹ کیلئے اپنا ووٹ اپنی پارٹی کے پولنگ ایجنٹ کو دکھا کر ڈالے گا یا ہر بیلٹ پیپر رکن صوبائی اسمبلی کے نام سے جاری کیا جائے گا جسے بعد میں دیکھا بھی جاسکے گا۔یقینا اس طریقہ انتخاب سے کوئی رکن اسمبلی سینیٹ کیلئے اپنا ووٹ نہیں بیچ سکے گا‘لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ سینیٹ کی نشستیں فروخت نہیں ہوا کریں گی۔ فرق صرف یہ پڑے گا کہ طریقہ انتخاب میں اس تبدیلی کے بعد ایک دو نہیں‘ سبھی نشستیں بکا کریں گے بس پیسہ پارٹی فنڈ کے نام پر کہیں اور جایا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ سارے قائدین فوری طور پر سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے پر فوری طور پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی طے ہے کہ پاکستان کے سینیٹ کی اوقات بھی بھارت کی راجیہ سبھا کی طرح کچھ نہیں رہے گی‘ کیونکہ سینیٹ میں صرف وہی لوگ بیٹھا کریں گے جنہیں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی قربت حاصل ہوگی۔بھارت اورپاکستان میں لیڈروں کی قربت کس بھاؤ بکتی ہے یہ سب کو معلوم ہے۔اور ہاں‘ یہ بھی ہم دیکھیں گے کہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کی جو تھوڑی بہت رمق ہے وہ بھی جاتی رہے گی کیونکہ معزز اراکین سینیٹ اپنے انتخاب کیلئے صرف اور صرف پارٹی قائدین کی نظر کرم کے محتاج رہ جائیں گے‘ اراکین صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کی جو تھوڑی بہت قدر باقی تھی وہ بھی ختم ہوجائے گی۔ سیاسیات کا طالبعلم ہونے کے ناتے مجھے یہ سمجھنا دشوار ہے کہ سینیٹ کو اگر پارٹی قائدین کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہی بنانا ہے تو پھر اس کیلئے الیکشن کے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ سیدھے سبھاؤ یہ ترمیم کیوں نہ کردی جائے کہ صرف وہی مردو زن سینیٹ کے رکن بن سکتے ہیں جوعمران خان‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے دستِ شفقت کے نیچے رہتے ہیں؟ 
امریکا جو سینیٹ جیسے ادارے کا موجد ہے‘ وہاں بھی جب تک سینیٹ کا الیکشن بالواسطہ رہا‘رشوت اور بدعنوانی کی شکایات آتی رہیں۔ آخرکار 1913 ء میں دستور کی سترہویں ترمیم کے ذریعے سینیٹ کا الیکشن براہ راست کردیا گیا یعنی تمام ریاستوں کے عوام اپنے ووٹوں سے نمائندے چن کر سینیٹ بھیجنے لگے۔ اس ترمیم نے سینیٹ کو طاقتور بنانے کے ساتھ اتنا محترم بنا دیا کہ جب صدر اوباما نے جو بائیڈن کو اپنے ساتھ نائب صدر بنانا چاہا تو جو بائیڈن کیلئے سب سے مشکل فیصلہ سینیٹ کی نشست چھوڑنا تھا‘ کیونکہ وہ سینیٹ کی نشست کو نائب صدر کے عہدے سے زیادہ معزز سمجھتے تھے۔ یہی مسئلہ آسٹریلیا میں درپیش ہوا وہاں بھی سینیٹ کا الیکشن براہ راست کردیا گیا۔ اب وہاں سیاسی جماعتیں سینیٹ کے امیدواروں کیلئے اپنی اپنی فہرستیں جاری کرتی ہیں اور عوام کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے صوبے کیلئے سینیٹرز کی فہرست کو مکمل طور پر ووٹ کردیں یا تمام پارٹیوں کے امیدواروں کو ایک سے بارہ تک ترجیح کے نمبر دے دیں۔ اس طریقے سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ پارٹیاں بہترین افراد کو اپنی فہرست میں شامل کرتی ہیں۔ امریکا اور آسٹریلیا کے نصیب اچھے ہیں کہ ان کے سیاستدان ہم جیسے نہیں ورنہ وہ بھی اپنے اپنے سینیٹ کو اسی طرح برباد کرلیتے جیسے بھارت کرچکا ہے اور پاکستان کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔
پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کی ضرورت صرف سینیٹ تک ہی محدود نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں اور الیکشن کرانے والوں کی نالائقی نے ہر انتخابی عمل کو اتنا تباہ کرڈالا ہے کہ پیسہ اور بے پناہ پیسہ ہی اس میں کامیابی کی دلیل ہے۔ اگر کسی ایک ادارے کے الیکشن میں پیسے کا سب سے کم دخل ہے تو وہ سینیٹ ہے‘ورنہ صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا الیکشن تواب کئی کئی کروڑ روپے کا کھیل بن چکا ہے۔ اس کیلئے پہلی چیز تو یہ ضرور ی ہے کہ سینیٹ کا الیکشن متناسب نمائندگی کے ذریعے براہ راست کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے حلقے چھوٹے کیے جائیں۔ تیسرے یہ کہ اشتہار بازی کو صرف اور صرف مخصوص جگہوں تک محدود کیا جائے۔ چوتھے یہ کہ امیدواروں کے جلسوں کیلئے مخصوص مقامات کا تعین کردیا جائے جہاں جلسے کا سامان یعنی لاؤڈ سپیکر وغیرہ الیکشن کمیشن مہیا کرے۔ اور پانچواں یہ کہ بلدیاتی اداروں کو طاقتور بنا کر ان کے انتخاب کرائے جائیں تاکہ انتظامی امور نبھانے کے خواہشمند اسمبلیوں کی بجائے ان اداروں کو رونق بخشیں۔ ان اصلاحات کے بعد کی سینیٹ اور اسمبلیاں موجودہ اداروں سے کہیں بہتر ہوں گی‘ اس لیے ہمارے قائدین بالکل اس طرح کا نظام نہیں لائیں گے بلکہ بھارتی سیاستدانوں کی طرح موجودہ نظام کی رہی سہی عزت کا بھی جنازہ ہی نکالیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved