ایک پل کے لیے ایسا لگا جیسے میں اس منظر کے ایک گوشے میں دم سادھے کھڑا ہوں، اس طرح کہ سانس کی آواز تک نہ آئے۔ ایک خاموش اور تاریک گوشہ۔ باقی سارا گھر سٹیج کی طرح روشن اور جگمگ ہے۔ مہمانوں کا کمرہ، کھانے کا کمرہ، گول کمرہ یعنی ڈرائنگ روم۔ تینوں آپس میں جڑے ہوئے۔ اور بس گھر کا مردانہ حصہ یہاں ختم ہو جاتا تھا۔ یہ کاشانۂ زکی 17 اردو نگر سمن آباد موڑ، لاہور کی اوپر کی منزل ہے۔ عمر وہی جو شوخی، شیخی، ابال اور لاابالی پن سے مل کر بنتی ہے؛ یعنی بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتی ہوئی۔ زمانہ وہی جس کے بارے میں احمد مشتاق نے کہا تھا
کیسے نفیس تھے مکاں، صاف تھا کیسا آسماں
میں نے کہا کہ وہ سماں آج کہاں سے لائیے
پھر اس منظر میں کچھ بچے، کچھ بڑے داخل ہوتے ہیں۔ میرے بہن بھائی، میرے والد جناب زکی کیفی، کچھ ملاقاتی۔ پھر کچھ اور لوگ اس سٹیج پر آتے ہیں۔ کچھ روز کے مہمان، کچھ زور کے مہمان! لیکن مرکزی کردار ایک خوب صورت بوڑھا ہے۔ ایک پیار کرنے والا، پیار کے لائق بوڑھا جسے مہمان کہیے تو بھی بجا، گھر کا فرد کہیے تب بھی ٹھیک۔ سفید بال، براق لباس، ٹوپی، سانولی رنگت، قد وہی جسے قدرے دراز کہا جائے۔ ایک پیر میں قدرے لنگ۔ اس پیر میں مخصوص ایڑی والا جوتا۔ ہاتھ میں مخصوص عصا جس کے نچلے سرے پر ربڑ کا موٹا خول چڑھا ہوا تھا تاکہ ٹک ٹک کی آواز نہ آئے۔ ہونٹوں کا زاویہ مستقل تبسم کی شکل میں بنا ہوا۔ آواز بھاری اور مردانہ۔ لفظ چنے ہوئے اور منتخب۔ ایک زمانہ ان کا معترف، شیفتہ اور قتیل تھا۔ ہم بچوں کی تو بساط ہی کیا تھی‘ ہم تو ان سے محبت کرنے والے گھرانے کی تیسری نسل تھے بھئی!
جیسے میں اس کمرے کے ایک گوشے میں کھڑا ہوں جو ہمارا کھانے کا کمرا تھا اور جہاں اس زمانے میں فرشی دستر خوان بچھا کرتا تھا۔ اس کمرے کے ایک طرف ڈرائنگ روم اور دوسری طرف چھوٹا سا مہمان خانہ ہے۔ مہمانوں کا یہ کمرہ عام طور پر خاندان کی مہمان شخصیات سے آباد رہتا تھا لیکن خاندان سے باہر کے دو مہمان تھے جو ایک تو مولانا ظفر احمد انصاری اور دوسرے معروف شاعر مولانا ماہر القادری تھے۔ انصاری صاحب اپنی قومی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے نسبتاً زیادہ تشریف لاتے تھے اور بعض اوقات ہفتوں نہیں مہینوں بھی ہمارے گھر مقیم رہتے تھے۔ ہم سب بچے اپنے والد کی دیکھا دیکھی انہیں انصاری صاحب کہتے تھے۔ بتائیے بھلا! ہم جو ان کی ٹانگ سے بھی چھوٹے بچے تھے‘ انہیں انصاری صاحب کہتے تھے۔ امی نے کئی بار ہماری تربیت کی کوشش کی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ خود امی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر یہ بچے انہیں کیا کہیں؟ وہ ہمارے دادا سے تو چھوٹے تھے لیکن ہمارے والد سے کافی بڑے۔ اور ان کا تعلق، محبت اور دوستی نسل در نسل سب سے تھی۔ ہم نہ دادا کہہ سکتے تھے، نہ تایا، نہ بھائی۔ کچھ قابل احترام لقب ضرور سوچا جا سکتا تھا لیکن بدتمیزی بھی تو آخر کوئی چیز ہے‘ وہ کہاں جاتی۔ تو انصاری صاحب ایسا نام پڑا کہ بس وہی چلتا رہا۔ میرے داد ا کا تخاطب بھی یہی۔ والد کا خطاب بھی یہی اور ہم بٹّے برابر بچوں کی زبان پر بھی یہی۔ اب سوچتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ انصاری صاحب اور ان کا گھرانہ کیا سوچتا ہو گا۔ لیکن یہ بات تو طے تھی اور اس پورے گھرانے کو بھی معلوم تھی کہ زکی کیفی صاحب کا گھر انصاری صاحب سے بے حد محبت کرتا ہے‘ اور جو افراد شعور کی اس منزل پر ہیں جہاں محبت کی قدر شناسی کی جاتی ہے وہ ان رسمی چیزوں سے بالا ہوتے ہیں۔ ان کے پورے گھرانے میں علم و ہنر کا دور دورہ تھا۔ ان کے قابل فرزند اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق ریکٹر جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری تو محض ایک مثال ہیں۔ تمام بچے اپنی مثال آپ تھے۔ اگرچہ انصاری صاحب سیاست کے آدمی تھے لیکن ان سے زندگی کی بہترین اقدار اور اطوار بھی سیکھے جاتے تھے۔ اور ان کا گھرانہ تہذیب، شائستگی، علم دوستی اور رکھ رکھاؤ کی میراث کا حامل تھا۔شعور کی آنکھ سنبھالنے پر ہم نے انصاری صاحب کو سفید بالوں کے ساتھ ہی پایا۔ ظاہر ہے کہ میرے بڑوں نے انہیں بھرپور جوانی کی عمر میں بھی دیکھا ہو گا۔ وہ دنیا بھر کے لیے مولانا ظفر احمد انصاری تھے۔ رکن قومی اسمبلی‘ پاکستان۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل۔ تحریک پاکستان کے رہنما۔ انصاری کمیشن کے سربراہ۔ پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے، اس کے لیے عمر وقف کر دینے والے۔ وہ شخص جس کی طرف ہر مشکل میں سیاست دانوں کی نظر اٹھتی تھی۔ وہ شخص جو ہر ایک لیے غیر متنازع تھا۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو، کیا مولانا مودودی، کیا نواب زادہ نصر اللہ خان، کیا صدر فاروق لغاری۔ کیاصدر ضیاء الحق۔ ہم نے بڑے بڑے لوگوں کو ان سے ملنے اپنے گھر آتے دیکھا۔ وزیراعظم بھٹو کے بار با فون آتے دیکھے۔ وزراء، اراکین اسمبلی، صحافی، شاعر، سیاست دان‘ کون سا شعبہ تھا جو ان کا دلی احترام نہ کرتا ہو اور جو ان کے خلوص کا گرویدہ نہ ہو۔ سیاست اور صحافت کے سینئر اور گرم و سرد چشیدہ لوگوں کے ساتھ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت نووارد اور نوجوان تھے اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت نمایاں ہو رہے تھے۔ جناب جاوید ہاشمی وغیرہ جو اس وقت طالبعلم رہنما تھے اور بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم، بکثرت ہمارے گھر آنے والوں میں سے تھے۔ مدیر اردو ڈائجسٹ الطاف حسن قریشی، مدیر وفاق جناب مصطفی صادق، مدیر تجارت جناب جمیل اطہر، مدیر روزنامہ زندگی مجیب الرحمن شامی، جناب سجاد میر، جناب نصیر احمد سلیمی‘ کون سا نام تھا جو ان کے ملاقاتیوں میں نہیں تھا اور جو ر ان سے نظریاتی اور عملی رہنمائی لینے کا جویا نہیں تھا۔ اور یہ سب تو عملی میدان کے نامور اور باہنر لوگ تھے۔ میں اپنی بات کرتا ہوں کہ میں جو ایک بچہ تھا۔ جن شخصیات نے میری زندگی، میرے ذہن اور میرے آئیڈیلز کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کیا، جن سے میں اس وقت ہی نہیں آج بھی بے حد متاثر ہوں، انصاری صاحب ان لوگوں کی فہرست میں اولین ناموں میں ہیں۔ان کے کریڈٹ پر بہت سے کارنامے ہیں۔ دوسری باتوں کو چھوڑئیے، 1973ء کے دستور کی تشکیل اور اسے متفقہ بنانے کے لیے تمام سرگرم کاوشوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ ایک ایسا ستون ہے جسے ہلانے کی بار بار کوشش کی جاتی رہی لیکن یہ مضبوط ستون قائم رہا۔ 1974ء کے قادیانی مسئلے اور اس پر اجتماعی ذہن سازی سے لے کر قانون سازی تک ہر معاملے میں انصاری صاحب کا اہم کردار ہے۔کتنے ہی واقعات ذہن میں گھوم رہے ہیں۔ ایک دو ہوں تو اس کالم میں لکھ بھی دئیے جائیں لیکن انصاری صاحب کا حق اس سے بہت زیادہ ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ میں یہ یادداشتیں جمع کر سکوں کہ یہ ایک عینی شاہد کے مشاہدات ہیں۔ اور بات میری تنہا کی یا میرے‘ ان کے گھرانے کی نہیں ہے۔ ان کی بے شمار قربانیاں اور خدمات ایسی ہیں کہ پورا ملک اور قوم مقروض ہے۔ اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں‘ 20 دسمبر ہے۔ اسی دن انصاری صاحب ہم سے جدا ہوئے تھے۔ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں ایک شخص ابدی نیند سو رہا ہے۔ وہ شخص جس نے پاکستان کے لیے زندگی تج دی۔ تج بھی ایسے دی کہ سخت محنت اور قربانیوں بھری زندگی گزاری۔ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ ان کے نام سے کوئی پل، کوئی انڈر پاس، کوئی سڑک، کوئی عمارت منسوب نہیں۔ جن کی قربانیوں کا پوری قوم، پورے ملک کوبھرپور اعتراف کرنا چاہیے۔ کم از کم میرے علم میں کوئی یادگار ایسی نہیں ہے۔
اگرچہ ان کی بہت سی یادگاریں موجود ہیں۔ وہ شخصیات جن کی نظریاتی، عملی تربیت انصاری صاحب کے ہاتھوں ہوئی‘ کوئی شعبہ ان سے خالی نہیں۔ ان سے میرا سوال ہے کہ کیا یہ انصاری صاحب کا حق نہیں ہے کہ ان کے نام سے ایک نمایاں اور یادگار ادارہ یا عمارت قائم کی جائے۔ سو جناب جاوید ہاشمی صاحب! جناب الطاف قریشی صاحب ! جناب مجیب شامی صاحب! جناب ساجد میر صاحب! جناب جمیل اطہر صاحب! میں‘ سعود عثمانی‘ وہ بچہ جو آپ سب کو کاشانۂ زکی میں انصاری صاحب سے ملتے دیکھتا تھا، آپ سے سوال کر رہا ہوں۔ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟