تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     24-12-2020

تیاری سے مراد کیا ہے؟

حکومت سنبھالنے کے دو سال‘ چار ماہ‘ چار دن بعد اچانک ہمارے ہردلعزیز اور پیارے وزیراعظم عمران خان کو پتا چلا ہے کہ ان کو بغیر تیاری کے حکومت پکڑا دی گئی ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ پاکستان میں بھی حکومت کو پہلے سے تیاری کا موقع ملنا چاہیے جیسے امریکہ میں صدر کو تیاری کیلئے اڑھائی ماہ ملتے ہیں۔ اگر ان کے اس مؤقف سے اتفاق کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکی صدر کو ملنے والے اڑھائی ماہ کافی ہیں تو اپنے ان دو سال چار ماہ اور چار دنوں میں سے اڑھائی ماہ بطور ''ٹرینی وزیراعظم‘‘ منہا کر دیں تب بھی وہ دو سال ایک ماہ انیس دن سے حکومت میں ہیں۔ اگر کچھ کرنے کی واقعی صلاحیت ہوتی تو وہ اپنی حکومت کے پہلے اڑھائی ماہ نکال کر بقیہ دو سال ایک ماہ اور انیس دنوں میں کچھ نہ کچھ کرکے دکھا چکے ہوتے لیکن حکومت کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے بیس سال ٹیلی وژن پر اپنے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے رہے تو اس دوران انہیں کس حکیم نے روکا تھاکہ وہ تیاری بھی نہ کریں؟ صورتحال یہ ہے کہ اپنی صفر بٹا صفر کارکردگی کا سارا ملبہ ان اڑھائی ماہ پر ڈال رہے جو تیاری کی غرض سے ان کو نہیں ملے۔ اب مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ کیا کیا جائے؟ وہ اڑھائی مہینے کہاں سے لائے جائیں جو ان کو نہیں ملے؟ وہ دو سو بندے کہاں گئے‘ کہاں غائب ہو گئے جو انہوں نے تبدیلی کے لیے تیار کر رکھے تھے؟ اس سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ ایک لڑکا پڑھنے کے بجائے سارا دن دوستوں کے ساتھ گھومنے اور آوارہ گردی میں گزار دیتا تھا۔ اس کے باپ نے اسے پڑھائی میں دل لگانے کا کہا اور ساتھ ہی یہ خوشخبری سنائی کہ اگر وہ چھ ماہ بعد ہونے والے میٹرک کے امتحان میں پاس ہو گیا تو وہ اسے ایک موٹرسائیکل لے دے گا۔ لڑکے نے باپ سے وعدہ کیاکہ وہ نہ صرف اسے پاس ہو کر دکھائے گا بلکہ فرسٹ ڈویژن بھی حاصل کرے گا۔ چھ ماہ بعد امتحان ہوئے اور ایک ڈیڑھ ماہ بعد رزلٹ آ گیا۔ لڑکا نہایت ہی دھوم دھڑکے سے فیل ہو گیا تھا۔ اس کے باپ نے اسے غصے سے ڈانٹتے ہوئے پوچھا کہ وہ اس سارے عرصے میں پڑھنے کے بجائے کیا کرتا رہا ہے؟ لڑکے نے نہایت معصومیت سے جواب دیاکہ اس دوران موٹرسائیکل چلانا سیکھتا رہا ہے۔ یہی حال اپنے وزیر اعظم صاحب کا ہے؛ تاہم میرے خیال میں وہ بچہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے کہیں بہتر تھاکہ اس عرصے کے دوران موٹرسائیکل چلانا تو سیکھ لی‘ بھلے فیل ہو گیا‘ لیکن پاس ہو جاتا تو کم از کم موٹرسائیکل کا ایکسیڈنٹ کرکے اسے تباہ تو نہ کرتا۔
وہ اقتدار ملنے سے قبل سارا عرصہ حکومت کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے بجائے لوگوں کو لارا لگانے میں مصروف رہے کہ یہ کر دیں گے‘ وہ کر دیں گے‘ لیکن اس بات پر ایک لمحے کیلئے بھی غور نہ کیا کہ کیسے کریں گے؟ اب کہہ رہے ہیں کہ تیاری کا موقع نہیں ملا۔ مئی 2018ء میں اسد عمر نے کہا تھا کہ ہماری تیاری مکمل ہے اور ہر شعبے کے حوالے سے ہمارے پاس سو دن کا ایجنڈا تیار ہے۔ اب دسمبر 2020ء میں عمران خان صاحب فرما رہے ہیں کہ ہماری تیاری نہیں تھی‘ حکومت میں ایسے نہیں آنا چاہیے تھا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اب وہی کیا جائے جو ایک پیٹو نے کیا تھا۔ کسی بات پر ایک پیٹو نے کسی دوسرے شخص سے سو سو روٹیاں کھانے کی شرط لگا لی۔ پیٹو وہ شرط جیت گیا اور دوسرا شخص اسے سو روٹیاں کھلانے کی شرط پوری کرنے کی غرض سے ایک ہوٹل پر لے گیا۔ اب روٹیاں کھانا شروع ہوئیں اور ساتھ ساتھ ان کی گنتی بھی کی جانے لگی۔ ستر روٹیوں تک تو معاملہ ٹھیک رہا‘ پھر گنتی میں گڑبڑ ہوگئی اور دونوں کے مابین جھگڑا شروع ہوگیا۔ بالآخر پیٹو شخص نے اس جھگڑے کو ختم کرتے ہوئے کہاکہ پچھلی ساری گنتی پر لعنت بھیجو اور شروع سے دوبارہ گننا شروع کر دو۔ عوام کو چاہیے کہ وہ گزشتہ دو سال چار ماہ اور چار دن والا معاملہ ختم کریں اور ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم کو نئے سرے سے پانچ سال کا عرصۂ حکومت عطا کر دیں۔
شاہ جی حالانکہ ایسی منفی گفتگو نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ مزید پانچ سال کا عرصہ بھی خان صاحب اور ان کی ٹیم کے سیکھنے کے قطعاً ناکافی ہے‘ اس لیے اس مدت کو مزید بڑھایا جائے۔ شاہ جی سے پوچھا تو وہ کہنے لگے: دو سال کی تربیت کے بعد ان کے وزیر ہوا بازی نے سارے یورپ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بند کروا دیں۔ وجہ کیا تھی؟ یہ کہ انہیں دو سال کے دوران یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا بولنا ہے‘ کب بولنا ہے اور کہاں بولنا ہے؟ ان کے غلط جگہ پر‘ غلط وقت پر اور غلط بات کرنے کے طفیل پی آئی اے بند ہونے کے نزدیک پہنچ گئی ہے۔ دو سال پہلے سٹیل ملز کو چلانے کے دعویدار اسد عمر صاحب نے اسے بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور نئے نئے مقرر کردہ وزیر ریلوے اعظم سواتی نے ریلوے سنبھالنے کے بعد پہلا بیان یہ جاری کیا کہ ریلوے کو چلانا ممکن نہیں۔ جس بندے کو ایئرلائن چلانے کے بجائے بند کرنے کے طریقے آتے ہیں وہ ہوا بازی کا وزیر ہے۔ جسے سٹیل ملز چلانے کے بجائے بند کرنے کے طریقوں کا پتا ہے وہ ڈیڑھ فٹ لمبے نام والی وزارت کا سربراہ ہے اور جو ریلوے کو بند کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہے اسے ریلوے چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ سبحان اللہ!
اب عمران خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی لا علمی، ناتجربہ کاری، اور تیاری مکمل نہ کرنے کے اعتراف کے ساتھ عدالت میں ایک پٹیشن دائر کریں کہ ان کے گزشتہ دو سالہ عرصۂ حکومت کو ان کی پانچ سال مدت برائے وزارتِ عظمیٰ سے منہا کر دیا جائے اور پھر ڈھائی مہینے تربیت دے کر اگلے پانچ سال کے لیے نئے سرے سے ان کی پانچ سالہ مدتِ اقتدار کوشروع کیا جائے۔ مزید یہ کہ ہر وزارت کیلئے علیحدہ علیحدہ تربیتی عرصہ مقرر کیا جائے اور متعلقہ وزیر کی مدت بھی اس تربیتی عرصہ کے بعد سے شمارکی جائے۔ اس طرح سارے ناتجربہ کار وزیر نہ صرف یہ کہ تربیت حاصل کر لیں گے بلکہ ان کی یہ تربیت دیگر پارٹیوں کی آنے والی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گی کیونکہ انہی لوگوں کی اکثریت آئندہ آنے والی حکومتوں میں بھی وزارتوں کا بیشتر کوٹہ مار لے گی۔
اب ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ جناب وزیر اعظم کو اگر حکومتی معاملات کی تربیت نہیں دی تو کس نے نہیں دی؟ اور اگر یہ تربیت دینا تھی تو کس نے دینا تھی؟ ظاہر ہے یہ کام پہلی حکومت نے تو نہیں کرنا تھا۔ پھر یہ کس نے کرنا تھا؟ یا تو یہ خود اپنی ٹیم کو تیار کرتے یا تیار شدہ ٹیم کا بندوبست کرتے۔ خیر سے خان صاحب نے دونوں کام بدرجہ اتم کیے۔ اپنی ٹیم بھی تیار کی اور اس کی دھومیں بھی مچائیں۔ خاص طور پر اسد عمر کی تو ایسی دھوم تھی کہ لگتا تھا کہ آتے ہی ملک کو قرض سے آزاد، خزانے کو کئی سو ارب سے مالامال اور ملکی معیشت کو آسمان پہ پہنچا دیں گے‘ لیکن ہوا کیا؟ ڈالر کو پر لگ گئے، آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑنا پڑا، بیروزگاری کی شرح بلند ہوئی اور مہنگائی کا جن بوتل توڑ کر باہر نکل آیا۔ سب سے پہلی چھٹی بھی اسد عمر صاحب کی ہوئی۔ رہ گئی بات تربیت یافتہ ٹیم کا بندوبست کرنے کی تو خان صاحب نے اپنی کابینہ میں ان لوگوں کی بھرمار کر دی جن کے پاس ق لیگ، پیپلز پارٹی، مشرف اور نواز شریف کے ساتھ بارہا کام کرنے کا وافر تجربہ تھا لیکن خان صاحب اب بھی یہ فرماتے ہیں کہ ان کو تیاری کا موقع نہیں ملا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تیاری سے ان کی کیا مراد ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved