منیر نیازی کا شعر ہے، اور کیا عجیب شعر ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس تھکے ماندے، بے سروسامان مسافر کا تصور کیجیے جس نے بڑی مشکل سے ایک بپھرا دریا عبور کیا ہو‘ اس امید پر کہ اس کے پار ایک بستی، ایک آرام گاہ اس کی منتظر ہو گی‘ جہاں وہ اپنے ٹوٹتے بدن کو کچھ دیر توانائی فراہم کر سکے گا، لیکن پار اترنے کے بعد اس کے سامنے منظر یہ ہو کہ ایک اور بپھرا چوڑے پاٹ کا دریا اس کا منتظر ہو‘ جسے پار کیے بنا چارہ نہیں۔ ختم ہوتی توانائی کے ساتھ اب اس کا مقدر کیا ہے۔ کچھ نہیں کہہ سکتے۔
یا زخمی پیروں، دریدہ لباس والے ایک شخص کا تصور کیجیے جس نے ایک بلند پہاڑ خالی ہاتھوں اور فگار انگلیوں کے ساتھ سر کیا ہو، اس توقع پر کہ دوسری طرف سبز لہلہاتی بستیاں نظر آئیں گی اور اس کا یہ مشقت بھرا سفر تمام ہو گا۔ ایک پُرسکون نیند اسے اپنی آغوش میں لے لے گی‘ لیکن جب وہ چوٹی پر پہنچے تو مایوسی اور بے بسی بھری نظروں سے دیکھے کہ ایک اور بلند پہاڑ اس کا راستہ روکے کھڑا ہے اور ابھی وہ منزل دور ہے جس کے خواب اس نے دیکھے تھے۔ اس اگلے پہاڑ کو وہ سر کر سکے گا یا نہیں۔ اس لمحے ٹوٹتی ہمت کے ساتھ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔
جب میں نے خبر پڑھی کہ کورونا وائرس کی ایک نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے‘ لندن لوگوں سے خالی ہو رہا ہے، گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور دہشت جو بذات خود کسی وبا سے کم نہیں، برطانیہ کے طول و عرض میں سرایت کرتی جا رہی ہے تو مجھے منیر نیازی کا یہ شعر یاد آیا۔ انگلینڈ سے ہزاروں میل دور اور سمندروں پار لاہور میں بیٹھے ہوئے میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک ٹھنڈی لہر رینگتی چلی گئی، اس خیال سے کہ یہ نئی وبا اگر پاکستان پہنچ گئی تو کیا ہو گا۔ وائرس کے لیے 'ہنوز دلی دور است‘ والی خوش فہمی پہلے ہی رفع ہو چکی ہے جب ہزاروں میل دور ووہان میں نمودار ہونے والا وائرس دنوں کے اندر پاکستان پہنچ چکا تھا۔
کیا آپ کو اندازہ ہے اس چیخ پکار کا جو اس وقت برطانیہ اور اس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک میں بپا ہے؟ ملحقہ ممالک دھڑا دھڑ اپنی سرحدیں بند کر رہے ہیں۔ برطانیہ سے ہر قسم کی پروازوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ سعودی عرب، کویت، بلجیم، اٹلی، ہالینڈ اور خود پاکستان ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں‘ جنہوں نے برطانیہ سے آنے جانے والی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ پھنسے ہوئے پاکستانی مسافروں کے لیے پی آئی اے کی ایک خصوصی پرواز بھیجی جا رہی ہے جو مکمل معائنے اور ٹیسٹوں کے بعد مسافر واپس لائے گی۔
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کو VU1-202012/01 کا نمبر دیا گیا ہے۔ یہ نمبر ظاہر کرتا ہے کہ وائرس کی اس نئی شکل کو دسمبر 2020 میں شناخت کیا گیا تھا‘ اور اس پر تحقیق شروع کی گئی تھی۔ سوسن ہاپکنز نے، جو برطانیہ کی پبلک ہیلتھ کی ترجمان ہیں، بتایا ہے کہ 18 دسمبر کو انہوں نے برطانوی حکومت کو اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا‘ اور برطانوی حکومت نے اسی دن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو اطلاع دے دی تھی۔ اس کے بعد سے یہ وائرس جنوب مشرقی برطانیہ میں تیزی سے پھیلا‘ اور اس کے متاثرین کی تعداد سابقہ وائرس سے زیادہ ہو گئی۔ اسی سے اندازہ لگائیے کہ 9 دسمبر والے ہفتے میں لندن میں مریضوں کی 62 فیصد تعداد اسی وائرس سے متعلق تھی۔ ادھر کرسمس کا تہوار سر پر ہے اور اس کی تقریبات بھی منسوخ کر کے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ یو کے‘ کے ہیلتھ منسٹر میٹ ہنکوک نے کہا ہے کہ یہ لاک ڈاؤن طویل بھی ہو سکتا ہے‘ نیز جتنی تیزی سے یہ نئی شکل پھیلی ہے اسے کنٹرول کرنا بے حد مشکل ہے۔ اندیشہ تو یہ بھی ہے کہ کورونا کی یہ نئی شکل دوسرے ممالک میں بھی موجود ہو لیکن فی الوقت یہ صرف یو کے میں نمودار ہوئی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یو کے ان ممالک میں ہے جو کووڈ۔19 سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ 67000 سے زائد لوگ اس کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اس دہشت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اس نئی شکل کی وجہ سے لوگوں میں پھیل رہی ہے۔ خطرہ ہے کہ یہ نئی قسم ستر فیصد تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
اس ڈر اور خوف کے عالم میں یہ بھی تجسس ہوتا ہے کہ یہ وائرس آخر ہے کیا بلا‘ اور یہ اپنی شکلیں کیسے بدلتا ہے؟ ایک معاصر صحافی جناب ظفر سید کی معلومات افزا تحریر سے اسے جاننے میں بہت مدد ملتی ہے۔ میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہم تک یہ معلومات پہنچائیں۔ شکل بدلنے کا یہ عمل بذات خود مبہوت کن ہے اور اللہ کی تخلیق کے نئے زاویے اجاگر کرتا ہے۔ کورونا وائرس دراصل پروٹین کے چھلکے کے اندر جینیاتی ہدایات کے وجود کا نام ہے۔ جب یہ وائرس جسم کے کسی خلیے میں داخل ہوتا ہے تو اپنا چھلکا اتار کر باہر رکھ دیتا ہے اور خلیے کے نظام پر قابض ہو جاتا ہے۔ وائرس کی جینیاتی ہدایات انسان کی جینیاتی مشینری پر قابض ہو کر اپنی نقلیں تیار کروانا شروع کر دیتی ہیں اور یوں ایک وائرس سے لاکھوں وائرس وجود میں آ جاتے ہیں۔ پھر دوسرے خلیوں پر حملہ آور ہو کر یہ عمل وہاں بھی دہرایا جاتا ہے اور اسی سے انسانی نظام ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ جو ہزاروں‘ لاکھوں نقلیں وائرس تیار کرواتا ہے‘ ان میں کسی ایک یا چند میں کچھ غلطیاں رہ جاتی ہیں۔ یعنی وہ اصل کے مطابق نہیں ہوتیں۔ ان میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی جینیٹکس(Genetics) کی زبان میں اس غلطی کو میوٹیشن (Mutation)کہتے ہیں۔ بعض غلطیاں بے ضرر ہوتی ہیں لیکن بعض کے اثرات بہت دور رس ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے کسی عبارت میں ٹائپو مسٹیک ہو جائے اور عبارت کچھ کی کچھ ہو جائے۔ جان داروں میں اس طرح کی اہم غلطیاں ان کی نسل، رنگ روپ اور عادات بدلنے میں مؤثر ہوتی ہیں۔ مثلاً بھورے رنگ کے ریچھ کا سفید رنگ کے ریچھ میں تبدیل ہو جانا ایسی ہی ایک جینیاتی تبدیلی بتائی جاتی ہے۔ یہ جینیٹکس اور میوٹیشن کا ہی کمال ہے کہ ہر ذی روح دوسرے سے مختلف نظر آتا ہے۔
اب یہ جو کورونا کی نئی شکل ہے اس میں پرانی شکل سے 23 تبدیلیاں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے انسانوں میں اس کے پھیلنے کی رفتار ستر فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہ تبدیلیاں وائرس کے جینیاتی مواد میں نہیں بلکہ چھلکے والی پروٹین میں واقع ہوئی ہیں اور ویکسین اسی چھلکے کو اپنا ہدف بناتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی امکان ہے کہ اتنی زیادہ تبدیلیاں واقع ہونے پر ویکسین غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔ فی الوقت تو یہی امید کی جا رہی ہے کہ تیار شدہ ویکسینز اس نئی شکل کے لیے بھی کار آمد ہوں گی‘ لیکن ایک سوال جو سانپ کی طرح پھنکارتا سامنے آتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو؟
کورونا یعنی کووڈ۔19 کا دریا ابھی ہم نے تیر کر پار کیا بھی نہیں کہ ایک دوسرا دریا سامنے نظر آنے لگا ہے۔ خدا کرے کہ یہ دریا اتنا بھیانک اور اتنے چوڑے پاٹ کا نہ ہو۔ اور اس سے بھی بڑی دعا یہ کہ اس کے پیچھے کوئی تیسرا دریا نہ ہو۔
کیا آپ کو اندازہ ہے اس چیخ پکار کا جو اس وقت برطانیہ اور اس کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک میں بپا ہے؟ ملحقہ ممالک دھڑا دھڑ اپنی سرحدیں بند کر رہے ہیں۔ برطانیہ سے ہر قسم کی پروازوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔