تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے
وزرا کارکردگی دکھائیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے‘ وزرا کارکردگی دکھائیں‘‘ بلکہ ہماری تیاری کا تو عالم یہ تھا کہ اکثر اوقات یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ کون کیا ہے اور مجھے باقاعدہ یاد دلانا پڑتا تھا جبکہ بغیر کسی تیاری کے خواہ مخواہ آگے بڑھتے جانا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے اور اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ حکومت فی الحال واپس کر دی جائے اور کام اچھی طرح سیکھنے کے لیے ان سے باقاعدہ مہلت طلب کی جائے کہ موجودہ حالات میں وزرا بھی کوئی کارکردگی دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزراء سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان مستعفی نہ ہوئے تو آئینی
بحران پیدا ہو جائے گا: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان مستعفی نہ ہوئے تو آئینی بحران پیدا ہو جائے گا‘‘ بلکہ وہ تو اس سے بھی پہلے پیدا ہونے جا رہا ہے کہ میرے دیرینہ ساتھی ایک ایک کر کے مجھے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں، اکیلے حافظ حسین احمد ہی نے بیان بازی سے ماحول خاصا گرما رکھا ہے اوپر سے مولانا شیرانی، گل نصیب اور شجاع الملک بھی ان کی آواز میں آواز ملاتے نظر آ رہے ہیں۔ ادھر اپوزیشن اتحاد لانگ مارچ کے چکروں میں پڑا ہے اور خاکسار کو لگتا ہے کہ یہ سب اس کے خلاف سازش ہے جس کی ذمہ دار حکومت ہے جبکہ احتساب کیس نے علیحدہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے اورمیرے بیانات کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
نان ایشو کو مسئلہ بنایا گیا، استعفوں کو ٹھنڈ لگ گئی: شہباز گل
وزیراعظم عمران خان کے خصوصی مشیر برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''نان ایشو کو مسئلہ بنایا گیا، استعفوں کو ٹھنڈ لگ گئی‘‘ حالانکہ ان کو اچھی طرح سے علم تھا کہ سخت سردی کا موسم ہے اور اوپر سے بارشوں نے بھی زور باندھا ہوا ہے اور سردی سے نہ صرف خود بچنا چاہیے بلکہ باقیوں کو بھی اس سے بچانا بیحد ضروری ہے لیکن انہوں نے لاپروائی سے کام لیا اور استعفوں کو ٹھنڈ لگوا بیٹھے، اس ٹھنڈ میں استعفے بیچارے نمونیہ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اور یہ استعفے چونکہ ان حضرات کی جیبوں میں تھے، اس لیے بھی ٹھنڈ سے نہیں بچ سکے کیونکہ اس حکومت میں ان کی جیبیں بھی کافی ٹھنڈی ہو چکی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت کے ہاتھ پائوں پھول چکے، سانسیں رک رہی : بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت کے ہاتھ پائوں پھول چکے، سانسیں رک رہی ہیں‘‘ جبکہ میں نے خود ایک آدمی کو حکومت کے لیے اِن ہیلر خریدتے ہوئے دیکھا ہے لیکن اب ان کی حالت اِن ہیلروں سے قابو میں آنے والی نہیں ہے اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ خود کو قرنطینہ کر لیں اور گھروں میں بیٹھ جائیں جبکہ ایک طرف ہماری لانگ مارچ اور استعفوں کی تیاری ہے اور دوسری طرف سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ سارے نیک کام ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں کیونکہ اتفاق اور اتحاد میں بڑی برکت ہے اور جو ظاہر بھی ہو رہی ہے۔ آپ اگلے روز سابق پارلیمانی سیکرٹری اور پارٹی صدر چوہدری سجاد احسن سے ملاقات کر رہے تھے۔
نظمیں
یہ ہمارے دوست جمیل یوسف کا مجموعہ کلام ہے جسے نستعلیق مطبوعات لاہور نے شائع کیا ہے۔ انتساب تمہارے نام ہے‘ اس شعر کے ساتھ ؎
تیری نگہ سے تجھ کو خبر ہے کہ کیا ہوا
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
پسِ سرورق شاعر کی جوانی کی تصویر ہے اس شعر کے ساتھ ؎
راہِ وفا میں متاعِ سفر کی بات نہ پوچھ
بس ایک زندگیٔ مستعار لے کے چلے
دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر وزیر آغا، عارف عبدالمتین اور رفعت وحید شامل ہیں۔ سرورق ظفر محمود اور عمران شناور کا تیار کردہ ہے۔ کتاب پیپر بیک میں شائع کی گئی ہے۔ مجموعہ ہائے نظم میں یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔
اور‘ اب آخر میں بھارت سے صابر کی یہ نظم
ابے او الف
مجھے پتا ہے تم میرا مذاق اڑائو گے
تم کہو گے، یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے
ایسے اتفاقاً ہوتے رہتے ہیں
سبھی کے ساتھ ہوتے ہیں
مدتوں بعد اچانک مل جاتا ہے
کوئی پرانا شناسا، بچپن میں بچھڑا ہوا
کوئی دوست، کوئی کلاس فیلو، کوئی گائوں والا،
کوئی رشتہ دار
کسی راستے پر، کسی پارٹی میں، کسی سفر کے دوران
ہم اسے پکارتے ہیں اس کے نام سے
بڑے جوش میں، ذرا بے تکلفی کے ساتھ
''ابے او الف‘‘
مجھے پتا ہے...
تم کہو گے، یہ کوئی دلچسپ بات نہیں ہے
ہر انسان کے ہم شکل ہوتے ہیں
کم از کم تین
تقریباً ہم عمر بھی
پھر بات اتنی سی نہیں ہے
کل رات ریلوے سٹیشن پر مجھے
ایک شناسا دکھائی دیا
سامنے کے پلیٹ فارم پر
اس نے بھی مجھے دیکھا
مجھے پہچانا بھی، آواز بھی دی
لیکن کس نام سے
میں سن نہیں پایا
درمیان میں ٹرین آ لگی تھی
اور جب ٹرین روانہ ہوئی
تو سامنے کے پلیٹ فارم پر
وہ نہیں تھا
تم سن رہے ہو نا!
وہ میرا ہم شکل تھا
تقریباً میرا ہم عمر بھی
آج کا مقطع
ہم اتنے عقل مند نہ ہوں گے مگر ظفرؔ
کافی تھا اس کا ایک اشارہ کہ اب نہیں