تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     24-12-2020

پاکستان کو صرف ایک بچہ بدل سکتا ہے… (2)

آزادی سے پہلے کی بات کریں یا بعد کی‘ یوں تو کوئی بھی دور آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن موجودہ دورِ حکومت تو سب ریکارڈ توڑ گیا۔ آج جو چیز سب سے زیادہ سستی ہے وہ خوشامد، مدح سرائی، چاپلوسی، پروپیگنڈا اور چرب زبانی ہے۔ جو جتنا ''خوش گفتار‘‘ ہے اتنا بڑا عہدیدار ہے۔ جو جتنا ''یوٹرن کا ماہر‘‘ اتنا اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ۔ اور یہ معاملات ماضی سے کسی طور مختلف نہیں ہیں۔
بھگت سنگھ آزادی کی بات کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا ہندو‘ مسلم اور سکھ ایک ہو کر انگریز کے خلاف لڑیں۔ بھگت سنگھ کا بیانیہ سامراجی قوتوں کے عزائم کے سامنے دیوار بن رہا تھا۔ اُس وقت کے وائسرائے Lord Irwin نے بھگت سنگھ کے مخالف بیانیے کو ہوا دی۔ ہندو مسلم اتحاد کی ہر کوشش کے آگے بند باندھا۔ انگریز طاقت میں تھے، ان کے پروپیگنڈے کے شور میں بھگت سنگھ کا بیانیہ دب کر رہ گیا۔ پوری دنیا میں یہی سب کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ وطنِ عزیز کی بات کریں تو ایک بیانیہ پی ڈی ایم کا ہے اور دوسرا حکومت کا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپوزیشن کے الزامات کا جواب اچھی کارکردگی سے دیتی۔ جلسے جلوس اور افراتفری کے آگے گڈ گورننس کا عَلم بلندکرتی۔ مہنگائی کے شور کو کم کرنے کے لیے آٹا، چینی، پھل، انڈے، گیس اور بجلی کی قیمتیں کم کرانے کے لیے متحرک ہو جاتی۔ اداروں کے خلاف بولتے سیاست دانوں پر پابندیاں لگانے کے بجائے نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کرتی۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کے بجائے حب الوطنی کے چراغ روشن کیے جاتے مگر افسوس! اس سے مختلف راہ اپنائی گئی۔ اینٹ کا جواب پتھر، دشنام کا جواب دشنام، الزام کا جواب الزام اور ایک پریس کانفرنس کے جواب میں چھ پریس کانفرنسیں۔ ایسے میں منظر بھوپالی کی شہرہ آفاق نظم حکومت خود اپنے لبوں پر لے آئی۔ 
چلائے خنجر تو گھاؤ دیں گے
بنو گے شعلہ الاؤ دیں گے
ہمیں ڈبونے کی سوچنا مت
تمھیں بھی کاغذ کی ناؤ دیں گے
قلم ہوئے تو قلم کریں گے
جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
دو سال تک حکمران بیک فٹ پر رہے۔ اپوزیشن نااہلی اور اناڑی پن کے طعنے دیتی تو حکومت راستہ بدل لیتی تھی۔ وزرا کم بولتے تھے اور کام ''سیکھنے‘‘ کی ''کوشش‘‘ زیادہ کرتے تھے۔ اپوزیشن کے بیانیے کو مخالف بیانیہ کا زہر نہیں دیا جاتا تھا۔ اب نجانے کس بالغ نظر نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اپوزیشن کی ''گرتی دیوار‘‘ کو سہارے کی نہیں دھکے کی ضرورت ہے، پھر اس کے نیچے بھلے عوام آئیں یا کوئی اور۔ گرد حکومت کے چہرے پر پڑے یا عوام کے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اب حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا کوئی رہنما میڈیا ٹاک کر لے تو نصف درجن وزرا کیمروں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ کوئی مولانا فضل الرحمن کو ہدفِ تنقید بناتا ہے تو کوئی بلاول بھٹو کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ کسی کے ذمے مریم نواز پر نشتر چلانا ہوتا ہے تو کوئی میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے ''جرائم‘‘ کی فہرست دہراتا ہے۔ کوئی ماضی کی کرپشن کا پرانا راگ الاپتا ہے تو کوئی پی ڈی ایم کے پیچھے غیر ملکی ہاتھوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یونہی ایک دن گزر جاتا ہے اور پھر دوسرے دن کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ اس دن بھلے اپوزیشن کوئی بیان بازی کرے یا نہ کرے‘ حکومتی شخصیات اپنے حصے کی باری ضرور لیتی ہیں۔ ایک وزیر کیمرو ں کے آگے سے ہٹتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے۔ وہ ابھی بات کر رہا ہوتا ہے تو کسی صوبے سے ''نعرہ حق‘‘ بلند کرنے والے نمودار ہو جاتے ہیں۔ خدا جانے یہ وزرا اپنے محکموں کا کام کتنی دیرکرتے ہیں اور حکومتی ''کارناموں‘‘ کی داستانیں کتنی دیر بیان کرتے ہیں؟
بات یہاں تک رہتی تو پھر بھی خیر تھی‘ سوچ کا زاویہ اور بات کرنے کے ڈھنگ میں بدلاؤ آ ہی جاتا ہے مگریہاں تو حد ہی ہو گئی ہے۔ اپنے کاموں کا جواب بھی اپوزیشن سے مانگا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں انڈے مہنگے ہوئے تو وزیراعظم کے معاونِ برائے سیاسی امور کے جواب نے تما م اہلِ خرد کا سر بلند کردیا، فرمایا: انڈے کی قیمت میں اضافے کا سلمان شہباز سے پوچھنا چاہیے کیونکہ مرغیو ں کا سب سے بڑا کاروبار شریفوں کا ہے۔ بنی گالا کے باہر کنٹریکٹ اساتذہ نے دھرنا دیا تو پنجاب کے وزیر تعلیم نے کہا: یہ اساتذہ نون لیگ کے بھیجے ہوئے تھے۔ اور نہلے پر دہلا! وزیراعظم فرماتے ہیں: ہمارے وزرا آن جاب ٹریننگ کرتے رہے اور کچھ تو آج بھی سیکھ رہے ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ جو وزراء ابھی تک سیکھ رہے ہیں‘ وہی ہیں جو حکومتی بیانیے کی دن رات تشہیر کرنے کی مہم کا حصہ نہیں اور جو ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں‘ وہ ہیں جو چینی اور گندم کی قیمت بڑھنے کی ذمہ داری مافیاز پر ڈال کر حکومت کو کلین چٹ دیتے ہیں۔ جو پیٹرول کے بحران کا الزام آئل کمپنیز پر عائد کرتے ہیں۔ جو ٹماٹر، پیاز، پھل اور سبزیو ں کے ریٹ ڈبل ہونے پر ناجائز منافع خوروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ یقین مانیں! یہ وہی ہیں جو دوائیوں کے سکینڈل میں ملوث فرد کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے پر ستائشِ باہمی کی محفل سجاتے ہیں۔ جو بار بار وزرا کی تبدیلی کو بہترین سیاسی حکمت عملی ثابت کرتے ہیں۔ جو موٹروے پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورت کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ یہ اتنے باکمال لوگ ہیں کہ دن کو رات اور رات کو دن کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کا منتر بھی۔ انہیں جامن کے درخت پر آم اُگانے کا فن آتا ہے اور کیکر کی شاخوں سے گلاب اتارنے کا ڈھنگ بھی۔ یہ سب کچھ سیکھ چکے ہیں اور محترم وزیراعظم کے بقول اب ان کے پاس پرفارمنس دکھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
حکومت اب بڑے بڑے فیصلے کر رہی ہے اور چاہتی ہے کچھ بھی ہو جائے‘ ان کی مارکیٹ ویلیو کم نہیں ہونی چاہیے۔ پکوان بھلے پھیکا ہی ملے مگر دکان کا نام اونچا رہنا چاہے۔ حکومت اپنی پگ اونچی رکھنے کے لیے آئے روز ترجمانوں کی محفل سجاتی ہے۔ مسلم لیگ نون دور کی ''کرپشن‘‘ کیسے عوا م تک پہنچانی ہے اور پیپلزپارٹی عہد کی ''لوٹ مار‘‘ کو کیسے بے نقاب کرنا ہے‘ یہی ان اجلاسوں میں طے ہوتا ہے۔ روزانہ نئی سے نئی ہدایات وٹس ایپ پر جاری کی جاتی ہیں تاکہ شکاری بھلے جہاں بھی ہوں‘ تیر نشانے پر لگے۔ حکومت نے اپنی کشتیاں جلا دی ہیں اور اب اس کی ساری توجہ اپوزیشن کی ''اصلیت‘‘ عوام کو دکھانے پر ہے۔
حکمرانوں کو کون بتائے کہ گورننس اپنی خوبیوں پر کی جاتی ہے‘ دوسروں کی خامیوں کے سہارے نہیں۔ دنگل اپنی طاقت پر لڑا جاتا ہے‘ دوسروں کی کمزوری پر نہیں۔ عوام کا دل جیتنا مقصود ہو تو اپنے نمبر بڑھائے جاتے ہیں‘ مخالفین کے نمبر گھٹا کرمنزل نہیں ملتی۔ حکومت جان لے! اگرعوام اور اپوزیشن کو چپ کرانا ہے تو مہنگائی کو لگام دینا ہو گی۔ روزگار اور معیشت کے لیے وسائل اور توانائیاں صرف کرنا پڑیں گی۔ صحت اور تعلیم کو اولین ترجیح پر رکھنا ہوگا۔ پھر خیال آتا ہے حکومت کو سمجھائے گا کون؟ سارے وزرا تو اپنے اپنے نمبر بنانے میں مگن ہیں۔ ماضی کی طرح آج جو چیز سب سے زیادہ سستی ہے وہ خوشامد، مدح سرائی، چاپلوسی، پروپیگنڈا اور چرب زبانی ہے۔ کاش! ڈنمارک کی لوک کہانی کی طرح کوئی ایک بچہ ہی اُٹھے اور بادشاہ سلامت کو حقیقت بتا دے۔ کوئی وزیر، کوئی مشیر تو اتنی ہمت کرنے سے رہا۔ کاش! پاکستان کو سچ بولنے والا یہ بچہ نصیب ہو جائے۔ صرف یہی ایک بچہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved