تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     24-12-2020

محکمہ جاتی اصلاحات‘ وقت کا تقاضا!

وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ اب ہمیں گورننس اور کارکردگی کو بہت آگے لے کر جانا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں یا ہمارے پاس تجربہ نہیں ہے‘ اب کارکردگی کا وقت آ گیا ہے، وزرا خود پر دبائو ڈالیں، ٹارگٹ پورے کریں، کارکردگی دکھائیں۔ بڑی اچھی بات ہے ! لیکن کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم صاحب نے اپنے 100دنوں کے انتخابی وعدے کے بعد ہی اگر اپنی ٹیم کو بہانے تراشنے کے بجائے کارکردگی پیش کرنے کی تنبیہ کی ہوتی تو آج شاید پاکستان میں واقعی کچھ نیا نظر آ رہا ہوتا لیکن کم و بیش ڈھائی برس ہر بات سابق حکمرانوں پر ڈالنے اور 'میں نہ مانوں‘ میں گزار دیے گئے۔ بہرحال دیر آید، درست آید! اب بھی وقت ہے کہ وزیراعظم اپنی ٹیم کو سیاسی بیان بازی کے بجائے کارکردگی دکھانے کی ہدایت کریں۔ جو انہوں نے کر دی ہے اور جس کے اب اچھے نتائج آنے کی توقع ہے۔
اس وقت حقیقت یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے (پنجاب) میں گزشتہ تقریباً اڑھائی برس کے دوران لوگوں کے مسائل بڑھے ہیں، اس کی وجہ وہی ہے جو وزیراعظم صاحب نے بتائی کہ حکام ناتجربہ کار تھے مگر اب توبقول وزیراعظم بہانہ ختم اورکارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ عوام کو جن بھی سرکاری محکمہ جات میں کام پڑتا ہے‘ وہیں پر مشکلات کا ایک صحرا درپیش ہوتا ہے۔ ٹائوٹ مافیا کے ذریعے بھاری رشوت کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو رہا۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار صاحب نے چھ سات ماہ قبل اس بات کا نوٹس بھی لیا تھا لیکن ابھی تک صورتِ حال بہتر نہیں ہو سکی اور شہری سرکاری محکموں میں اپنے جائز کاموں کے لیے بھی دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔
دنیا کے تقریباً سبھی ملکوں میں محکموں میں جدید ٹیکنالوجی اور جدت سے عوام کے لیے سہولت پیدا کی جا رہی ہے مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی ہی بہہ رہی ہے۔ یہاں جس محکمے کو جدت طرازی سے ہم آہنگ کیا جاتا ہے‘ وہیں مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے گاڑیوں کی پرانی رجسٹریشن بک کی جگہ سمارٹ کارڈ اور کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں۔ بڑے شہروں میں سیف سٹی پروجیکٹ کی کامیابی کے لئے بھی یہ ضروری ہے نیز ان سے جہاں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری میں کمی واقع ہو سکتی ہے وہیں جعلسازی اور دھوکا دہی کے امکانات بھی معدوم ہو جاتے ہیں لیکن گزشتہ تقریباً ایک سال سے پنجاب میں کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں اور سمارٹ کارڈ کے حصول میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روزانہ دفاتر کے باہر شہریوں کی طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں لیکن لوگوں کومایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ پہلے تو یہ سب کچھ سست روی کا شکار تھا، پھر کورونا کا بہانہ میسر آ گیا اور دفاتر مکمل بند کر دیے گئے‘ یوں وہ لاکھوں شہری جنہوں نے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن اور ٹرانسفر کے لئے اپلائی کر رکھا تھا‘ انہیں کئی ماہ تک صبر کا پیالہ پینا پڑا، اب تک بھی ان میں سے بیشتر کو سمارٹ کارڈ اورکمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں جاری نہیں ہو سکی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً چھ ماہ قبل پنجاب بھر میں ساڑھے پانچ لاکھ سماٹ کارڈ رجسٹریشن التواء کا شکار تھے، جن کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور گاڑیوں کے مالکان فیس کی مد میں کروڑوں روپے جمع کروانے کے باوجود سماٹ کارڈ رجسٹریشن سے محروم ہیں۔ پنجاب میں گاڑیوں کی سرکاری کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں کا اجرا اب ایک معمہ بن چکا ہے اور فیس وصولی کے باوجود اگلے چھ ماہ تک بھی نمبر پلیٹوں کا اجرا ممکن نظر نہیں آتا۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ سمارٹ کارڈ یا سرکاری نمبر پلیٹس نہ ہونے پر ٹریفک پولیس گاڑی کو بند کر دیتی ہے یا اس پر چالان اور جرمانہ ہو سکتا ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں اورسمارٹ کارڈ کی عدم موجودگی میں نئی گاڑیوں کی چوری کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے اور چور آسانی کے ساتھ مسروقہ گاڑیوں پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر انہیں غائب کر دیتے ہیں۔ خرید و فروخت میں بھی لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کوئی شخص لاکھوں روپے خرچ کرکے گاڑی خریدتا ہے تو وہ فوری طور پر اپنے نام پر رجسٹریشن کرانا چاہتا ہے تاکہ کسی بھی قانونی پیچیدگی سے بچ سکے، اسی طرح جولوگ استعمال شدہ گاڑی خریدتے ہیں‘ وہ بھی فوری طور پرگاڑی یا موٹر سائیکل اپنے نام پر ٹرانسفر کرانا چاہتے ہیں لیکن اس وقت راولپنڈی اور لاہور سمیت پنجاب بھر میں صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ لاکھوں شہری ایک سال سے سرکاری دفاتر میں دھکے کھا رہے ہیں مگر کام ہے کہ وہیں تھما ہوا ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے گاڑیاں اپنے نام ٹرانسفر کرانے کے بعد آگے فروخت بھی کر دی ہیں اور انہوں نے نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر لیٹر بھی جاری کر دیا ہے، لیکن اکثر خریداروں نے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی رقم بطورِ ضمانت روک رکھی ہے کہ جب فروخت کنندہ انہیں سمارٹ رجسٹریشن کارڈ مہیا کر دے گا‘ وہ یہ رقم ادا کریں گے کیونکہ جب تک سمارٹ کارڈ جاری نہیں ہو جاتا اس وقت تک گاڑی نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔ اس وقت پنجاب میں گاڑیوں کے لاکھوں مالکان ان مشکلات کا شکار ہیں۔
ایک پروفیسر صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایک سال قبل ایک گاڑی خریدی‘ ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے گاڑی اپنے نام ٹرانسفر کرائی، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اس کا سمارٹ کارڈ نہیں مل سکا۔ اب پروفیسر صاحب نے یہ گاڑی فروخت کر دی ہے لیکن چونکہ ان کا سمارٹ کارڈ ابھی تک نہیں ملا اس لئے یہ گاڑی نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہو سکتی۔ اس سمارٹ کارڈ کے بدلے نئے مالک نے خطیر رقم بھی بطور زرضمانت اپنے پاس رکھی ہوئی ہے جو وعدے کے مطابق کارڈ کے اجرا کے بعد واپس ملے گی۔ کورونا کے بعد راولپنڈی اور لاہورسمیت پنجاب بھر میں دفاتر دوبارہ کھلے تو اس کے بعد بھی پروفیسر صاحب سینکڑوں چکر لگا چکے ہیں لیکن عملہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ کبھی کہا جاتا کہ آپ کا کارڈ ڈسپیچ ہو چکا ہے اور آپ کو ایک‘ دو روز میں مل جائے گا۔ اس بات کو بھی دو ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا، پھر کئی چکر لگانے کے بعد ایک بار یہ کہہ کر مزید پریشان کر دیا گیا کہ آپ کا کارڈ کوریئر کمپنی نے فلاں جگہ ترسیل کر دیا ہے۔ پروفیسر صاحب کا ایڈریس مری کا ہے‘ ان کا فون نمبر محکمہ ریکارڈ میں موجود ہے پھر کیسے اتنی اہم دستاویز کسی دوسرے شہر میں ڈیلیور کی جا سکتی ہے؟ دوبارہ محکمے سے رجوع کیا گیا تو عملہ بتاتا ہے کہ ہمیں غلط فہمی ہوئی تھی‘ ابھی آپ کا کارڈ آیا ہی نہیں۔ اب حقیقت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ایک شریف شہری ایک سال سے اپنے جائز و قانونی کام کیلئے دھکے کھا رہا ہے۔ یہ محض ایک سرکاری محکمے کی مثال ہے‘ تقریباً سارا سرکاری کام اسی طرح ہو رہا ہے۔ 
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار صاحب نے اس اہم عوامی مسئلے کا سخت نوٹس لیا تھا اور خود حالات کا جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے دفاتر میں لوگوں سے ان کے مسائل دریافت کیے تھے اور حکام کو ایک ماہ میں کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں اور رجسٹریشن کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور تمام زیر التوا درخواستیں نمٹانے کے لیے بھی ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی جس پر شہریوں نے اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے بعد اس معاملے پر کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ سکی۔ بعد ازاں کورونا وائرس کے باعث دفاتر کی بندش ہوئی تو یہ معاملہ مزید لٹک گیا، اب دفاتر تو کھل گئے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی کسی سطح پر عوامی مشکلات کا حل سوچا جا رہا ہے وزیراعلیٰ صاحب کے نوٹس پر بھی کوئی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا اور صورتِ حال جوں کی توں ہے، وزیراعلیٰ پنجاب اور متعلقہ محکمے کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہئے تاکہ لاکھوں عوام کو درپیش یہ مسئلہ حل ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved