تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     25-12-2020

اعتراف

شاعری اور لٹریچر میں توصدیوں سے ''اعترافات‘‘ کے موضوع پر بڑی خوبصورت تحریریں سامنے آتی رہی ہیں مگر سیاست میں اعتراف کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ جناب عمران خان کے پندارِ ذات کی طویل تاریخ کو دیکھتے ہوئے مجھے امید نہیں تھی کہ وہ معمولی سا بھی اعتراف کریں گے۔ بقول شاعر؎
ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر
ژاں ژاک روسو برسہا برس اعترافات لکھتے رہے اور مختلف محفلوں میں اس کے اقتباسات سناتے بھی رہے؛ تاہم اُن کی کتاب ''اعترافات‘‘ ان کی وفات کے چار برس بعد 1782ء میں منظرعام پر آئی۔ وہ سیاست، معیشت، تعلیم اور سماج کے بارے میں انقلابی سوچ کے حامل تھے۔ 
گزشتہ چند برسوں سے دنیا میں ایک اور کتاب کا بہت چرچا رہا ہے۔ اس کتاب کا ٹائیٹل ہے Confessions of an Economic Hitman۔ بائیوگرافی کے سٹائل میں لکھی گئی اس کتاب میں ایک امریکی مصنف نے اعتراف کیا کہ کس طرح اُس نے برسوں ایک امریکی فرم کے لیے کام کیا۔ جان پرکنز نے اعتراف کیاکہ اس کا بنیادی کام تیسری دنیا کے ممالک کے لیے مہنگے امریکی پراجیکٹ کا بندوبست کرنا تھا۔ پرکنز کے بقول تیسری دنیا کے لیے بڑے بڑے قرضوں والے منصوبوں کا بنیادی مقصد ان غیرترقی یافتہ ممالک کو قرضوں میں گرفتار کروانا اور انہیں سود در سود کی دلدل کا شکار کرنا تھا۔ 
جناب وزیر اعظم نے بدھ کے روز اسلام آباد میں اعتراف کیاکہ بغیر تیاری کے حکومت نہیں لینی چاہئے۔ انہوں نے اپنے وزیروں کی فوجِ ظفر موج سے ہارٹ ٹو ہارٹ بات کرتے ہوئے کہا کہ باقی ماندہ سوا دوبرس میں انہیں کارکردگی دکھانا ہوگی‘ اب یہ بہانہ نہیں چلے گاکہ نئے ہیں، تجربہ نہیں تھا۔ یہ اعتراف بھی کیاکہ تین ماہ تک معلوم نہیں ہوسکا تھاکہ حکومت کے معاملات کیسے ہیں اور یہ کہ کئی بار انہیں رات کو نیند نہیں آتی۔ خان صاحب نے ادھورا اعتراف کیا ہے۔ سب سے بڑا اعتراف توانہیں یہ کرنا چاہئے تھاکہ ہر معاملے کو جاننے، سمجھنے اور اسے بہتر طور پر چلانے کے لیے اُن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ اُن کی ا نا پرستی تھی۔ اب جناب وزیر اعظم معاملاتِ مملکت کے بارے میں بریفنگ کی ضرورت پر بہت زور دے رہے ہیں۔ وہ اگر یہ بات روزِ اوّل سے مان اور سمجھ لیتے کہ جانے والی حکومت کے وزیروں اور مشیروں سے بڑھ کر کوئی اور بریفنگ نہیں دے سکتا تو حالات بہتر ہوتے‘ مگر انہوں نے اوّل روز سے یک نکاتی پالیسی اپنائی کہ اپوزیشن کو لتاڑنا ہے۔ دیکھا دیکھی اُن کے سارے مشیر اور وزیر‘ جن کی کل تعداد 53 ہے‘ بھی اپوزیشن کو برا بھلا کہتے رہے۔ 
خان صاحب کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کا تقریباً 80 فیصد صرف اور صرف اپوزیشن کو رگیدنے، انہیں سبق سکھانے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات دینے پر صرف کیا۔ خان صاحب نے ایک اہم اعتراف یہ کیا کہ حکومت کے معاملات باہر سے کچھ دکھائی دے رہے تھے اندر آکر محسوس ہوا‘ بالکل مختلف ہیں۔ انہیں ساتھ ہی یہ بھی اعتراف کرنا چاہئے تھاکہ انہوں نے سابقہ حکومت اور اُن کی مختلف وزارتوں کے بارے میں اس وقت بغیر کسی ریسرچ اور تحقیق کے جو اعتراضات اٹھائے اور الزامات عائد کیے تھے وہ خلافِ واقع تھے۔ 
جناب وزیر اعظم زبانی کلامی ہی سہی ریاست مدینہ کا نام تو لیتے رہتے ہیں۔ کیا انہیں اندازہ ہے کہ اس حوالے سے اُن کی نیند اُڑانے کیلئے بہت سی چیزیں ہیں۔ یہ آیت انہیں ازبر ہونی چاہئے کہ وعدہ پورا کرو بے شک وعدے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اب خان صاحب کو اُن کا کون کون سا وعدہ یاد دلایا جائے جس کے بارے میں اگر اِس دنیا میں نہیں تو اُس دنیا میں تو اُن سے ضرور حساب کتاب لیا جائے گا۔
اب ذرا معاشی صورتحال پر ایک نظر ڈال لیجئے کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سالِ رواں کے دوران ہندوستان کی جی ڈی پی گروتھ 5.40 فیصد، سری لنکا کی 3.30 فیصد، افغانستان کی 2.50 فیصد، بنگلہ دیش کی 1.60 فی صد جبکہ وطن عزیز پاکستان کا گروتھ ریٹ صفر اعشاریہ 50 رہے گا۔ کتنی تشویش کی بات ہے کہ ہماری شرح نمو جنگ زدہ افغانستان سے بھی کم ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں مہنگائی کی شرح 3.5 فیصد، افغانستان میں 3.8 فیصد، بنگلہ دیش میں 5.5 فیصد، سری لنکا میں 6 فیصد جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی یہ شرح 12 فیصد رہے گی۔ اسی طرح ان سارے ممالک میں پاکستان کی مہنگائی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت اشیائے خورونوش کی قیمتیں اور بجلی و گیس کے بل غریب آدمی کے پہنچ سے دور ہیں۔ سفید پوش آدمی کی رسائی میں بھی نہیں۔
خان صاحب کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا کہ 2018ء میں پاکستان میں فی کس آمدنی 1652 ڈالر تھی، نئے پاکستان میں 2019ء میں یہ کم ہو کر 1455 ڈالر ہو گئی اور 2020ء میں مزید کم ہو کر 1355 ڈالر رہ گئی ہے۔ اگر خدانخواستہ فی کس آمدنی اسی رفتار سے گرتی رہی تو نہ جانے معیشت کس پستی میں جا گرے گی۔ زرداری کے پرانے پاکستان میں ملکی قرضہ روزانہ 5 ارب روپے بڑھ رہا تھا۔ نواز شریف کے دور میں 8 ارب روپے روزانہ کے حساب سے بڑھ رہا تھا۔ آج روزانہ 20 ارب روپے قرضہ چڑھ رہا ہے۔ خان صاحب کے اردگرد موجود ارب پتیوں کو کیا معلوم کہ ع
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
وزیر اعظم صاحب کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے تھا کہ ریاست مدینہ کے ایک والی عمرؓ بن خطاب کی طرح کبھی راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کا حال معلوم نہیں کیا۔ وزیر اعظم دریائے فرات کے کنارے بھوک یا پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری کی مثال دیتے رہتے ہیں مگر شاید انہیں معلوم نہیں کہ یہ واقعہ سنا کر وہ کتنی بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہیں۔ آج کے دور میں بھارتی صوبہ بہار کے حاکم نتیش کمار کی خدمتِ عوام اور خود بازاروں میں جاکر لوگوں کے حالات معلوم کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ خان صاحب کو اُن کے کون کون سے وعدے یاد دلائے جائیں۔انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہر کنٹریکٹ والے کی ملازمت مستقل کر دیں گے۔ اب اساتذہ کرام کڑاکے کی سردی میں بنی گالہ جاکر انہیں اُن کا وعدہ یاد دلاتے ہیں تو اُن کی پولیس واجب الاحترام اساتذہ پر ڈنڈے برساتی ہے۔ خان صاحب نے اپنا تین سو کنال کا گھر تو صرف 12 لاکھ روپے دے کر ریگولرائز کروا لیا ہے مگر شہر شہر غریبوں کے گھروندے گرائے جا رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ آئیں گے تو کروڑوں لوگوں کو نوکریاں دلوائیں گے۔ اس سنہرے دور میں اس وقت 70 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ 
خان صاحب ادھورا اعتراف کرنے کے بجائے پورا اعتراف کریں کہ اُن کی حکومت کو کسی شعبے میں کوئی کامیابی نہیں ملی اور اگلے دو سالوں کیلئے اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کریں۔ خان صاحب کو اپوزیشن مخالف بیانیہ یکسر ترک کر دینا چاہئے۔ مخاصمت کا نہیں مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں لے جائیں۔ کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اُن کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ جہاں تک اپوزیشن کے احتساب کا تعلق ہے اسے احتساب کے اداروں پر چھوڑ دیں۔ اگر خان صاحب پورا اعتراف نہیں کرتے، اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہیں چلتے تو پھر انہیں ایک دو برس کے بعد پورا اعتراف کرنا پڑے گا مگر اُس وقت تک پلوں کے نیچے سے ہی نہیں اوپر سے بھی بہت سا پانی گزر چکا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved