قائد اعظمؒ پر دنیا میں، جہاں بھی اور جو کچھ بھی لکھا گیا، قائد اعظم اکیڈیمی کے فرائض میں اسے ذخیرہ کرنا بھی شامل ہے۔ اکیڈیمی کے سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر بتا رہے تھے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اردو میں ان کتابوں کی تعداد گیارہ سواور انگریزی میں تقریباً آٹھ سو تھی۔ ان میں شہرہ آفاق سوانح نگار سٹینلے والپرٹ کی Jinnah of Pakistan اور ہندوستان کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی Jinnah: India-Partition-Independence بھی شامل ہے۔ تاریخ کا دھارا بدل دینے والے عظیم قائد پر لکھنے لکھانے کا یہ سلسلہ جاری ہے؎
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت
کہا جاتا ہے، انٹرنیٹ نے حرفِ مطبوعہ کی اہمیت کم کردی ہے، لیکن یہ مکمل سچ نہیں۔ کتاب (اور اخبار) کے شائقین آج بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ صدر اوباما کی کتابA Promised Land نومبر کے وسط میں آئی اور ڈیڑھ ماہ بھی اس کی 3 ملین کاپیاں نکل گئیں۔ ''دنیا پبلشرز‘‘ کی شائع کردہ، شیخ رشید احمد کی ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ کے دو تین ایڈیشن بھی ہاتھوں ہاتھ نکل گئے۔ جناب ڈاکٹر صفدر محمود کی ''سچ تو یہ ہے‘‘ نے بھی نئے ریکارڈ قائم کئے، 3 ماہ میں 4 ایڈیشن، ڈاکٹر صاحب نے یہ کتاب قائد اعظم کی 11اگست1947 کی تقریر سے سیکولرازم کشید کرنے والوں کے جواب میں لکھی۔
قائداعظم پر بیشتر کام، ان کی سیاسی زندگی کے حوالے سے ہوا۔ مصنفین اور محققین نے ان کی نجی زندگی پراچٹتی سی نظرڈالی اور آگے بڑھ گئے۔ اس ضرورت کو ڈاکٹر سعد خان نے پورا کرنے کی کوشش کی۔ ''قائد اعظم کی نجی زندگی‘‘ کے نام سے اس کتاب کو قائد کی 144ویں سالگرہ پر قابلِ قدر تحفہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ شامی صاحب نے کتاب کے پیش لفظ کو ''ایک مسلمان کی زندگی‘‘ کا عنوان دیا ہے: ''قائد اعظم کی زندگی کا بڑا حصہ لندن میں گزرا۔ وہ اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار پر اس وقت بھی سختی سے عمل پیرا رہے۔ برطانیہ میں‘ جہاں خواتین اپنے پسندیدہ مردوں کا ذکر بڑی بے تکلفی سے کرتے ہوئے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی کہانیاں بیان کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتیں، قائد کی کسی ہمعصر خاتون کو ان کے بارے میں اس طرح کا دعویٰ کرنے کی جسارت نہیں ہوئی‘‘۔ ''قائد اعظم کا اسلام سے لگائو‘‘ کے باب میں فاضل مصنف نے معروف مغربی دانشور آئن برانٹ ویلز کی تصانیف کا حوالہ دیا جو اس مفروضے کی تردید کے لیے کافی ہے کہ محمد علی جناح مضبوط مذہبی عقائد نہیں رکھتے تھے۔ قائد 1910 سے تقسیم برصغیر تک امپریل قانون ساز کونسل کے تقریباً مسلسل رکن رہے۔ ہر تین سالہ انتخابات میں کامیابی کے بعد، ہر بار حلف اٹھاتے ہوئے وہ قرآن پاک کو انتہائی عقیدت سے بوسہ ضرور دیتے۔ وہ مذہبی ایام کے تقدس کا بھی پورا خیال رکھتے۔ ستمبر1944 میں مشہور جناح گاندھی مذاکرات کے دوران 9 ستمبر کو ایک روزہ تعطل آ گیا کیونکہ اس روز 21رمضان تھا (حضرت علیؓ کا یوم شہادت)۔ ایک اور موقع پر انہوں نے لندن میں شاہ جارج کی دعوت میں شرکت سے اس لیے معذرت کرلی کہ اس روز یومِ عاشور تھا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جناح صاحب پر مذہبی اثراوائل عمری سے ہی ہونا شروع ہوگیا تھا۔ مذہبی سوچ رکھنے والی والدہ نے ان کی پرورش کی۔ پھر ان کی رسمی تعلیم کا آغاز کراچی کے ایک دینی مدرسے سے ہوا۔ سکول کی تعلیم سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی اور پھر انجمن اسلامیہ سکول بمبئی سے حاصل کی۔ یہ دونوں دینی رجحان رکھنے والے سکول تھے۔ جناح صاحب کے مذہبی جھکائو کا اندازہ ان کے بھائی بہنوں کی زندگی سے بھی ہوتا ہے۔ 1897 میں انگلستان میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد، واپس بمبئی میں قیام پذیر ہوئے تو چھوٹے بھائی احمد علی جناح کو اسی انجمن اسلامیہ سکول میں داخل کرایا (احمد علی عمرمیں ان سے 13سال چھوٹے تھے) گھر میں مذہبی اثر کی زندہ مثال، ان کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح تھیں جو 1902 سے ان کی سرپرستی میں تھیں۔ فاطمہ جناح، قائد کی 1918 میں شادی تک ان کے ساتھ رہیں۔ اس کے بعد بھی گاہے گاہے ان کے پاس آجاتیں۔ 1929میں بیگم مریم جناح کی وفات کے بعد وہ پھر قائد کے ساتھ مستقل رہنے لگیں۔ 1948میں قائد کی وفات تک ان کا ساتھ نبھانے والی ہمشیرہ فاطمہ جناح بے حد مذہبی اور مسلمانوں کی جدا گانہ شناخت کی پرزور حامی تھیں۔
جناح صاحب اپنی اہلیہ کے سوا کبھی خواتین کی محفل میں نہیں دیکھے گئے۔ وہ رقص وموسیقی کی محفلوں سے بھی متنفر تھے۔ وہ ایسے افراد کو بھی ناپسند کرتے تھے جو تقریبات میں نشے میں بہک جاتے۔ کلب میں جیسے ہی موسیقی بجتی اور جوڑے رقص کرنے لگتے، وہ کسی دوست کو لیکر خاموش کونے میں چلے جاتے۔ ایم اے ایچ اصفہانی کے چچا کی طرف سے لندن میں دیئے گئے عشائیے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اصفہانی، مریم جناح کے سب سے چھوٹے بھائی جمشید جی پٹیٹ کے کیمرج کے ہم جماعت تھے۔ جیسے ہی جاز موسیقی کی تیز آواز نے فضا کو مرتعش کیا، محمد علی جناح بلیرڈ روم میں چلے گئے اور نوجوان اصفہانی سے سیاست پر بات چیت شروع کردی۔ جناح صاحب تاش کو بھی ناپسند کرتے تھے، کیونکہ جوئے، شرط لگانے اور اس سے وابستہ ہرکھیل سے انہیں چڑ تھی۔
ایک اور دلچسپ واقعہ ۔ قائد محترم اور ان کے جونیئر معاون محمد علی کریم بھائی چھاگلہ، ٹائون ہال بمبئی کے قریب ایک مشہور ریستوران میں کھانا کھارہے تھے۔ ایک باریش مسلمان اپنے پوتے کے ساتھ انہیں ملنے آیا۔ بچہ سؤر کے گوشت کی ساسیج پلیٹ سے لیکر چکھنے لگا۔ مہمان چلے گئے تو محمد علی جناح، چھاگلہ پر گرجے: چھاگلہ تمہیں شرم آنی چاہیے۔ چھاگلہ کو جواسلامی روایات کو پابندی نہیں کرتے تھے، احساس نہ ہوا کہ ان سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ اس پر جناح صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تم نے ایک چھوٹے مسلمان لڑکے کو سؤر کے گوشت کی ڈش کھانے کی اجازت کیسے دی؟ یہ وہی چھاگلہ ہیں جو بعد میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔
قائد کی اسلام سے محبت اس سے بھی جھلکتی ہے کہ جب انہوں نے رتی بائی سے شادی کا ارادہ کیا تو اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اپنے پارسی مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کریں (قبول اسلام کے بعد رتی کا نام مریم جناح ہوگیا) اسی طرح جناح صاحب کی اپنی بیٹی دینا جوان ہوئی تو آپ پارسی مذہب رکھنے والے نوجوان نیول واڈیا سے اس کی شادی کے خلاف تھے تاوقتیکہ وہ اسلام قبول کر لے۔ جس کے بعد آہنی اعصاب رکھنے والے قائد نے دل پر پتھر رکھ کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی قربانی دی اور اپنی اکلوتی اولاد سے ہر قسم کا رشتہ ناتہ توڑ لیا (مریم جناح پر حکیم راحت نسیم سوہدروی کا مضمون بھی اس کتاب کا حصہ ہے) جب بھی محمدعلی جناح سے ان کے مسلک کے بارے میں پوچھا جاتا، وہ اس کے جواب میں ایک سوال کرتے ''پیغمبر اسلامﷺکا مسلک کون سا تھا؟‘‘ جناح کا موقف تھاکہ وہ اوّل وآخر ایک مسلمان ہیں۔ 1941 میں ہندوستان کی مردم شماری کے دوران قائد اعظم نے مسلم لیگ کے حامی مسلمانوں کے نام ہدایت جاری کی کہ وہ مذہب اور مسلک کے خانے میں صرف ''مسلمان‘‘ لکھیں۔
قائد اعظم نے اپنی بہنوں کی شادی مسلمانوں کے تین مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں کی۔ ان کی اپنی زندگی بھی اسلام کے کسی مخصوص فرقے کی طرف جھکائو سے آزاد تھی۔ رتی بائی نے سنی عالم دین مولانا نذیر احمد خجندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا (مولانا نذیر احمد، مولانا شاہ احمد نورانی کے والد مولانا عبدالعلیم صدیقی کے بھائی تھے)۔ شادی اثنا عشری روایت کے مطابق کی اور ان کی نماز جنازہ خود ان کی خواہش کے مطابق ایک سنی عالم دین علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔