2020ء میں پاکستانی برآمدات کے حوالے سے لکھے گئے گزشتہ کالم میں بتایا گیا تھا کہ امسال سال پاکستان میں کپاس کی پیداوار کم رہی ہے جس کی وجہ سے ٹیکسٹائل مالکان کو کپاس درآمد کرنا پڑی ہے۔ فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ کسانوں کی کپاس کے علاوہ دیگر اجناس کی پیداوار میں دلچسپی بڑھی ہے کیونکہ پاکستان میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار دنیا کی نسبت پچاس فیصد کم ہے لہٰذا کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے۔ حکومت تو اس کے لیے اقدامات کرتی دکھائی دے نہیں رہی لیکن نجی شعبے نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کپاس اور ٹیکسٹائل سے متعلق ایک تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ نجی شعبے نے پاکستان میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس اور دیر پا اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ نجی شعبے کے بڑے صنعتکار اپنے خرچے پر بیرونِ ملک سے ماہرین کو پاکستان بلائیں گے اور کپاس کے بیج پر ریسرچ کا کام کریں گے۔ ماضی میں بھارت میں استعمال ہونے والا بیج پاکستان میں استعمال کیا گیا‘ اس نے بھارتی زمین پر تو بہتر پیداوار دی لیکن پاکستان میں ناکام رہا۔ اب پوری دنیا سے ماہرین کو پاکستان بلا کر مٹی کی کوالٹی کے حساب سے بیج کی تیاری کا کام عمل میں لایا جائے گا۔ بھارت کے بعد چین دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت میں کپاس کی سالانہ پیداوار 6423 میٹرک ٹن اور چین کی 5923 میڑک ٹن ہے۔ ان کے بعد‘ امریکا کا تیسرا اور برازیل کا چوتھا نمبر ہے۔ بھارت سے ماہرین کو بلانا تو مشکل ہو گا لیکن چین سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ امریکا اور برازیل سے بھی ماہرین کو پاکستان بلانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔
ماضی میں سٹاف کو ٹریننگ کے لیے بیرونِ ملک خصوصاً چین بھجوایا جا تا رہا ہے لیکن زیادہ مؤثر انداز میں اس پالیسی پر تسلسل سے عمل نہیں ہو سکا۔ اس وقت یہ منصوبہ بندی بھی کی جاری ہے کہ پاکستانی پروفیسروں کو سپیشلا ئزیشن کے کورسز کروانے کے لیے مختلف ممالک میں بھیجا جائے‘ جہاں سے وہ سیکھ کر اپنے وطن واپس آئیں تو یہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو تعلیم دیں۔ اس کے علاوہ مقامی ماہرین کے زیر اہتمام ابتدائی طور پر پنجاب کے پینتیس اضلاع میں ریسرچ سنٹر قائم کیے جائیں گے جہاں مقامی کسانوں کو تربیتی کورسز کروائے جائیں گے، کاشت کاری کا جدید طریقہ کار متعارف کروایا جائے گا جس سے بین الاقوامی معیار کے مطابق کھیتی باڑی ممکن ہو سکے گی۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس عمل سے کپاس کے گرتے ہوئے شعبے کو ایک مرتبہ پھر سے بحال کیا جا سکے گا۔ اس سے ٹیکسٹائل مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز کو بھی سہارا مل سکے گا۔اس صنعت سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک تو کپاس کی پیداوار کم ہے‘ دوسرا کوالٹی بھی دنیا کے مقابلے کی نہیں ہے۔ ٹیکسٹائل میں عمومی طور پر تولیہ بنانے کے لیے کم کوالٹی والی کاٹن استعمال کی جاتی ہے۔ ایک ٹیکسٹائل مالک نے بتایا کہ آج کل تو حالات یہ ہیں کہ تولیہ بنانے کے لیے جو کم درجے کی کاٹن درکار ہوتی ہے‘ ہمیں وہ بھی باہر سے امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔ بیرونِ ملک سے کاٹن انٹرنیشنل کنٹرول ریٹ پر ملتی ہے‘ اگر یہی کاٹن پاکستان میں پیدا ہو تو سب سے پہلے ہمارا ٹریولنگ خرچ بچے گا، دوسرا مقامی سطح پر پیدا ہونے والی کاٹن بہرصورت درآمد کی گئی کاٹن سے سستی پڑے گی۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت لگانے کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک پیداوار میں خود کفیل نہ ہوا جائے۔ پاکستان میں جو دھڑا دھڑ ٹیکسٹائل فیکٹریاں لگائی گئی تھیں اس کی سب سے اہم وجہ کپاس کی پیداوار میں خود کفالت تھی۔ ملک میں اتنی کپاس پیدا ہوتی تھی کہ ملک کی ضروریات پوری کرنے کے بعد برآمد بھی کی جاتی تھی اور ٹھیک ٹھاک منافع کمایا جاتا تھا۔ چند سال قبل پاکستان پندرہ لاکھ بیلز سے زیادہ کپاس پیدا کرتا ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ آٹھ لاکھ بیلز کپاس بھی بمشکل پیدا ہو رہی ہے، یہ یقینا ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ امسال نجی شعبے کی اس میں دلچسپی ایک مثبت پہلو ہے جس سے بہتر نتائج برآمد ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ کپاس کے بعد چاول پاکستان کی دوسری بڑی برآمدات ہیں۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی باسمتی چاول کی دنیا بھر میں مانگ تھی۔ گلف، یورپ، امریکا سمیت ہر جگہ چاولوں کے شوقین پاکستانی باسمتی چاول پسند کرتے تھے لیکن یہاں بھی وہی غلطی ہوئی جو کپاس کے شعبے میں ہوئی‘ یعنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام نہیں کیا گیا۔ ہمارے ہاں ایک بری بات یہ بھی ہے کہ جب ہماری کوئی پراڈکٹ ہٹ ہو جاتی ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آج تک ہم جیسی چیز کوئی نہیں بنا سکا تو آگے بھی نہیں بنا سکے گا۔ ہم اپنے زعم میں مبتلا رہتے ہیں اور دنیا ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے ہم سے بہتر پراڈکٹ مارکیٹ میں لانچ کر دیتی ہے۔ جو ہماری پراڈکٹ کو کھا جاتی ہے۔ پاکستانی باسمتی جب ہاتھوں ہاتھ بک رہا تھا تو اس کی بہتری کے لیے کوئی ریسرچ نہ کی گئی۔ چاول کی کوالٹی بہتر کرنے کے ساتھ اس کی مقدار میں اضافہ بھی اہم ہدف ہونا چاہیے تھا۔ کوالٹی تو کسی نہ کسی طور برقرار رہی لیکن فی ایکڑ پیداوار نہ بڑھ سکی جبکہ بھارت نے چند سالوں کی محنت سے پاکستانی باسمتی چاول کے مقابلے میں بھارتی باسمتی چاول متعارف کروا دیا۔ اس کی کوالٹی پاکستان کے برابر ہے مگر ریٹ پاکستانی چاول سے کم ہے۔ ریٹ کم ہونے کی وجہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہے۔
بھارت میں باسمتی چاول کی پیداوار 120 من فی ایکڑ ہے جبکہ پاکستان میں صرف 70 من فی ایکڑ چاول پیدا کیا جا رہا ہے۔ پچاس من فی ایکڑ کا یہ فرق ریٹ میں کمی کا باعث بنا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گلف ممالک میں جو پاکستانی تاجر پاکستانی باسمتی ٹنوں کے حساب سے خرید کر مارکیٹ میں بیچا کرتے تھے‘ آج بھارتی باسمتی چاول خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ کسٹمر اس چاول کو پسند کرتا ہے۔ پاکستان میں کالا شاہ کاکو رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جس کا کام چاول کی کوالٹی اور پیداوار کو بہتر بنانا ہے‘ یہ ادارہ پاکستان بننے سے پہلے کا قائم ہے جو کروڑوں روپے کا سالانہ بجٹ کھا جاتا ہے لیکن اس سے کوئی مفاد حاصل نہیں ہو سکا بلکہ اس کی عمارت بھی اس قدر خستہ حال ہے کہ اندر داخل ہونے کی بھی ہمت نہیں پڑتی۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ 2010ء میں چاول کی برآمدات تقریباً تین ارب ڈالر تھیں جو اس سال کم ہو کر صرف دو ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ اگر چاول کی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام نہ ہوا تو آنے والے سالوں میں یہ برآمدات کم ہو کر ڈیڑھ ارب ڈالر ز تک گر سکتی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ برآمدات کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کے لیے کو تیار ہے لیکن یہ دعویٰ حقیت کب ثابت ہو گا‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ٹیکسٹائل شعبے کو ضرورت سے زیادہ مراعات دینا اور دیگر شعبوں کو نظر انداز کر دینا بہت سے سوالات کوجنم دیتا ہے۔ دیگر صنعتوں سے وابستہ تاجر یہ گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹیکسٹائل کو دینے کے باوجود ان کے اعداد وشمار حوصلہ افزا دکھائی نہیں دے رہے۔ اگر ان مراعات کا پچاس فیصد بھی رائس انڈسٹری کو دیا جائے تو پاکستان کو چاول کی برآمدات میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر لایا جا سکتا ہے۔ (جاری)