ہر بڑے شہر میں زندہ رہنے کی خاصی بھاری قیمت ہوا کرتی ہے۔ امین مرزا بھی یہ قیمت ادا کرتے آئے ہیں۔ اُن کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنا آرام و سکون ایک طرف ہٹاکر اہلِ خانہ کے لیے زیادہ سے زیادہ راحت کا سامان کرتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ محض سوچنے سے نہیں ہو جاتا۔ عملی زندگی کے آغاز سے اب تک یعنی کم و بیش 35 برس کی مدت میں اُنہوں نے کبھی ایک نوکری پر اکتفا نہیں کیا۔ عملی زندگی یعنی معاشی جدوجہد کے ساڑھے تین عشروں کے دوران امین صاحب نے ایک وقت میں کم از کم دو نوکریاں کی ہیں اور کبھی کبھی تو تین بھی کی ہیں۔ انہوں نے یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا ہے کہ اہلِ خانہ کو کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ اہلیہ کے لیے بھرپور آسائش کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اولاد کی معقول تعلیم و تربیت بھی یقینی بنائی ہے۔ بچے بڑے ہوکر عملی زندگی بھی شروع کرچکے ہیں۔ دو بیٹوں نے آئی ٹی کی اعلیٰ تعلیم پاکر قابلِ رشک انداز سے کیریئر کا آغاز کیا ہے اور بیٹی ایم اے کرنے کے بعد سرکاری کالج میں لیکچرر شپ کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی بھی کر رہی ہے۔
اہلِ خانہ کے لیے بہت کچھ کرنے کی دُھن میں مرزا صاحب نے اپنے وجود کو اچھا خاصا نظر انداز کیا۔ انہوں نے اپنے پسندیدہ ترین مشاغل تک بالائے طاق رکھ دیے۔ کبھی کبھی اُنہیں اس بات کا دکھ بھی ہوتا ہے کہ وہ مشاغل کی حد تک جو کچھ کرسکتے تھے وہ نہ کرسکے۔ عنفوانِ شباب میں اُنہیں گانے کا شوق تھا، کرکٹ بھی کھیلتے تھے۔ جب عملی زندگی شروع ہوئی تو پہلے والدین اور بھائی بہنوں کی خاطر اور پھر اہلیہ اور اولاد کی خاطر انہوں نے اپنے ہر شوق کا گلا گھونٹ دیا۔ اب عمر کا سُورج ڈھلنے کی طرف مائل ہے تو اُنہیں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کسی شوق کو تھوڑا سا نبھالیتے تو اچھا تھا۔ 58 سال کی عمر میں وہ کرکٹ تو کیا کھیلیں گے‘ گا بھی نہیں سکتے۔ جسم تھک چکا ہے اور ذہن تیار نہیں۔ وہ اپنے مشاغل کا گلا گھونٹنے پر رنج ضرور محسوس کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ سوچ کر عجیب سی طمانیت بھی محسوس ہوتی ہے کہ اپنے وجود کو اگر گھسایا بھی تو اہلِ خانہ کے لیے۔ مشاغل چُھوٹے بھی کیا ہے، اللہ نے جن کی ذمہ داری سونپی تھی وہ تو پریشانی سے بچ گئے ؎
ہمارا کیا ہے، دل اگر جفا کی چوٹ کھا گیا
اُنہیں تو مل گیا سُکوں، اُنہیں تو چین آ گیا
ہر وہ انسان قابلِ تعریف و تعظیم ہے جو اپنی تمام معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے میں بھرپور دلچسپی لیتا ہے اور کسی پر احسان بھی نہیں جتاتا۔ آپ، ہم‘ سبھی اُن سب کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں جن کی کفالت کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے۔ پہلے والدین اور بھائی بہنوں کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے اور اُس کے بعد اہل و عیال کے لیے بھی۔ اِس عمل میں اگر اپنا وجود کہیں پیچھے رہ جائے تو بعد میں تھوڑا سا دکھ ضرور ہوتا ہے۔ ہونا ہی چاہیے کیونکہ کوئی دوسروں کے لیے کچھ بھی کرتا پھرے، اُس پر اپنے وجود کا بھی تو حق ہوتا ہے۔ انسان اگر اپنی ہی حق تلفی کر بیٹھے تو ایک زمانہ گزر جانے کے بعد ہی سہی، یہ بات کَھلتی ضرور ہے۔ ؎
سب کا تو گریباں سی ڈالا اپنا ہی گریباں سی نہ سکے
سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
ہر فرد کو اللہ نے انفرادیت سے نوازا ہے۔ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے منفرد ہے مگر یہ احساس اُس وقت توانا اور کارگر ہوتا ہے جب اپنے وجود پر توجہ بھی دی جائے۔ ہر انسان کو بالآخر اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہیے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے دوسروں سے تھوڑی بہت تحریک ضرور لی جاسکتی ہے مگر اپنے لیے حتمی فیصلہ کسی اور کو نہ کرنے دیا جائے تو اچھا۔
واکر پرسی (Walker Percy) کی مشہورِ زمانہ کتاب ''لاسٹ اِن دی کاسموس‘‘ (Lost in the Cosmos) میں اپنے وجود کو نظر انداز کرنے کے نقصان پر بحث طنز و مزاح کے پیرائے میں کی گئی ہے۔ واکر پرسی کا کلیدی نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم زندگی بھر دوسروں میں گم رہتے ہیں جس کے نتیجے میں حقیقی اطمینانِ قلب نہیں مل پاتا۔ اور یہ کہ انسان اُسی وقت زندگی کو زیادہ بامقصد اور بارآور بناسکتا ہے جب اپنا وجود کسی مرحلے پر نظر انداز نہ کرے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی بھی سوال کا جواب ہم باہر کی دنیا میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں جبکہ وہ ہمارے باطن میں چھپا ہوتا ہے۔ اگر ذہن میں بہت کچھ بھرا ہوا ہو تو ہم اپنے دل کی، روح کی آواز نہیں سُن پاتے۔ انہماک منتشر کرنے والے معاملات ہمیں اپنے ہی وجود سے دور رکھتے ہیں۔ متوازن زندگی کے لیے اپنے وجود پر بھی اُتنی توجہ لازمی طور پر دی جانی چاہیے جتنی ناگزیر ہو۔ اچھا کھانا، غیر ضروری مشقت سے گریز اور جتنی لازم ہے اُتنی نیند کا اہتمام‘ یہ سب کچھ ہم میں سے ہر ایک کے لیے کم و بیش فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ دنیا اس قابل نہیں کہ اِسے تمام معاملات پر ترجیح دی جائے۔ گھر بھی ہے، ذاتی زندگی بھی ہے اور اُخروی زندگی بھی ہے۔ ایک مسلم کی حیثیت سے ہر وقت یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اِس دنیا میں اپنے حصے کا وقت گزار کر اپنے حقیقی مالک و خالق کے حضور پیش ہوکر اپنے دُنیوی افکار و اعمال کا حساب دینا ہے۔ شخصی ارتقا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ صرف مال کمانے اور خرچ کرنے کا نام شخصی ارتقا نہیں۔ اللہ نے جن باتوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اُن سے بچنا بھی شخصی ارتقا کا حصہ ہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم دوسروں کی خدمت کی خاطر اپنے وجود کو نظر انداز نہ کریں۔ جن کی نظر آخرت اور حتمی و حقیقی فلاح پر ہوتی ہے وہ اِس دنیا کو سب کچھ سمجھنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنی مستقل اصلاح کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔ ہم بہت سے مواقع پر سوچتے ہیں کہ کاش ایسا کرلیتے یا ویسا کرلیتے۔ یہ پچھتاوا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنے دل کی آواز سُننے سے گریز کرتے ہوئے وہ سب کچھ نہیں کرتے جو ہمیں پسند ہوتا ہے۔ نیت خالص اور نیک ہو تو غلطی سرزد ہونے کے احتمال کو بالائے طاق رکھیے۔ آپ زندگی بھر غلطیاں کرتے رہیں گے۔ غلطیاں وہی کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں۔ جنہیں عمل کی توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ غلطی بھی نہیں کرتے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ انسان غلطی ہی سے سیکھتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہم سے جو غلطی سرزد ہوتی ہے وہی ہمیں متبادل راہ تلاش کرکے اس پر گامزن ہونے کی تحریک دیتی ہے۔ اپنے آپ کو اہمیت دیجیے گا تو عمومی ذمہ داریوں سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنے کی توفیق نصیب ہوگی اور زندگی کو زیادہ بامقصد و مفید بنانا ممکن ہوسکے گا۔
ہر معاملے کے دو ممکنہ نتائج ہوتے ہیں : فائدہ یا نقصان۔ اگر آپ طے کرلیں کہ کسی بھی معاملے پر اپنی انا کو مقدم رکھتے ہوئے غلط فائدہ یقینی بنانے کے بجائے منطقی و اخلاقی اعتبار سے درست نقصان کو گلے لگانا ہے تو پھر وہ نقصان حتمی تجزیے میں نقصان نہیں رہتا۔ آپ کی زندگی آپ کو بسر کرنی ہے، کسی اور کو نہیں۔ کسی کی رائے کتنی ہی اچھی اور مفید معلوم ہوتی ہو، فیصلہ تو آپ ہی کو کرنا ہے۔ اگر آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو کوئی آپ کو مفید مشورے بھی دے سکتا ہے اور کوئی آپ کی تھوڑی بہت مالی مدد بھی کرسکتا ہے مگر کاروبار تو آپ ہی کو کرنا ہے۔ یہی معاملہ مجموعی طور پر پوری زندگی کا ہے۔ زندگی کی بھیڑ اور شور شرابے میں اپنی آواز سننے سے گریز مت کیجیے۔ یومیہ معمولات میں اپنے لیے بھی وقت مختص کیجیے، کچھ ایسا کرنے کی گنجائش پیدا کیجیے جو آپ کو حقیقی ذہنی و قلبی طمانیت سے ہم کنار کرسکے۔ اپنے آپ کو بھول کر صرف قربانی کا بکرا بنے رہنے کو حتمی تجزیے میں پسندیدہ ترین روش قرار نہیں دی جاسکتی۔ دوسروں کی خدمت کیلئے اولاً اپنے وجود کا معیار بلند کرنا ناگزیر ہے۔