دورِ حاضر میں ذہنوں کو مسخر کرنے کے لیے طاقت کے بجائے ادب‘ تہذیب‘ ثقافت‘ تعلیم اور زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں فنونِ لطیفہ بھی ذہنوں کی تسخیر کا ایک مؤثر ذریعہ بنتے ہیں۔ گیتوں کو ہی لیجئے جو بظاہر محض لطف و مسرت کا ذریعہ ہوتے ہیں لیکن ان کے ذریعے سنجیدہ پیغامات کی ترسیل اور مختلف شناختوں کی تشکیل کی جاتی ہے۔ گیتوں میں استعمال ہونے والی زبان نہ صرف مختلف Stereotypes کی تشکیل کرتی ہے بلکہ ان Stereotypes کی ترسیل (Prepulation) بھی کرتی ہے‘ یوں گیت جو بظاہر ادب کی ایک معصوم سی صنف خیال کئے جاتے ہیں بالا دستی کی اس سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں جہاں زور آور گروہ اپنے لیے ایک معتبر شناخت اور دوسروں کے لیے ایک رسواکن (Stigmatized) شناخت کو تشکیل دیتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں وہاں لوگ زبانی گفتگو اور بول چال (Oracy)کے رسیا ہیں۔ اس علاقے میں شاعری گائیکی کی ایک توانا روایت ہے۔ بہت سے لوک شاعروں مثلاً بابا فرید‘ شاہ لطیف‘ بلھے شاہ‘ خوشحال خاں خٹک‘ شاہ حسین اور میاں محمد بخش کے کلام کو اب بھی ذوق و شوق سے گایا جاتا ہے۔ برصغیر میں شاعری کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں ‘جن میں ایک یہ بھی ہے کہ شاعری کو آسانی سے یاد کیا جا سکتا ہے۔ شاعری کی مقبولیت کی ایک اور وجہ جذبات کو برانگیختہ کرکے پیغام کی اثر پذیری کو بڑھانا ہے۔ یہ اثر اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب شاعری کو اچھی گائیکی کا ساتھ میسر آتا ہے۔ برصغیر میں مشاعرے کی قدیم روایت ہے جس میں شعرا اپنا کلام سناتے اور سامعین دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ فلموں میں بھی گیتوں کا کردار اہم ہے۔ برصغیر میں بعض اوقات تو اچھے گیت فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ یوں برصغیرمیں Oracy based طرزِ زندگی میں گیت لوگوں پر اثرانداز ہونے کا ایک اہم ذریعہ بن جاتے ہیں اور گیت جو بظاہر ادب کی ایک معصوم سی صنف تصور کیے جاتے ہیں دراصل بالادستی (hegemony) کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گیت مختلف سٹیریو ٹائپس کی تشکیل‘ ترسیل اور ان کو جائز قرار دلانے (legitimize) میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ سٹیریو ٹائپس اکثر اوقات زورآور گروہوں کی حمایت میں ہوتی ہیں اور معاشرے کے کمزور گروہوں کو فرومایہ بناتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں گیتوں میں خواتین کی نمائندگی (Representation) کیسے کی جاتی ہے۔
ہمارے گیتوں میں اکثر صنفی (Gender) سٹیریوٹائپس کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ فلمی گانوں میں تو شاعری سے لے کر گانوں کی فلم بندی تک عورتوں کا ایک مخصوص امیج پیش کیا جاتا ہے جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ صنفی سٹیریوٹائپس کو کیسے تشکیل دیا جاتا ہے‘ کیسے ان کی ترسیل ہوتی ہے اور کس طرح ان سٹیریوٹائپس کو جائز قرار دیا جاتا ہے‘ اس کے لیے ہمیں ان گیتوں کے بولوں کا جائزہ لینا ہو گا‘ لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ دیکھناہو گا کہ معاشرے میں صنف (Gender) کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔ صنف کی اصطلاح Sex سے مختلف ہے‘ جس کے برعکس صنف کی تشکیل معاشرہ کرتا ہے۔ یہ معاشرہ ہی ہے جو عورتوں اور مردوں کیلئے علیحدہ علیحدہ کردار (Roles) توقعات (Expectation) اور مواقع (Opportunities) کا تعین کرتا ہے۔
صنفی سٹیریوٹائپس کو تمام سماجی ادارے تقویت بخشتے ہیں۔ تقویت بخشنے کا ایک ذریعہ گیت بھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کمزور گروہ‘ جن کی ایک خاص شناخت مصنوعی طور پر تشکیل دی جاتی ہے‘ بھی اس مصنوعی شناخت کو اصل سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں‘ یوں معاشرے کے زورآور گروہ کا ہر فعل اور عمل ایک معیار (Standard) بن جاتا ہے اور طاقت کا یہ جادو اس حد تک سر چڑھ کر بولتا ہے کہ زورآور گروہ کی خامی بھی خوبی بن جاتی ہے اور کمزور گروہ کی خوبی بھی خامی بن جاتی ہے۔ آئیے ایک گیت کے بول دیکھتے ہیں جو حدیقہ کیانی نے گایا ہے۔ یہ پنجابی کا ایک گیت ہے جس میں ایک لڑکی اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور اُسے بادشاہ اور خود کو ایک باندی قرار دیتی ہے۔ وہ اپنے ''سچے موتیوں‘‘ کو جھوٹے اور اپنے محبوب کے ''کھوٹے سکوں‘‘ کو چاندی قرار دیتی ہے۔ اس گیت سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے طاقت خوبی کو خامی اور خامی کو خوبی میں بدل دیتی ہے اور کیسے کمزور گروہ اپنے لیے برضاورغبت ایک فرومایہ شناخت کو قبول کر لیتا ہے۔ برضاورغبت ایک کم تر شناخت کو قبول کرنے کو اطالوی مفکر انتونیو گرامچی Spontaneous Consent قرار دیتا ہے‘ جس کے مطابق معاشرے کا کمزور گروہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ ان کی ثقافت‘ شناخت‘ زبان‘ ادب زورآور گروہ سے کم تر ہے۔ نمائندگی (Representation) کی اس سیاست میں یہ بات اہم ہے کہ مردوں کا ذکر ان کی Achievements سے کیا جاتا ہے جبکہ عورتوں کا ذکر ان کے جسمانی خدوخال سے ہوتا ہے۔
نمائندگی کی یہ سیاست صنفی سٹیریوٹائپس کو بڑھاوا دیتی ہے مثلاً ہمارے معاشرے میں عورتوں سے جو توقعات رکھی جاتی ہیں ان میں خوبصورت‘ گورا‘ دبلا پتلا اور درازقد ہونا شامل ہیں۔ ہمارے گیتوں میں یہ سٹیریوٹائپس جابجا جھلکتے نظر آتے ہیں۔ فلمی گانوں میں 'اونچا لمبا قد‘ عورتوں کے درازقد کو Celebrate کرتا ہے جبکہ ایک معروف گیت ''گورے رنگ کا زمانہ کبھی ہو گا نہ پرانا‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے معاشرے میں حُسن کا واحد معیار گورا رنگ ہے۔ اس گیت میں ایک لڑکی کو مخاطب کرکے کہا جاتا ہے کہ تمہیں فکر کی ضرورت نہیں کیوں کہ تمہارا رنگ تو گورا ہے۔ نصرت فتح علی کے گائے ہوئے گیت آفریں آفریں میں عورت کے سراپے کو بیان کرنے کے لیے کئی صوتی اور بصری تشبیہات سے مدد لی گئی ہے۔ بہت سے گیتوں میں عورت کو ایک نمائش کی چیز (Show piece) قرار دیا گیا ہے‘ جس کی تعریف اس کے ظاہری خدوخال سے کی جاتی ہے۔ نمائندگی کی یہ سیاست کمزور گروہوں کی شناخت کی تشکیل زورآور گروہوں کے تعصبات کی روشنی میں کرتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے‘ اس کے لیے ایڈورڈ سعید کی کتاب Orientalism کا مطالعہ ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان میں تمام تر نغمہ نگار مرد ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وہ گیتوں میں عورتوں کو اپنے نقطۂ نظر سے پیش کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ عورتوں کے بارے میں مردوں کے لکھے ہوئے متعصبانہ گیتوں کو عورتیں گاتی ہیں۔
مردوں کے قول و فعل کو معیار (Standard) قرار دیا جاتا ہے اور اس معیار سے ہٹ کر کسی بھی چیز کو Substandard کہا جاتا ہے۔ زورآور گروہ کی خواہش یہ ہوتی ہے معاشرے میں رہنے والے کمزور گروپ بھی اس کی پیروی کریں۔ ایک فلمی گیت کے بول کچھ یوں ہیں ''لڑکیاں کیوں لڑکوں جیسی نہیں ہوتیں؟‘‘ بظاہر یہ ایک معصوم سا سوال ہے‘ لیکن اس کے پس منظر میں وہی احساسِ برتری ہے جسے ایڈورڈ سعید زورآور گروہ کی Positional Superiority قرار دیتا ہے۔
اس ساری صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی مختلف سطحوں پر لائی جانی ضروری ہے جن میں خاندان‘ تعلیمی ادارے‘ عدالتی نظام اور میڈیا شامل ہیں۔ اس کی اشد ضرورت ہے کہ صنفی سٹیریوٹائپس کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ نغمہ نگاروں کو چاہیے کہ دقیانوسی گل و بلبل کے افسانوں کے بجائے نئے موضوعات اور نئی لفظیات کا استعمال کیا جائے‘ جن میں اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ گیتوں میں صنفی تفریق نہ ہو اور عورتوں کو محض ایک شو پیس کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔