تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     26-12-2020

وہ جو چاند تھا سرِ آسماں

جمعہ 25 دسمبر2020ئ۔ آج بھی ایک معمول کا دن طلوع ہوا۔ سردی کی صبح ہو‘ چھٹی ہو‘ ذہنی فراغت ہو توانسان مکمل آرام اور بھرپور ناشتے کی طلب‘ دونوں کا حق دار ہوجاتا ہے؛ چنانچہ ناشتے کے بعد دن کے دوسرے حصے میں جمعہ کی نماز اور بستر نشین ہونے کے ارادے باندھ ہی رہا تھا کہ ایک خبر نے سب درہم برہم کردیا۔ خبر مختصر لیکن جان لیوا تھی۔ شمس الرحمن فاروقی بھی ہم سے رخصت ہوگئے۔ وہ جو چاند تھا سرِ آسماں۔ لیکن انہیں چاند کہنا بھی درست نہ ہوگا۔ شمس تو ان کے نام کا حصہ تھا۔ وہ اس وقت آسمانِ ادب کا آفتاب تھے اور یہ آفتاب دن چڑھے11:20پر غروب ہوگیا۔ 
صدمے سے میں بہت دیر تک گم سم بیٹھا رہا۔یہ جان لیوا سال جاتے جاتے بھی کیسی عزیز جانیں ہم سے چھین کر لے جارہا ہے اور ہم بے بسی سے آنسو بہانے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ شمس الرحمٰن فاروقی بھی اسی منحوس وائرس کووڈ کا شکار ہوئے تھے۔پہلے ان کی دہلی کے ہسپتال میں داخلے کی خبر آئی ‘پھر ان کی صاحبزادی کی پوسٹس سے ان کی طبیعت کے لیے دعا کی اپیل ملی ۔ چند دن گزرے تھے کہ ان کی طبیعت میں بہتری اور بحالی کی خوش کن خبر ملی ۔ پھر یہ اطلاع بھی ملی کہ ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر آگئے ہیں تو مزید اطمینان ہوگیا ۔ یہ تو سان گمان بھی نہیں تھا کہ ان سب کے بعد یہ روح فرسا خبر ملے گی۔ غالباً آج صبح ہی وہ دہلی سے اپنے الہ آباد والے گھر میں واپس آئے تھے لیکن آخری سانس اسی گھر میں مقدر تھے اور سانسوں کی یہ مہلت 85 برس کی عمر میں25دسمبر کو دن گیارہ بج کر بیس منٹ پر ختم ہوگئی‘ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
فاروقی صاحب بڑے لوگوں کی تربیت اور صحبت اٹھائے ہوئے ایک بڑے آدمی تھے۔ ایک ایسے صاحبِ علم جو ایک عمر میں کئی عمریں گزار دیتے ہیں۔ انہوں نے علم و ادب کے لیے زندگی وقف کی تھی اور یہ کسی مجبوری کے تحت نہیں ‘اپنی خوشی اور اپنی آسودگی کے لیے تھی۔ ان کا اوڑھنا بچھونا لفظوں کی بساط تھی۔ ساری عمر طالب علم رہے ۔اس وقت بھی جب ان کے شاگردوں کے اپنے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی ۔پہلی بار شمس الرحمن فاروقی کا نام نامور باکمال نقاد محمد حسن عسکری کے خطوط میں پڑھا تھا‘ جن سے فاروقی صاحب کی مسلسل خط و کتابت رہتی تھی ۔ اور عسکری صاحب بھی ان خطوط میں بہت مزے سے اور بہت دلچسپی سے باتیں کرتے نظر آتے تھے۔ یہ خطوط محض رسمی روابط کے مکاتیب نہیں ‘بلکہ علم کے جویا دو اہل علم کے مسلسل تبادلہ خیال کی اہم دستاویز ہے ۔دل نے سوچا کہ یہ جو فاروقی صاحب ہیں یقینا کوئی اہم شخص ہیں جوعالمی ادب پر دسترس رکھنے والے عسکری صاحب کی توجہ اپنی طرف کھینچ کر رکھتے ہیں۔ پھر یہ خطوط ادب‘ فلسفہ‘ لسانیات‘ نظریات سمیت زندگی کے بے شمار پہلوؤں کو محیط تھے۔ میں یہ خطوط پڑھتا تھا‘انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور ان سے سیکھتا تھا۔ معلوم ہوا کہ فاروقی صاحب انگریزی ادب کے استاد ہیں اور ادبی دنیا میں تنقید‘ عروض‘ نثر‘ شاعری کی جملہ اصناف وغیرہ پر ان سے بڑے بڑے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ تحقیق کے مردِ میدان ہیں اور بلا جھجک بڑے بڑے ناموں کی رائے سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں۔ پھر عسکری صاحب رخصت ہوگئے۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ بہت سے دوستوں کے ہاتھوں میں چارجلدوں پر مشتمل کتاب 'شعرِ شور انگیز ‘نظر آنے لگی ۔کتاب دیکھتے ہی میر کا شعر یاد آنے لگاجو اس کتاب کی بھی بنیاد تھا ؎
جہاں سے دیکھیے اک شعرِ شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں 
مصنف کا نام تھا شمس الرحمن فاروقی اور میر تقی میر کے اشعار کی تفہیم اور انتخاب کیلئے یہ بے مثال کتاب خراج تحسین وصول کرتی آئی ہے ۔سچ یہی ہے کہ میر فہمی میں اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا۔اس کتاب کو 1996ء میںہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ سرسوتی سمان ملا۔ یہ بات بھی پہلی باراسی کتاب میں فاروقی صاحب سے ہی میرے علم میں آئی تھی کہ میر کے بارے میں جو یہ مشہور جملہ شیفتہ سے منسوب ہے کہ ''پستش بغایت پست و بلندش بسیار بلند‘‘ (ان کا پست بہت پست اور بلند بہت بلند ہے) درست نہیں ہے۔ اصل جملہ یوں ہے ''پستش اگرچہ اندک پست است اما بلندش بسیار بلنداست‘‘۔ (ان کا پست اگرچہ کم پست ہے لیکن بلند بہت بلند ہے)
جس عہد میں فاروقی صاحب نے کام کیا ہے وہ بڑے بڑے نقادان ادب کا دور تھا۔ان کے بیچ اپنا آپ منوانا بذات خود کارنامہ ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی کا تعلق حضرت عمرؓ ابن الخطاب کی ہندو پاک میں آباد ہونے والی نسل سے تھا اور ان کے آبا و اجداد صدیوں سے اور نسل در نسل علم و ادب کے شناور رہے ہیں ۔ ان کی ددھیال مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے خلیفہ شاہ وصی اللہ الہ آبادی کے مریدین میں تھی ۔اور یہ بات فاروقی صاحب نے خود ذکر کی ہے۔ ''گنج سوختہ‘ سبز اندر سبز‘ چار سمت کا دریا‘ آسماں محراب (شعری مجموعہ) اردو غزل کے اہم موڑ‘ لغات روزمرہ اور کئی چاند تھے سر آسماں ان کی چالیس سے زیادہ تصانیف میں چند نام ہیں۔ 
میں نے حافظے کی کتاب بند کی اور سرہانے رکھا ناول کھول لیا۔ ان کا معرکہ آرا ناول کئی چاند تھے سر آسماں ‘وہ تخلیقی کام ہے جس کے شاہکار ہونے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ۔میں اس ناول کو کئی بار پڑھ چکا لیکن یہ ہر بار اپنی تخلیقی طاقت اور لفظی ثروت مندی سے مجھے حیران کردیتا ہے۔ یہاں شمس الرحمن فاروقی اپنے کمال پر ہیں ۔ اس ناول میں کئی جگہوں پر تنقیدی گرفت بھی کی جاسکتی ہے لیکن ان کے باوجود اردو ادب میں ایسے ناول کی کوئی مثال اور نظیر موجود نہیں ہے۔ مغلیہ دور کے آخری ماہ و سال کے اطراف پھیلا ہوا یہ ناول اس دور کی ثقافت اور معاشرت کا کیا رنگ نمایاں نہیں کرتا۔ ہر طبقہ زیست یعنی‘ مزدور پیشہ طبقے سے لے کر قلعہ معلی تک کے مکینوں کے رہن سہن ‘ لباس اور اطوار۔ ناول کیا ہے ایک مرقع ہے۔ جو شکل نظر آئی ‘تصویر نظر آئی۔ ایک خاص بات یہ کہ داغ دہلوی کی والدہ ‘جن کا کردار اور پس منظر پر بہت سی انگلیاں اٹھتی تھیں‘اس ناول کا مرکزی کردار ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک حقیقی کردار ہے اور جس طرح کی زندگی ان کی گزری اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے داغ دہلوی پر کوئی چھینٹا نہ پڑنے دینا مصنف ہی کا کمال ہے ۔ اور یہ تو محض ایک زاویہ ہے۔ ایک کالم میں اس ناول کو بیان کرنا یا فاروقی صاحب کی شخصیت کی جہات رقم کرنا ایسا ہی ہے جیسے شیریں پھلوں کا باغ ایک رکابی میں سمونے کی کوشش کی جائے۔ میں ناول کھول کر بیٹھا ہوں لیکن آج کا عالم عجیب ہے ۔ خشک کاغذ پر لفظ بھیگے ہوئے ہیں ۔آج یہ ناول میرا دل نرم مٹھی میں بھینچتا ہے اور اس میں سے اداسی کی وہ لہر اٹھتی ہے جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔کشمیری قالین بافی کی وہ تعلیم جس کا فاروقی صاحب نے ذکر کیا ہے ‘ایسی لگ رہی ہے جیسے ایک بڑے منظر نامے پر اردو دنیا میں بچھا ہوا قالین ہو جس کی تعلیم دے کر فاروقی صاحب ابھی ابھی اٹھ کر رخصت ہوئے ہوں۔
'' اس کے سامنے قالین کا ایک بالکل نیا نقشہ جھمک گیا ۔ اچنبھے والے ایسے رنگ کہ تبت اور کاشان کے صناعوں نے بھی نہ تصور کیے ہوں۔ نیلا روشن جیسے بارش کے بعد یوس مرگ کا آسمان۔ اس کے چاروں طرف بادامی زرد او رکچی خوبانیوں کا ہرا‘پھر گہرا نیلا‘بہت گہرا رنگ...تو کیا یہ قالین میں نے بنایا ہے؟نہیں یہ تو میرے لیے بچھایا گیا ہے ۔ مگر کہاں ؟ یہاں تو برف گر رہی ہے ۔ہاں سامنے کوئی عمارت ہے جس کے صدر دروازے کی محراب بادلوں کو چھو رہی ہے اور یہ قالین میرے پاؤں کے پاس سے لے کر عمارت کے صدر تک پھیلا ہوا ہے۔ مجھے وہیں جانا ہے ۔ تو چلتا ہوں ‘‘۔ ہم سب آپ کو الوداع کہنے کیلئے جمع ہیں فاروقی صاحب۔ جائیے اللہ حافظ۔ سدا زندہ رہیے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved