ہمارے دروازے مذاکرات کیلئے کھلے ہیں: اعظم سواتی
وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا ہے کہ ''ہمارے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے ہیں‘‘ لیکن فی الحال تو ہم حکومت کرنا سیکھ رہے ہیں جبکہ ہمیں حکومت دیتے وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں کبھی مذاکرات بھی کرنا پڑیں گے، لہٰذا اس کے لیے ہمیں کم از کم چھ ماہ کی مہلت درکار ہو گی جس میں امید ہے کہ ہم مذاکرات کی الف ب تو سیکھ ہی جائیں گے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مذاکرات بھی مذاق بن کر رہ جائیں؛ تاہم ہم نے فوری طور پر اس مقصد کیلئے ٹیوٹر بھرتی کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے تا کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز بھی ہو سکیں۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
ارکانِ اسمبلی پر قوتوں کا دبائو ہے: بلاول بھٹوزرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ارکانِ اسمبلی پر قوتوں کا دبائو ہے‘ نام لینے پر مجبور نہ کیا جائے‘‘ اور اسی دبائو کی وجہ سے نہ صرف سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ استعفے وغیرہ بھی دینے سے معذور ہیں، اور ہم ایسا اپنی مرضی سے نہیں کر رہے، لہٰذا پی ڈی ایم کو چاہیے کہ سب کو ایسا کرنے سے باز رکھے ورنہ کل کو ہمیں نہ کہے کیونکہ ہم تو سندھ حکومت چھوڑنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ قدرت ہی کو منظور نہیں ہے۔ لہٰذا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم اپنی موت مر گئی: وزیراعظم عمران خان
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر گئی، مریم نواز نے تمام جماعتوں کی ساکھ ختم کر دی‘‘ ظاہر ہے کہ اس میں ہماری جماعت کی ساکھ بھی شامل تھی اور اس کا انہیں کوئی حق حاصل نہ تھا کیونکہ اصولی طور پر انہیں صرف اپنی جماعت کی ساکھ کو ختم کرنے کا حق تھا لیکن انہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور ہمارا بھی کام خراب کر دیا، اگرچہ ہماری جماعت کی ساکھ پہلے بھی کچھ ایسی قابلِ رشک نہیں تھی اور یہ بھی اچھا ہوا کہ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر گئی ورنہ ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے، اللہ ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے ترجمانوں سے خطاب کر رہے تھے۔
سردی میں دھرنا مشکل ہو تو 23 مارچ
کے بعد موسم ٹھیک ہو جائے گا: رانا ثناء
سابق صوبائی وزیر قانون اور نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''سردی میں دھرنا مشکل ہو تو 23 مارچ کے بعد موسم ٹھیک ہو جائے گا‘‘ لیکن اس کے فوراً بعد گرمیاں شروع ہو جائیں گی اور دھرنے کا معاملہ پھر بیچ میں رہ جائے گا جبکہ لانگ مارچ کے لیے بھی ایسی ہی صورتحال در پیش ہو گی اور ایسا لگتا ہے کہ موسموں نے ہمارے خلاف باقاعدہ سازش کر رکھی ہے جبکہ ہمارے دو معزز ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنے استعفے قیادت کو بھیجنے کے بجائے سیدھے سپیکر کو بھیج دیے جس میں موسم سے زیادہ ان کا اپنا قصور زیادہ لگتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ بھی موسم کی کسی خرابی ہی کی وجہ سے ہو۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
آہ شمس الرحمن فاروقی
امریکا سے برادرم احمد مشتاق نے فون پر بتایا ہے کہ بھارت میں ہمارے دوست اور اردو دنیا کے نامور ادیب، نقاد، افسانہ نگار اور شاعر شمس الرحمن فاروقی کا انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کافی عرصے سے علیل تھے جس میں سانس کی تکلیف زیادہ پریشان کن تھی۔ بعد میں انہیں کورونا وائرس نے بھی آن گھیرا ور انہیں الٰہ آباد سے دہلی لے جا کر ہسپتال داخل کرایا گیا کچھ دنوں کے بعد انہوں نے کہا کہ مجھے گھر لے چلو، جہاں وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ نہ صرف بہت سا کام اپنی یادگار کے طور پر چھوڑ گئے ہیں بلکہ اپنی بینائی کی خرابی کے باوجود بہت سا کام انہوں نے کر رکھا تھا جس میں ''کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ (ناول) اور شعرِ شور انگیز (تنقید) بطورِ خاص شامل ہیں۔ ابھی اور بہت سا کام وہ کر رہے تھے کہ موت نے مہلت نہ دی۔ان کی وفات اردو ادب کا اتنا بڑا نقصان ہے کہ جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کی ادارت میں سالہا سال تک شائع ہونے والا رسالہ ''شب خون‘‘ اپنی جگہ پر ایک تاریخی کارنامہ تھا جس نے جدید اردو ادب کی آبیاری اور ترویج میں ایک لازوال کارنامہ سر انجام دیا۔ میرے تیسرے مجموعۂ کلام ''رطب و یابس ‘‘ کا پہلا ایڈیشن اسی ادارے نے شائع کیا۔ چند برس پہلے لاہور آئے تو میرے غریب خانے پر بھی تشریف لائے تھے جو میرے لیے ایک اعزاز سے کسی طور کم نہیں ہے۔ اب بھی ان کا وعدہ تھا کہ پاکستان آئے تو میرے پاس ضرور آئیں گے لیکن ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مرنے والے مر جاتے ہیں
دنیا خالی کر جاتے ہیں
ان کی دونوں صاحبزادیوں اور بھائی کو اللہ تعالیٰ صبر کی نعمت عطا کرے ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
یہ بھی نہیں کہ اتنے زمانے نہیں ہوئے
کچھ خواب وہ بھی ہیں کہ پرانے نہیں ہوئے
دو ایک بار سیر و سیاحت ہی تھی فقط
اپنے جو اُس کے دل میں ٹھکانے نہیں ہوئے
پایانِ کار اُس کی گلی میں پناہ لی
ہم سے ہی کچھ زیادہ بہانے نہیں ہوئے
طرزیں بدل بدل کے بھی دیکھا بہت‘ مگر
نالے ہی رہ گئے جو ترانے نہیں ہوئے
بس ذکر ہی ہمارا رہا مختصر وہاں
جو کچھ کیا ہے اس کے فسانے نہیں ہوئے
دیوارِ دل کو توڑ کے دیکھا بہت مگر
کوئی بھی دستیاب خزانے نہیں ہوئے
ہم اتنی راہ و رسم کے ہوتے ہوئے وہاں
بیگانے ہی رہے ہیں، یگانے نہیں ہوئے
ہو اور کیا علاج بھلا آپ کا، ظفرؔ
یوں مار کھا کے بھی جو سیانے نہیں ہوئے
آج کا مطلع
کچھ اور ہی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا