تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     23-06-2013

پاکستان کون تعمیر کرے گا؟

اکثر فوج کو طعنہ دیا جاتاہے کہ ملکی تاریخ کی تقریباًنصف مدّت وہ اقتدار پر قابض رہی اور قوم کے قیمتی مہ و سال ضائع کر ڈالے۔ دوسری طرف سیاستدانوں کو جب جب موقعہ ملا‘ ان کی کارکردگی اتنی ناقص رہی کہ فوج کی آمد پر جشن کا سما ں ہوتا۔ ہر دفعہ سیاستدانوں کا ایک ٹولہ فوجی چھتری تلے ہنر دکھاتا۔افغانستان سے امریکی واپسی کے ہنگام اب ایک بار پھر کچھ تضادات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے ۔ غلط اندازِ فکر سے چھٹکارا پائے بغیر ملک آگے بڑھ نہیں سکتا۔ اصلاح کا یہ انداز مگر ہمیں ہی نصیب ہے کہ تصویر کا محض ایک رخ دیکھتے ہوئے ، لیڈر نعرہ زن ہیں۔ محمو دخان اچکزئی کہتے ہیں کہ افغانستا ن میں ہمیں بے جا مداخلت سے باز رہنا چاہیے ’’بھارت اور افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرنا ہوگا‘‘۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ڈالر لے کر پہلے جہادی بنائے گئے، اب ڈالرہی کے عوض قتل کیے جا رہے ہیں ۔ کیا روپے کی ہوس نے پاکستان کو اندھا کر ڈالا؟ کیا یہ مسئلے کو ضرورت سے زیادہ سادہ (over simplified) سمجھنے کے مترادف نہیں ؟ دسمبر 1979ء کو سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا ۔ تب روپے اور اسلحے کے بل پر کمیونسٹ انقلاب برآمد کیا جاتا تھا۔ گلی گلی ، کوچہ کوچہ،پاکستانی دانشور ان دنوں معقول معاوضے کے عوض اشتراکی گیت گاتے۔ برسبیلِ تذکرہ اشتراکیت قابلِ عمل نظام ہوتا تو سوویت یونین معاشی ترقی کرتا اور اقوامِ عالم اس کی پیروی کرتیں۔ افغانستان پر وہ کیوںحملہ آور ہوا، یہ ایک طویل بحث ہے لیکن کم از کم پاکستان نے اسے نہ اکسایا تھا۔ آدھا یورپ نگلنے والی عالمی طاقت پاکستان کے پڑوس میں آبیٹھی تھی ۔جنرل ضیاء الحق ناجائز طور پر اقتدار پر قابض تھے ۔ یقینا وہ سخت ترین تنقید کے مستحق ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جنرل نے یہ سب اسلام کے نام پر کیا۔ گویادنیا کے لیے دین بیچ دیا لیکن افغانستان پر سوویت غلبے کی ہم مزاحمت نہ کرتے تو دوسرا راستہ کیا تھا؟ صرف پاکستان ہی نہیں، سوویت توسیع پسندانہ عزائم سے خوف زدہ، دنیا بھر کی اقوام اس معرکے میں شریک تھیں۔ ہمارے ہمسائے میں یہ دو عالمی طاقتوں کی جنگ تھی اور لا تعلق رہنے کا اختیار ہمارے پاس نہ تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملے کا قصد کیا تو پاکستان کو پتھر کے عہد میں بھیجنے کی دھمکی دی گئی؟ امریکہ کو اس جنگ پر اکسانے میں بھی پاکستان کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔نہ ہی طالبان سے اسامہ بن لادن کوپناہ دینے اور ڈٹ جانے کی درخواست ہم نے کی تھی ۔ یہ بات درست کہ امریکی دھمکی کے بعد وقت حاصل کرنا چاہیے تھااور پارلیمنٹ میں بحث لیکن کون سی پارلیمنٹ؟ جنرل مشرف مطلق العنان تھے ۔ جنرل مشرف کا اقتدار یقینا ناجائز تھا اور اس پر ان کی شدید مذمت کی جانی چاہیے لیکن پیپلز پارٹی نے پانچ برس کون سا تیر مارلیا(اور افغان جنگ اگر جاری رہتی تو نون لیگ کون سا تیر مار لیتی؟) ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے بعد مشتعل عالمی طاقت کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھی ۔ افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ اس نے بجا کے رکھ دی ۔ یہ البتہ درست ہے کہ گھٹنوں کے بل گرنے کی بجائے ، کم از کم ہمیں جنگ میں اپنے تعاون کی حدود اور شرائط توواضح طور پر طے کرنا چاہئیں تھیں۔ محمود خان اچکزئی کی بہت سی باتیں درست ہیں لیکن بلوچستان میں خراب حالات کی وجہ کیا یہی ہے کہ خفیہ ایجنسیاں تفریحِ طبع کے لیے بلوچ نوجوانوں کے اغوا اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے میں مصروف ہیں ؟ افغانستان اور بھارت کی خود مختاری کے احترام کا تقاضا بجا، ذرا یہ تو فرمائیں کہ بھارتی سرمائے سے کابل اور قندھار کو ملاتی ہائی وے کیوں تعمیر کی جا رہی ہے ؟ کوئٹہ سے پشاور تک اگر ایک لکیر کھینچ دی جائے تو حیرت انگیز طور پر یہ سڑک اس کے عین متوازی ہے ۔ خود مختاری کا احترام؟ ذرایہ تو بتائیے کہ کراچی کے حالات کا ذمہ دار کون ہے ؟ فوج اور خفیہ ایجنسیاں ؟ تین سیاسی جماعتوں نے مسلّح گروہ پال رکھے ہیں۔ ایٹم بم بیچنے کا انکشاف؟ لیکن اس معاملے کو جس طرح ختم کیا جا سکتا تھا، کر دیا گیا۔ اس باب کو اب بند ہی رہنے دیجیے۔ نعرہ لگا کر آپ بھول جائیں گے لیکن دنیا یاد دلاتی رہے گی ۔یوں بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ میاں محمد نواز شریف پر سخت تنقید کرنے والے ؛حتیٰ کہ سیاست چھوڑکر کاروبار کا مشورہ دینے والے بھی اب اپنی عرضی ان کے حضور پیش فرما رہے ہیں۔ جس بات پر بحث ہونی چاہیے، لیڈروں میں اس کا ذکر تک نہیں ۔آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے ۔ ہمیں روپیہ قرض لینا ہوتا ہے ۔ عوام اور بالخصوص طاقتور طبقات کی اکثریت اپنی آمدن پر ٹیکس دینا نہیں چاہتی اور حکمران لینا نہیں چاہتے۔ سافٹ وئیر ہائوسز بیرونِ ملک سے کروڑوں کے پراجیکٹس لیتے ہیں لیکن ایک روپیہ ٹیکس نہیں دیتے اور نہ اس سلسلے میں کوئی ان سے رابطہ فرماتا ہے ۔ قائدِ اعظم ؒ آج اپنی ریاست دیکھ سکیں تو کیا چیز انہیں رُلا دے گی؟ زیارت میں اپنی آرام گاہ کی تباہی یا اس وطن کی، جس نے پہلے قائد کی عائلی زندگی کا خراج لیا اور پھر پھیپھڑے چاٹ گیا۔ عمارت دوبارہ تعمیر کر دی جائے گی لیکن مملکتِ خداداد کی دیواریں کون اٹھائے گا؟ 18کروڑ عوام میں صرف 0.5فیصد احمق ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ قائد کامکان گرنے پر سب غم زدہ ہیں لیکن ٹیکس دینے کو تیار نہیں ۔اپنی اپنی جیب پر سب نے پولیس بٹھا رکھی ہے۔ وطن سے محبت ہے لیکن روپے سے عشق۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved