سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی آج کل فنکشنل مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ پیر صاحب پگارا کے دستِ راست۔ ایک زمانے میں ملک محمد قاسم موجودہ پیر صاحب کے والد مرحوم پیر صاحب پگارا کے ساتھ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ہوا کرتے تھے۔ وہ کنونشن مسلم لیگ سے پیر صاحب کو منتقل ہوئے تھے لیکن جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد انہوں نے راستہ الگ کر لیا، اور اپنا الگ پرچم لہرا دیا۔ ایس ایم ظفر صاحب نے یہ منصب سنبھالا تو پیر صاحب اور وہ لازم و ملزوم سمجھے جانے لگے، اب جبکہ راوی اور سندھ کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا بلکہ راوی بے چارہ تو دریا سے جوہڑ میں تبدیل ہو چکا، پیر سید شاہ مردان کی جگہ ان کے سب سے بڑے بیٹے پیر صبغت اللہ راشدی، عرف راجہ سائیں پیر صاحب پگارا کی گدی سنبھال چکے، تو انہوں نے مسلم لیگ فنکشنل کو بھی وراثت میں وصول کر لیا۔ مسلم لیگ میں سے فنکشنل برآمد کرنے میں پیر صاحب کو بھی خاصی دشواری پیش آئی تھی کہ جنرل ضیاالحق کو ان کی طرف سے عطا کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے جب مسلم لیگ بنا کر اس کی قیادت بھی سنبھال لی تو پیر صاحب خاصے سٹپٹائے تھے۔ جنرل ضیاالحق نے غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد کرایا تھا۔ ان کے ذریعے اسمبلیوں میں پہنچنے والے ارکان آزاد تھے، اور کسی پارٹی ڈسپلن کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ جنرل ضیاالحق جماعتی سیاست کو اسلام کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری کمیشن رپورٹ نے بھی اس نقطہ نظر کی توثیق کر دی تھی کہ مسلمانوں کو خانوں اور سیاسی فرقوں میں بانٹنا پسندیدہ فعل نہیں، لیکن عامۃ المسلمین سیاسی جماعتوں کو ''فرقے‘‘ تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہو سکے، اور ان کی افادیت پر زور دیتے رہے۔ نتیجتاً جنرل ضاحب کو بھی لچک پیدا کرنا پڑی۔ ان کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے انہیں جماعت سازی کی افادیت کا قائل کر لیا تو طے پایا کہ ایک نئی جماعت بنائی جائے گی، تاکہ پرانی سیاست گری کا اعادہ نہ ہو۔ جونیجو صاحب نے وعدہ کر لیا کہ پرانی جماعت کا احیا نہیں ہو گا، نئے چہروں کے ساتھ نئی جماعت تشکیل پائے گی؛ البتہ اس کا نام مسلم لیگ ہو گا۔ اقبال احمد خان مرحوم مسلم لیگ کے سدا بہار سیکرٹری جنرل تھے، اور کئی ٹکڑوں سے گزر کر اپنا یہ تخلص برقرار رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے قانونی دائو پیج آزماتے ہوئے مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت کھڑی کرنے میں معاونت کی۔ قومی اسمبلی کے منتخب ارکان کی بھاری تعداد نے نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خود کو اس کی کونسل (فیصلہ ساز ادارہ) قرار دے کر محمد خان جونیجو کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔ جنرل ضیاالحق نے مرحوم پیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ جو کچھ میرے پاس تھا وہ مَیں نے جونیجو صاحب کو دے دیا ہے، جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ بھی ان کو بخش دیں۔ یوں اقتدار کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ کی صدارت بھی جونیجو صاحب کی جھولی میں ڈال دی گئی۔ اس وقت تو پیر صاحب خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے، لیکن کچھ ہی عرصہ بعد مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے انہوں نے الگ برانچ کا اجرا کر دیا۔ پیر صاحب پگارا نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں حزبِ اختلاف کو رونق بخشی تھی، اور ان کے توانا مخالف ثابت ہوئے تھے۔ اپنی پُرزور شخصیت کے بل پر وہ جنرل ضیاالحق کے دور سے ثابت و سالم برآمد ہوئے، اور بعدازاں بھی اپنی جماعت کا جھنڈا اونچا رکھنے میں ناکام نہ رہے۔ مسلم لیگ فنکشنل سندھ میں پیر صاحب کے اثر و رسوخ سے آکسیجن حاصل کرتی رہی۔ اب یہ جماعت ان کے جانشین کو نصیب ہوئی ہے، تو اس نے اپنے آپ کو جی ڈی اے (گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس) کے جبّے میں لپیٹ لیا ہے۔ ابتدا میں خیال تھاکہ یہ الائنس پیپلز پارٹی کو سندھ میں بہت مشکل میں ڈالے گا، اور یہاں اسے حاصل ''ویٹو‘‘ ختم ہو کر رہ جائے گا، لیکن جوں جوں انتخابی مہم آگے بڑھی، جی ڈی اے پیچھے ہٹتا محسوس ہوا، اور چند نشستوں تک سمٹ گیا۔ اس کا سیاسی وزن البتہ اب بھی موجود ہے۔ یہ مرکز میں وزیراعظم عمران خان کا اتحادی اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت کی مخالف صفوں میں نمایاں ہے۔ پیر صبغت اللہ اپنے مرحوم والد کا سا قد کاٹھ تو نہیں رکھتے، نہ ان کا سیاسی تجربہ و مطالعہ اتنا وسیع ہے‘ نہ ہی ان کی ستارہ شناسی اور فقرہ تراشی کی دھوم ہے، اس کے باوجود ان کی شخصیت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ جس گدی پر وہ براجمان ہیں، اس کی ساکھ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔ ان کا احترام کیا جاتا ہے، اور ان کے مخالفین بھی انہیں نظر انداز کرنے کی جسارت (یا حماقت) نہیں کر سکتے۔ محمد علی درانی ایک اپنا پس منظر رکھتے، اور اپنی ذہانت و فراست کے بل پر راستہ بنانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ قاضی حسین احمد سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک سب سے استفادہ کر چکے، اور بات کرنے اور بنانے کے ڈھنگ سے آشنا ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وہ بھی ایک دوسرے سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ جب اچانک مسلم لیگ(ن) کے قیدی سربراہ شہباز شریف سے ملنے جیل جا پہنچے، تو پورے پاکستان کی نگاہیں ان پر جم گئیں۔ انہوں نے نہ صرف طویل ملاقات کی، بلکہ باہر آکر دھڑلّے سے اعلان کیا کہ پاکستان کو ''نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کی ضرورت ہے، اس کے رہنمائوں اور اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرکے حالات کو سنبھالنا چاہیے۔ درانی صاحب کا کہنا تھاکہ انہیں پیر صاحب نے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ ''ٹریک ٹو ڈپلومیسی‘‘ کی طرح ٹریک ٹو ڈائیلاگ کا اہتمام کریں، گویا پاکستانی سیاست کے جملہ فریقین پر مکالمے کی افادیت واضح کریں۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور اس کے مخالف متحدہ محاذ پی ڈی ایم کے درمیان کھینچا تانی سے ہر شخص واقف ہے۔ پی ڈی ایم کے رہنما اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر رہے ہیں‘ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں، ان کے ساتھ کسی بھی طرح کے رابطے اور مکالمے سے انکار کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور ان کی حکومت بھی اپوزیشن کی سرکوبی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ سیاست پارلیمنٹ سے باہر نکلنے کے لئے پرتول رہی ہے اور سڑکوں کو محور بنانے کے لیے پُرجوش ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کی اہمیت کو واضح کرنا، اور فریقین کو ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ کرنا آسان نہیں ہے۔ پیر صاحب پگارا نے بذریعہ درانی صاحب یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ پیر صاحب کے صلاح کاروں کا دائرہ وسیع بھی ہو سکتا ہے اور غیبی تائید کے اشارے بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں، لیکن اس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے جو کچھ اجالے میں ہو رہا ہے، اس کی طرف توجہ دی جائے، تو اسے نیک فال سمجھا جائے گا۔ اپوزیشن کی شکایات میں بھی وزن ہے، اور حکومتی مشکلات بھی ظاہر ہیں، ایسے میں مکالمے اور مصافحے کی اہمیت اُجاگر کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ پیر صاحب اور ان کے سیکرٹری جنرل نے جو ذمہ داری اٹھائی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اسے سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے۔ قیدی قائد حزبِ اختلاف سے کھسر پھسر کو کافی نہ سمجھا جائے، در زنداں کھولا جائے، آزاد شہریوں کو آزادانہ بات کرنے کا موقع ملے، نئے انتخابات اگر ضروری ہوں تو ان سے بھی گریز نہ کیا جائے، جو کچھ ہو، افہام و تفہیم سے بات چیت سے ایک دوسرے کو قائل کر کے ہو۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہش سب کو نیچا دکھا سکتی ہے... پیر صاحب پگارا حکومتی اتحاد کا اہم حصہ ہیں، جو توجہ انہوں نے بذریعہ درانی صاحب حاصل کر لی ہے، وہ آگے بڑھنے کا تقاضا کر رہی ہے۔ سننے والے کانوں کو اگلے قدم کا انتظار ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)