تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     27-12-2020

گیس پر مباحثہ اور گندم کی آئندہ فصل

سرکاری لائوڈ سپیکروں سے گزشتہ کئی دن سے مسلسل ایک اعلان سنائی دے رہا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے ایک ٹی وی مباحثے میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو انہی کے میدان خاص میں دھول چٹا دی ہے۔ اس فتح پر (گو کہ اس پر بھی کچھ لوگوں کا خیال مختلف ہے) تحریک انصاف کے حامیوں میں ایک جشن طرب چل رہا ہے اور وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے؛ تاہم اس زبانی کلامی فتح پر ایک سوال مارکیٹ میں گھومتا پھر رہا ہے کہ جنہوں نے چھ سینٹ کے حساب سے گیس کا سودا کیا تھا وہ تو بے ایمان تھے اور اب جو بیس سینٹ پر سودا کر رہے ہیں کیا وہ ایمان دار ہیں؟ حقیقت دراصل صرف اتنی ہے کہ تب کسی نے چھ سینٹ پر ایل این جی کا سودا کر کے کوئی احسان نہیں کیا تھا کہ تب مارکیٹ میں یہی ریٹ چل رہا تھا اور اب بیس سینٹ میں سودا کرنے والوں کی ایمان داری پر بھی کوئی بات نہیں کہی جا سکتی کہ اس وقت مارکیٹ میں یہی ریٹ چل رہا ہے لیکن اس نالائقی پر تو بہرحال بات کرنا ضرور بنتی ہے کہ اگر حالیہ خریداری بر وقت کر لی جاتی تو نہ صرف ریٹ بہت اچھا مل سکتا تھا بلکہ گیس کا جو موجودہ بحران ہے وہ بھی کچھ کم ہو سکتا تھا‘ لیکن اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ جو ہونا تھا ہو چکا ہے اور ندیم بابر نے ٹی وی پر شاہد خاقان عباسی سے ہونے والا ملاکھڑا جیت لیا ہے؛ تاہم ملتان کی خواتین کو شاید یہ علم نہیں ہو سکا کہ ندیم بابر نے گیس کے معاملے میں شاہد خاقان عباسی کو کیسی پٹخنیاں دی ہیں۔ ان لا علم خواتین سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی‘ جو وزیر کے مساوی اختیارات اور سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے تھے‘ کی فتح کی خوشی برداشت نہیں ہوئی اور وہ اس رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے گزشتہ روز توے، پراتیں اور باورچی خانے میں کھانے پکانے کے لیے استعمال ہونے والے برتن ہاتھوں میں اٹھا کر سڑک پر آ گئیں اور گیس کی عدم دستیابی پر سڑک بلاک کر کے احتجاج کیا۔ اب ان خواتین کو کون بتائے کہ صرف دو دن پہلے ہی حکومتی معاون خصوصی نے ایک زور دار مباحثے میں گیس کے معاملے میں سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو گیس کے معاملے میں خوار و خستہ کیا ہے اور بقول تحریک انصاف والوں کے ایسے دندان شکن جواب دیئے اور اپنی وزارت کی ایسی شاندار کارکردگی بیان کی کہ ان کے چھکے چھوٹ گئے اور یہ خواتین‘ جو یقینا اس مباحثے سے مکمل لا علم تھیں‘ گیس کی بندش اور عدم دستیابی پر حکومت کے خلاف نعرے بازی کرنے پر آ گئیں۔ اگر انہیں پتا ہوتا کہ معاون خصوصی نے سابق وزیر اعظم کو کیسی لوٹنیاں دیں ہیں تو وہ یقینا اپنے احتجاج پر شرمندہ ہوتیں اور سڑکوں پر توے، پراتیں اٹھا کر آنے کے بجائے اپنے اپنے باورچی خانے میں لکڑیاں جلا کر سالن بناتیں اور روٹیاں پکاتیں۔ چودھری بھکن کا خیال ہے کہ دراصل چولہوں میں نہ آنے والی گیس کو بھی اس مباحثے کا علم نہیں تھا وگرنہ وہ اس زبانی کلامی فتح کی خوشی میں ساری پابندیاں اور رکاوٹیں توڑ کر نہ صرف چولہوں میں آ جاتی بلکہ ہیٹروں اور گیزروں میں بھی اپنے جلوے دکھاتی۔
چونکہ تحریک انصاف زبانی کلامی گفتگو، ٹی وی مباحثوں، تقریروں اور جلسے جلوسوں کے طفیل حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اس لئے اس کے حساب سے عملی کارکردگی وغیرہ بالکل معمولی، جزوی اور نہایت ہی بے معنی و لا یعنی چیزیں ہیں جبکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ آپ اپنے مخالف فریق کو گفتگو میں ہرا دیں۔ تقریر میں اپنے جوہر دکھائیں۔ جلسوں‘ جلوس میں رنگ بھر دیں۔ دھرنے کا عالمی ریکارڈ بنا لیں اور پھر آرام و سکون سے بیٹھ جائیں۔ ان کو پہلے بھی یہی کچھ کرنا آتا تھا اور اب بھی وہ اسی کے سہارے اپنی حکومت چلانا چاہتے ہیں۔ سو وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو انہیں آتا ہے۔
اب میری اس بات پر ایسے ایسے قارئین بھی معاشی قواعد اور اقتصادی اصولوں پر دسترس کا دعویٰ کرتے ہوئے مجھ پر چڑھ دوڑیں گے جو روٹی کھاتے ہوئے اس بات پر تنگ رہتے ہیں کہ ان سے سالن اور روٹی کا باہمی توازن تک قائم نہیں رہتا اور کبھی ان کا سالن بچ جاتا ہے اور کبھی روٹی بچ جاتی ہے‘ لیکن عالم یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی نا قدری کا تذکرہ کریں تو وہ اپنے تبحّر علمی کی توپ سے دوسروں کو اڑا کر رکھ دیتے ہیں؛ تاہم اس میں بھی وہ کسی دلیل کے بجائے خواتین کی طرز پر محض طعنے بازی کے علاوہ اور کچھ کرنے سے قاصر اور اقتصادی عوامل سے مکمل طور پر لا علم اور بے بہرہ ہوتے ہیں۔
جب یہ عاجز بیروزگاری، مہنگائی، افراط زر، کساد بازاری یا ڈالر کی قدر میں اضافے میں بات کرتا ہے تو اقتصادی عوامل اور معاشی قواعد کے بجائے ان بنیادی معلومات کی بنا پر کرتا ہے جو بحیثیت ایک عام آدمی کے وہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ بیروزگاری کے بارے میں جاننے کے لیے ماہر معاشیات ہونا ضروری نہیں۔ اردگرد بکھری ہوئی بیروزگاری کو بھلا کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ مہنگائی جاننے کے لیے ایک ہزار روپے کلو والا ادرک ہی کافی ہے اور اس کے بارے میں علم ہونے کے لیے آپ کا سبزی خود خریدنے کا عمل ہی کافی سے زیادہ ہے۔ اس کے لیے ایم اے اکنامکس کرنا ضروری نہیں ہے۔ روپے کی روز افزوں گھٹتی ہوئی قدر سے افراط زر کا اندازہ لگانا بھلا کون سا مشکل کام ہے؟ اس کے لیے سٹیٹ بینک سے پوچھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور ڈالر کی قدر میں اضافے کے اثرات جاننے کے لیے درآمدات اور برآمدات کا موازنہ کرنا اور Foreign remittances کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری نہیں۔ ہر درآمد کردہ شے کی قیمت خرید میں ہوشربا اضافہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ روپیہ ٹکے ٹوکری ہو چکا ہے۔
عالم یہ ہے کہ چینی تریپن روپے کلو سے ایک سو دس روپے ہو جائے تو ملبہ مافیا پر ڈال کر جان چھڑوا لی جاتی ہے حالانکہ حکومت کا کام ہی مافیاز کو لگام ڈالنا ہے نہ کہ ان کا نام لے کر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑوانا‘{ لیکن ہماری موجودہ حکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ چینی کی قیمت دوگنا ہو جائے تو وہ اس لوٹ مار اور ڈکیتی کا سارا ملبہ مافیا پر ڈال دیتی ہے اور خود بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف نیا سیزن شروع ہونے اور گنے کی کرشنگ شروع ہونے کے باعث چینی کی قیمت کم ہونے کا سہرا اپنے سر باندھ لیتی ہے حالانکہ گنے کی نئی فصل آنے اور اس کی کرشنگ شروع ہونے کے بعد بازار میں چینی کی آمد سے ہمیشہ سے یہ مارکیٹ کا قاعدہ رہا ہے کہ قیمت نیچے آتی ہے۔ اس سپلائی اور ڈیمانڈ کے عالمی اور آفاقی قانون کے تحت نیچے آنے والی قیمت کا سارا کریڈٹ حکومت لے رہی ہے۔ ویسے بھی حیرانی تو اس بات پر ہے کہ چینی کا ریٹ تریپن روپے سے ایک سو دس روپے ہوا تو ذمہ دار مافیا تھا‘ اور چینی کا ریٹ ایک سو دس روپے سے اسّی روپے ہوا تو حکومت اپنی اعلیٰ کارکردگی پر بغلیں بجا رہی ہے۔ جب قیمت پچپن روپے بڑھی تو حکومت خاموش رہی اور جب چینی کی قیمت اس اضافہ شدہ پچپن روپے میں سے بیس روپے کم ہوئی تو اس کا سارا کریڈٹ حکومت لے رہی ہے۔ 
آٹے کا ریٹ چالیس روپے کلو سے ستر روپے پر چلا گیا تو ذمہ دار مافیا تھا لیکن جیسے ہی گندم کی نئی فصل آئے گی اور مارکیٹ میں آنے والی اس گندم کے کم ریٹ کی وجہ سے آٹے کا ریٹ کم ہو جائے گا تو یہ زبانی کلامی کارکردگی کی بنیاد پر چلنے والی حکومت اس کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں ڈال لے گی اور ایسے شادیانے بجائے گی کہ لگے گا کہ روئے ارض پر گندم کی حالیہ فصل حکومت کی برکت سے نازل ہوئی ہے اس سے پہلے دنیا میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved