تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-12-2020

سرخیاں، متن، مطالعہ (مضامین) اور ابرا ر احمد کی نظم

نواز شریف نے اپنے دور میں کوئی وفد
اسرائیل نہیں بھیجا: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نواز شریف نے اپنے دور میں کوئی وفد اسرائیل نہیں بھیجا‘‘ اور اگر مولانا اجمل قادری کو بھیجا بھی تھا تو وہ وفد کی صورت میں نہیں بلکہ اکیلے گئے ہوں گے، وفد والی بات بالکل غلط ہے، البتہ اگر مولانا صاحب اپنی مرضی سے دو چار مزید صاحبان کو ساتھ لے گئے ہوں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا اور اس قسم کی افواہیں اڑانا مخالفین کا شیوہ ہے اگرچہ اس طرح کی افواہوں کا ہماری صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا جبکہ جو کچھ انہوں نے قومی اداروں کے حوالے سے کہا ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل میں وفد بھیجنا تو بالکل ہی معمولی بات ہو کر رہ جائے گی۔ آپ اگلے روز ایک بیان میں ایسی خبروں کی تردید کر رہی تھیں۔
میں ہتھیار پھینکنے والوں میں سے نہیں ہوں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''میں ہتھیار پھینکنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘ بلکہ ہتھیار پھینکنے کی نسبت ہاتھ کھڑے کرنا بہتر ہوتا ہے کیونکہ یہی ہتھیار کسی اگلی لڑائی میں کام آ سکتا ہے اور جن حضرات کو پارٹی سے نکالا ہے، اگر میں نہ نکالتا تو وہ مجھے پارٹی سے نکال دیتے اور ملک میں ایک زبردست قسم کا بحران پیدا ہو جاتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
سیاستدانوں کی اکثریت کو دو کا پہاڑا نہیں آتا: اعجاز شاہ
وفاقی وزیر برائے نارکوٹکس اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ ''سیاستدانوں کی اکثریت کو دو کا پہاڑا نہیں آتا‘‘ جن میں ہماری پارٹی کے کچھ لوگ بھی شامل ہیں، تاہم اب خدا خدا کر کے صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے اور ارکان کو اب دو کا پہاڑا بھی ازبر ہو گیا ہے جسے وہ فرفر سنا بھی دیتے ہیں اور چھ ماہ تک 20 تک سارے پہاڑے سیکھ جائیں گے کیونکہ وہ اس سلسلے میں میں خاصی محنت کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ننکانہ صاحب میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کو این آر او پر کوئی بھی قائل نہیں کر سکتا: فواد
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو این آر او پر کوئی بھی قائل نہیں کر سکتا‘‘ حالانکہ یہ فیصلہ وہ قائل ہوئے بغیر بھی کر سکتے تھے کیونکہ ان کے اکثر فیصلے ایسے ہی کیے گئے ہیں اور جس کی وجہ ان کی خود اعتمادی ہے یعنی وہ اپنے علاوہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو اس سے بھی زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں ۔ آپ اگلے روز فنکشنل لیگ کے رہنما محمد علی درانی کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
درانی ‘شہباز ملاقات ‘سیاست سے تعلق نہیں: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کا سیاست سے تعلق نہیں‘‘ کیونکہ اپنے بیانیے کے بعد نواز لیگ کی سیاست تو ویسے بھی نہایت مشکوک ہو چکی ہے اس لیے اس ملاقات کا سیاست سے واقعی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ البتہ میاں شہباز شریف کی صحت کچھ ٹھیک نہیں اس لیے وہ ان کی عیادت کے لیے گئے ہوں گے، کیونکہ درانی صاحب ڈائیلاگ کے جس مشن پر ہیں شہباز شریف کی مجال نہیں ہے کہ نواز شریف کے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹ سکیں جب تک کہ نواز شریف خود اس سے پیچھے نہیں ہٹ جاتے جس میں اب چند دنوں ہی کی دیر ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
مطالعہ (مضامین)
یہ شاعرہ حمید شاہین کی تصنیف ہے جسے پیس پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ دیباچہ حمید شاہد کا تحریر کردہ ہے جبکہ انتساب اس طرح سے ہے : تو ہے میرے دل سے لپٹی پھولوں والی بیل، خوشبو جیسی بیٹی سماویہ کے نام۔پس سرورق پر درج ڈاکٹر معین نظامی کی رائے کے مطابق حمیدہ شاہین کی تنقیدی، تجزیاتی اور تاثراتی آرا بہت متوازن ہیں جن کی تشکیل میں مخلصانہ غور و فکر کی کار فرمائی نمایاں ہے اور ان کے اظہار میں کسی عجلت یا بے سلیقگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ بعض مضامین میں عمدہ علمی فکری مباحث ان کی قدر و قیمت بڑھاتی ہیں۔ ادبی جائزہ و تبصرہ پر مشتمل یہ تحریریں گراں قدر افادیت کی حامل ہیں۔ کتاب میں 33 مضامین ہیں جن میں عصر ی شعراء و ادبا کے فن پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے جو کثیف تنقید کی بجائے خوشگوار تحریریں ہیں۔ اس کا کھلے بازوئوں سے استقبال کیا جائے گا۔ 
اور ، اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
تری دنیا کے نقشے میں
تری دنیا میں جنگل ہیں
ہرے باغات ہیں
اور دور تک پھیلے بیاباں ہیں
کہیں پر بستیاں ہیں
روشنی کے منطقے ہیں
پہاڑوں پر اُترتے بادلوں میں
رقص کرتا ہے سمندر چار سُو
اس انبوہ کا حصہ نہیں ہوں میں
کہاں ہوں میں؟
میں تیرے لمس سے اک آگ بن کر پھیلنا
تسخیر کی صورت بپھرنا چاہتا تھا
اور اُترا ہوں
کسی بے مہرسناٹے کے میداں میں
ہزیمت کی دہکتی ریت پر
بکھرا پڑا ہوں، شام کی صورت
میں جینا چاہتا تھا تری دنیا میں
ترے ہونٹوں پہ کھِلتے نام کی صورت
کسی دشنام کی صورت
کہیں آرام کی صورت
میں آنسو تھا
ترے چہرے پہ آ کر پھول دھرتا تھا
ترے دُکھ پر گرا کرتا تھا قدموں میں
اے چشمِ تر!
کہاں ہوں میں؟
اندھیرے سے بھری آنکھوں میں
چلتی ہے ہوا ہر سُو
اور اڑتے جا رہے ہیں راستے اس میں
زمانوں کے کناروں سے
ابد کے سرد خانوں تک
ہوا چلتی ہے ہر سو
اور اس کی ہمرہی میں
دو قدم چلتا نہیں ہوں میں
ہجوم ِروز و شب میں
کسی جگہ سہما ہوا ہوں میں
تری دنیا کے نقشے میں
کہاں ہوں میں
آج کا مقطع
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ، ظفر
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved