تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     24-06-2013

اک نعرۂ مستانہ

سودی بینکاری کے عفریت پر پلنے والے کارپوریٹ کلچر اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے رنگا رنگ معاون اداروں کا جمہوریت کے ساتھ ایک عظیم اور ناقابل یقین حد تک کاروباری گٹھ جوڑ ہے۔ یہ معاشی مفادات اور سودی نظام کی عمارت کو مستحکم کرنے کا منظم راستہ ہے۔ اس کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب سترھویں صدی میں حکمرانوں نے بینکاروں کے مکرو فریب میں آ کر حکومت کے لیے قرض لینا شروع کیا تھا۔ سودی بینکوں کے قیام سے قبل حکومتی قرض کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جیسی عوام کی معاشی حالت ہوتی‘ پیداواری صلاحیت ہوتی یا بیرونِ ملک تجارت‘ ویسا ہی وہ ملک خوشحال نظر آتا۔ قرض لے کر ملک سنوارنے کا جھانسہ اسی طرح ہے جیسے ایک سود خور کسی شخص کی مجبوری یا غرض سے فائدہ اٹھا کر بظاہر اس کا ہمدرد بنتے ہوئے اسے قرض دیتا ہے اور پھر اسے سود کے چکر میں ایسا پھنساتا ہے کہ وہ زندگی بھر نہیں نکل سکتا۔ آج یہی حال دنیا بھر کے ممالک کا ہے‘ امیر سے امیر اور غریب سے غریب ملک ان عالمی سود خوروں کے گھن چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکہ جیسا ملک 15 ہزار ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ آپ بینک میں ایک عام قرضے کے اصول و ضوابط ملاحظہ کریں۔ ایک شخص بینک سے دس لاکھ روپے قرض اپنی ضروریات‘ کاروبار یا کسی اور مقصد کے لیے حاصل کرتا ہے۔ اس میں اس کی مرضی اور منشاء شامل ہوتی ہے اور اسے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کاروبار سے‘ تنخواہ کی بچت سے یا دوہری مزدوری کر کے یہ قرض اتارے گا۔ بینک کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس نے یہ رقم اللّے تللّے یا عیاشی میں خرچ کی یا اس کا کاروبار ڈوب گیا‘ وہ اس سے سود کی قسط وصول کرتا رہتا ہے اور اگر نہ کر سکے تو اس کی فیکٹری‘ گھر یا کار وغیرہ نیلام کر کے اپنی رقم وصول کر لیتا ہے۔ لیکن قوموں کا قرضہ بہت عجیب ہے‘ یہ دنیا کا وہ لاینحل سوال ہے جسے سود خوروں نے ایک گھن چکر بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس گھن چکر کے پس پردہ ایک پورا مضمون ’’معاشیات‘‘ اپنی تمام تر مشکل اصطلاحات کے ساتھ عام آدمی کو بے وقوف بناتا ہے۔ کاغذ کے نوٹ‘ افراطِ زر‘ شرح نمو‘ بین الاقوامی ادائیگی‘ کاروباری خسارہ‘ رسد اور ترسیل‘ ان میں سے چند ایک ہیں۔ ایک بجٹ ترتیب دیا جاتا ہے اور اس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کس طرح لوگوں کو اپنے وسائل سے بالاتر ہو کر قرض پر زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ کسی حکمران کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ نئے جہاز خریدنے ہیں‘ کوئی شاندار یادگاریں بنانا چاہتا ہے‘ کسی کو بڑی شاہراہیں بنانے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی ہوائی اڈوں کو عالمی معیار پر لے جانا چاہتا ہے۔ کسی کو بلٹ پروف گاڑیوں کی لمبی قطار پسند ہوتی ہے تو کوئی شہروں میں عالمی معیار کی سہولیات کا گرویدہ۔ حکمرانوں کے شوق کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ لوگ جب یہ شوق پال رہے ہوتے ہیں تو کوئی نوے فیصد سے زیادہ عوام سے نہیں پوچھتا کہ تمہاری ضروریات کیا ہیں۔ وہ شخص جس کو بیمار ماں باپ یا بھائی کے لیے دوائی کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو گندے جوہڑ سے پانی پیتا ہے اور ہیپاٹائٹس تو دور کی بات ہے اسہال کے مرض سے مر جاتا ہے، جس کے بچے سکول جانے کی بجائے ورکشاپوں میں جاتے ہیں یا بکریاں چراتے ہیں، جو اپنے چولہے میں آج بھی جانوروں کے فضلے سے تیار کردہ اپلے استعمال کرتا ہے اور یہ اپلے اس کے گھر کی خواتین سخت محنت سے تیار کرتی ہیں۔ آپ عالمی معیار کی لاہور سے اسلام آباد والی موٹر وے سے گزریں تو آپ کو دونوں جانب ایسے گھر نظر آئیں گے جن پر اپلے خشک ہونے کے لیے لگائے گئے ہوں گے۔ ان عام لوگوں میں وہ شخص بھی شامل ہے جو لوگوں کی امداد اور رفاہی اداروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارتا ہے، نیک دل لوگوں کی زکوٰۃ اور صدقات سے جس کے گھر کا خرچہ چلتا ہے۔ ان بے چارے، غربت کے مارے لوگوں سے کوئی سوال تک نہیں کرتا کہ تمہاری خواہشات اور خواب کیا ہیں۔ تمہیں کیا چاہیے جس سے تمہاری زندگی بدل سکے۔ تخت شاہی پر بیٹھا ایک شخص پوری قوم کو یرغمال بنا کر اس کے نام پر بغیر انہیں پوچھے اپنی خواہشات کے مطابق سود پر قرض حاصل کرتا ہے اور پھر اس قوم کے بچے بچے کو اس کی مرضی کے خلاف سود کی لعنت کا شکار کرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں قومی قرضہ اور قومی سود‘ اللہ اور اس کا رسولؐ جس پر لعنت کرتے ہیں اور جس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہیں۔ جمہوریت سے اس کا کیا گٹھ جوڑ ہے؟ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے 1927ء میں قومی قرضوں کے بارے میں ایک عالمی اصول وضع کیا تھا جو عالمی قوانین کی کتابوں میں ایک مسلمہ حیثیت رکھتا ہے: ’’قومی قرضہ جو کسی حکمران نے کسی قوم کے بہترین مفاد کے لیے خرچ نہ کیا ہو، وہ قابل نفاذ نہیں اور اسے اس حکمران اور اس کے حواریوں کا ذاتی قرضہ تصور کیا جائے گا۔ اسے عالمی قانون میں \"Odious Debts\" کہا جاتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد خود امریکہ نے رکھی جب اس نے کیوبا پر قبضہ کیا اور سپین کو وہاں سے نکالا تو سپین کی حکومت نے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے امریکہ نے یہ کہہ کر ادا کرنے سے انکار کیا کہ یہ کیوبا کے عوام پر زبردستی تھوپا گیا تھا۔ اسی اصول کو 1923ء میں کوسٹاریکا میں عمل میں لایا گیا‘ جب برطانیہ نے قرضہ واپس مانگا تو اسی عالمی اصول پرانکار کیا گیا کہ برطانیہ کو علم تھا کہ یہ قرضہ عوام کی فلاح کے لیے خرچ نہیں ہوگا۔ اس بنیاد پر عالمی قوانین کا اصول \"Analogous to the invalidity of contracts signed under coercion\" وضع ہوا جو دنیا بھر میں مانا جاتا ہے‘ جس کے تحت ایک ایسا معاہدہ جو زبردستی اور مرضی کے خلاف ہوتا ہے وہ قابل عمل نہیں۔ اسی اصول کے تحت میکسیکو نے بادشاہ میکسی میلسن کے زمانے کے قرضے ادا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سود خوروں، بینکاروں اور جمہوریت کا گٹھ جوڑ میدان میں آتا ہے۔ ایک پارلیمنٹ بنوائی جاتی ہے جس کو پارٹی فنڈ میں سرمایہ دے کر جتوایا جاتا ہے اور وہ پارلیمنٹ ان سود خور بینکاروں سے قرضہ لیتی ہے اور عوام کو مقروض کرتی ہے جو اپنے گھروں میں بیٹھے اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہاں وہ تمام عالمی قوانین بے بس ہیں۔اس تاثر کو فروغ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت میں لوگوں کے منتخب نمائندوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ عوام کی رائے پارلیمنٹ میں بولتی ہے۔ یوں عوام گھر بیٹھے مقروض بھی ہوجاتے ہیں اور ان پر یہ لعنت بھی مسلط ہوتی ہے کہ یہ قرضہ انہوں نے اپنی مرضی سے بہ رضا و رغبت لیا ہے۔ اس سارے نظام کو گرانے اور اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کرنے والوں کے فیصلوں کا انکار صرف ایک صورت میں ہوسکتا ہے ۔ پوری قوم اس جنگ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کھڑی ہو اور اعلان کرے کہ سب قرضے حکمرانوں نے اپنی مرضی سے لیے، ہم اس میں شامل نہیں۔ جن کو وصولی کرنی ہے ان کی جائیدادیں، کاروبار، باغات، محلات بیچ کر وصول کرے۔ چاہے وہ اس ملک میں موجود ہوں یا ملک سے باہر۔ ہم یہ قرضہ نہیں دیتے۔ عالمی اصول کے مطابق یہ ان سب کا ذاتی قرضہ ہے۔ ان کی ذات سے وصول کرو۔ آج پاکستان ہر سال سینکڑوں ارب روپے قرضہ اور سود ادا کررہا ہے۔ یہ ہم سب ادا کررہے ہیں۔ ہم سب اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے خاموش سپاہی ہیں۔ ایک نعرہ مستانہ، ایک گونج، ایک انکار ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ کے سپاہیوں میں شامل کرسکتا ہے اور قرض اور سود کی لعنت سے بھی آزاد۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved