تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     27-12-2020

2020ء میں پاکستان کی برآمدات کیسی رہیں؟…(3)

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اعدادوشمار کے مطابق 2019ء میں پاکستانی چاول کی برآمدات دو ارب 48 کروڑ 94 لاکھ 50 ہزار ڈالر تھیں‘ جبکہ 2020 ء میں یہ کم ہو کر دو ارب 34 کروڑ 21 لاکھ 61 ہزار ڈالر رہ گئی ہیں۔ 2020ء میں تین لاکھ 64 ہزار 169 ٹن چاول برآمد کیا گیا ہے جبکہ 2019ء میں یہ مقدار چار لاکھ 95 ہزار 280 ٹن تھی۔ اگر اکتوبر 2020 ء کا اکتوبر 2019ء سے موازنہ کیا جائے تو چاول کی برآمدات میں 45 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ کورونا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے حالانکہ اس مہینے میں پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے بند مارکیٹس کافی حد تک کھل چکی تھیں‘ لیکن سال کے آخر میں چاول کی برآمدات کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے بھارت کو باسمتی چاول کی برآمدات میں ٹکر دی ہے‘لیکن کیا ٹکر دی ہے‘ کون سا نیا فائدہ پاکستان کو حاصل ہوا ‘یہ نہیں بتایا گیا ہے۔میرے سامنے جب یہ خبر آئی تو مجھے خیال آیا کہ اپریل 2020ء میں کوویڈ کے دوران بھارتی مارکیٹ بند ہونے کی وجہ سے پاکستانی چاول کی برآمدات میں پچھلے سال کے اسی مہینے کی نسبت 54 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ گلف مارکیٹ پر چونکہ بھارتی چاول کا قبضہ ہے اس لیے لاک ڈاؤن کی وجہ سے شدید قلت پیدا ہو گئی تھی‘ تب پاکستان نے بہترین ریٹ پر گلف ممالک کو چاول سپلائی کیے تھے۔ شاید اسی خبر کو بنیاد بنا کر بھارت کو ٹکر دینے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ میں نے جب تفصیل جاننے کے لیے مختلف اداروں سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ اس ماہ چاول کی برآمدات میں پچھلے ماہ کی نسبت اضافہ دیکھا گیا ہے جس میں باسمتی چاول بھی شامل ہے ‘لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ پاکستان نے بھارت کو کس طرح ٹکر دے دی میں‘ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر بات کی جائے کہ پاکستانی چاول کو بھارتی چاول پر برتری حاصل ہے تو وہ کونسی نئی بات ہے‘ پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی چاول کی کوالٹی بھارتی چاول سے بہتر ہے۔ اس کی وجہ بھارت کا چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے جان لیوا ادویات کا استعمال ہے۔ پہلے بھارت یورپ اور امریکہ کو چاول برآمد کیا کرتا تھا لیکن جان لیوا کیمیکلز کے استعمال کی وجہ سے بھارت کو دیے گئے سارے آرڈرز کینسل کر دیے گئے اور پاکستانی تاجروں نے اس کمی کو پورا کیا۔ پہلے پاکستان تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چاول یورپ اور امریکہ کو ایکسپورٹ کرتا تھا اور آج اس کی مالیت ساڑھے چار ملین میڑک ٹن سے زیادہ ہے۔ چاول کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر نے بتایا کہ اگر آپ یورپ اور امریکہ میں جا کر چاول خریدیں تو وہاں دو ہی نام استعمال ہوتے ہیں‘ باسمتی یا پاکستانی باسمتی چاول۔ یہ دونوں چاول پاکستانی باسمتی ہیں۔بھارت بھی مارکیٹ میں باسمتی کے نام سے چاول برآمد کر رہا ہے لیکن حفظان ِصحت کے سخت اصولوں کا جو معیار ان ممالک میں طے کیا گیا ہے بھارت اس میں مکمل طور پر ناکام ہے اور چاول نہیں بیچ پا رہا۔ 2020ء میں ہی چند ماہ قابل بھارت نے یورپی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کی اور پاکستانی باسمتی کو اپنے نام سے رجسٹرڈ کروانے کی کوشش بھی کی جو کہ ناکام ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک تمام ترقی یافتہ ممالک میں خطرناک پیسٹی سائیڈ استعمال کرنے والے ممالک سے تجارت ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔اس طرح وقت کے ساتھ معیار مزید بڑھے گا اور بھارتی چاول کی مارکیٹ محدود ہوتی جائے گی۔ اس حوالے سے جب میری پاکستانی رائس ایسوسی ایشن کے وائس چیئر مین فیصل جہانگیر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے چاول یورپی کوالٹی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار بھارت سے اسی لیے کم ہے کہ ہم پیدوار بڑھانے کے لیے خطرناک کیمیکلز استعمال نہیں کرتے‘ لیکن کچھ شعبوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے جس سے چاول کی پیدوار زیادہ حاصل کی جا سکتی ہے۔چاول کی کٹائی کے لیے جدید مشینری کا استعمال ناگزیر ہو گیا ہے۔ گندم کی کٹائی والی مشینوں سے جب مونجی کاٹی جائے گی تو نقصان ہو گا۔ پاکستان بھی پیداوار بڑھانے کے لیے ادویات استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کا فائدے سے زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم گلف کی مارکیٹ حاصل کر لیں لیکن یورپ اور امریکہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ بھارت کا چاول سستا ہونے کی وجہ سے زیادہ بکتا ہے۔ جس دن کوالٹی پر عدم برداشت کی پالیسی آ گئی بھارت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ چاول کی تجارت کو انڈسری کا درجہ دیا جائے تا کہ بینکوں سے قرض لینے میں آسانی رہے۔ اگر بینک ہمیں آسان شرائط پر قرض فراہم کریں تو ہم چند ماہ میں چاول کی برآمدات کم از کم ایک ارب ڈالرز سے زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔
بھارت چاول کی برآمدات میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے جس کی وجہ اسے انڈسٹری ڈکلیئر کرنا بھی ہے۔ بھارتی حکومت تاجروں کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سطح پر چاول کی مارکیٹنگ بھی کرتی ہے۔ یہ مارکیٹنگ اتنی کامیاب ہے کہ کم کوالٹی کا چاول بھی ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ باسمتی پاکستانی برانڈ ہے لیکن باسمتی کے نام سے اتنی مشہوری کی گئی ہے کہ اگر چاول پر صرف باسمتی لکھا ہو تو دنیا اسے بھارتی چاول سمجھنے لگتی ہے۔ پوری دنیا میں وفود بھیج کر مہم چلائی جاتی ہے‘ اس کے علاوہ بین الاقوامی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز کو استعمال کر کے اشتہارات بنوائے اور لگوائے جاتے ہیں‘ لیکن پاکستان کی رائس ایسوسی ایشن کے پاس اتنے فنڈز ہی نہیں ہیں کہ وہ اشتہاری مہم کے اخراجات برداشت کر سکے۔ اگر کچھ تاجر مل کر اس پر کام بھی کریں تو ایک مرتبہ کچھ فنڈز اپنی جیب سے لگا لیں گے لیکن اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا کیونکہ مارکیٹنگ ایک مرتبہ کرنے والا کام نہیں ہے‘ یہ ایک مستقل عمل ہے۔ جس طرح گھڑی کی سوئی ایک مخصوص وقفے کے بعد آگے بڑھتی ہے مارکیٹنگ بھی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔ مخصوص وقفے کے بعد ٹک ٹک ہونا‘ اسے بار بار دکھایاجانا اور دنیا کو بتانا ضروری ہے کہ ہمارا چاول سب سے بہتر ہے۔ 
2020ء کے اختتام پر حکومت سے گزارش ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے جہاں وہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مراعات دے رہی ہے وہاں رائس انڈسٹری پر بھی توجہ دی جائے۔ ٹیکسٹائل شعبے کو بجلی 9 روپے فی یونٹ مل رہی ہے جبکہ رائس انڈسٹری کو 25 روپے فی یونٹ چارج کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسٹائل والے کپاس درآمد کر کے گارمنٹس برآمد کر رہے ہیں جبکہ رائس والے کچھ درآمد کیے بغیر یورپ اور امریکہ کو چاول برآمد کر رہے ہیں۔ جس طرح ٹیکسٹائل والوں کے لیے پالیسی ان کی مرضی کے مطابق ڈیزائن کی گئی ہے اسی طرح چاول والوں کے لیے بھی پالیسی ان کی مرضی کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ اکثر کاموں میں حکومت کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا‘ صرف انتظامی طاقت کا استعمال ہی بہت سے مسئلے حل کر دیتا ہے۔ سرکار کو درست راستہ تلاش کرنے اور اس پر کامیاب حکمت عملی بنانے کے لیے بھی کسی خاص محنت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نجی شعبے نے سب لوازمات پورے کر کے رکھے ہوتے ہیں کیونکہ وہ حالات ‘ واقعات اور ٹیکنیکل معاملات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ اگر کسی معاملے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت بھی ہے تو حماد اظہر صاحب جیسے قابل لوگ حکومت کے پاس موجود ہیں‘ ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔میرا ماننا ہے کہ رائس انڈسٹری کی طرف تھوڑی سی حکومتی توجہ ملکی زرمبادلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved