تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     28-12-2020

بے نظیربھٹو اور تاریخ

شخصیات کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتے وقت‘ تاریخ اتنی عجلت کا مظاہرہ کم کرتی ہے‘ جیسی عجلت اس نے بے نظیر بھٹو کے باب میں دکھائی۔ صدیاں گزر جاتی ہیں مگر افراد کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ انسان گروہوں میں بٹے رہتے ہیں۔ ایک نسل کے لیے تو یہ کم ہی ممکن ہوا کہ ہے وہ کسی فرد کو متنازع سے متفقہ بنتا دیکھے۔ یہ اتفاق سو فیصد کبھی نہیں ہوتا۔ مراد ایک معاشرے کا سوادِ اعظم ہے جو کسی کو متفقہ قومی شخصیات میں شامل کر لے۔ اس کا احترام گروہی تعصب کی سرحدوں سے نکل جائے۔
مذہبی شخصیات میں‘ میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو دیکھا ہے کہ وہ متنازع حیثیت سے بلند ہوئے اور مسلمانوں کے متفقہ علما کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ 1970ء تک روایتی مذہبی گروہ انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ تدریجاً تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ آج شاید ہی کوئی دیوبندی‘ بریلوی‘ شیعہ یا اہلِ حدیث عالم ہو گا جو اُن کو امت کے مشترکہ علمی سرمائے کا حصہ نہ سمجھتا ہو۔ اب مولانا کا شمار ان علما میں ہوتا ہے جن کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں بھی کم از کم چالیس سال لگے؛ تاہم ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں ادوارایک نسل نے دیکھے۔ 
تاریخ کے وسیع تر تناظر میں تویہ کوئی انہونی بات نہیں۔شخصیات جب ماضی کا حصہ بنتی ہیں توان کے بارے میں تعصبات کم ہوتے چلے جاتے ہیں‘ یہاں تک کہ مشترکہ ورثہ قرار پاتی ہیں؛ تاہم تاریخ شخصیات کے بارے میں فیصلہ سناتے وقت برسوں انتظار کراتی ہے‘اس عجلت کا مظاہرہ کم کرتی ہے جو ہم بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں دیکھ رہے ہیں۔یہ تمام سفر صرف بارہ برس میں طے ہو گیا۔
میرا سماجی پس منظر ایسا ہے کہ بھٹو صاحب کو بچپن ہی سے ایک وِلن کے طور پر دیکھا‘مغربی تہذیب کا نمائندہ جو ہماری مذہبی و سیاسی روایات ہی کے لیے نہیں‘قومی مفاد کے لیے بھی شدید خطرہ ہے۔ سوشلزم ہمارے لیے کفر تھا۔اپنے عہدِ اقتدار میں انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جوظالمانہ برتاؤ کیا‘ ان میں ہماری ممدوح شخصیات بھی شامل تھیں۔ ہم اسی فضا میں بڑے ہوئے اور بھٹو صاحب کے بارے میں یہ رائے ان کے پورے خاندان تک وسیع ہو گئی۔
بھٹو خاندان کے بارے میں یہ تاثر ایک وسیع تر حلقے میں پایا جاتا تھا‘خاص طور پر اُن لوگوں میں جو مذہبی پس منظر رکھتے تھے۔اس کانقطۂ عروج 1993ء کے انتخابات تھے جب جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت کے وابستگان نے بھی اپنے امیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ مسلم لیگ ‘پیپلزپارٹی کی سطح کی برائی ہے۔تب یہ حلقہ سوچ نہیں سکتاتھا کہ کوئی برائی اس سطح کو چُھو سکتی ہے جہاں پیپلزپارٹی کھڑی ہے۔
اس پہ مستزاد مجھ جیسے مذہبی لوگوں کا غرورِ تدین۔ اپنے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ ہم تو خدا کے منتخب لوگ ہیں۔ دوسرے لوگ ہماری مثل کیسے ہو سکتے ہیں؟ سوشلزم کو اپنی معیشت کہنے والے تو خدا کے باغی ہیں۔ ہمارا ان کا کیا مقابلہ۔ 
1999ء کے مارشل لا نے اس سیاسی تقسیم پر پہلی کاری ضرب لگائی اورمعاشرتی سطح پرسوچ کا ایک نیاسفر شروع ہوا۔ پہلی بار بھٹو مخالف طبقے میں سیاست کو ایک نئے زاویے سے دیکھا گیا۔اس بارجمہوریت کوسیاسی تقسیم کی اساس مان لیا گیا۔یہ جان لیا گیا کہ اس سے پہلے قوم جس تقسیم کا شکار تھی‘ وہ جوہری نہیں‘اطلاقی تھی۔سیاست میں اصل تقسیم جمہوریت کی حامی اور جمہوریت مخالف قوتوں کے مابین ہے۔سیاسی جماعتیں اس تقسیم کے مطابق ایک دوسرے کی حریف نہیں‘حلیف ہیں۔
یہ مان لیا گیا کہ اس ملک کودرپیش بنیادی چیلنج عوام کو حقِ حاکمیت سے محروم کرنا ہے۔اصل حریف وہ گروہ ہے جوعوام کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتاہے۔جوچاہتا ہے کہ قومی مفاد کا تعین عوام نہیں‘وہ کرے۔عوام اسی کو قومی مفاد سمجھیں‘جسے وہ قومی مفاد قرار دے۔ سیاسی جماعتوں نے یہ مان لیا کہ انہیں عوام کی حاکمیت کے بارے میں یک زبان ہونا چاہیے۔ان کا اختلاف ملکی مسائل کے حل کے باب میں ہے۔
یہ سوچ جیسے جیسے مستحکم ہوتی گئی‘ سیاسی خیالات بدلتے گئے۔ اصولی سطح پر‘ سیاست میں وہ تقسیم باقی نہ رہی جو ماضی میں تھی۔ جو کبھی رائٹ ونگ کہلاتا تھا‘ اسے اندازہ ہو گیا کہ ملک کا اصل مسئلہ نظریاتی نہیں اورپیپلز پارٹی والے بھی مسلمان ہیں۔ اس طبقے کو یہ احساس بھی ہوا کہ اگر ملک جمہوری اصولوں پر آگے بڑھا تو ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بن سکتا جو قوم کی اجتماعی امنگوں سے متصادم ہو۔ سوشلزم ویسے ہی قصۂ پارینہ بن گیا۔
پیپلز پارٹی نے بھی جان لیا کہ اس ملک کو ایک خاص حد سے زیادہ لبرل نہیں بنایا جا سکتا۔ سلمان تاثیر کے واقعے سے اس پارٹی نے بہت کچھ سیکھا۔ اس لیے نظریات کے میدان میں تو اختلاف کم و بیش ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ کا معاملہ بھی یہ ہوا کہ مذہبی جماعتوں سے راستہ جدا کر کے‘ اس کے نظریات میں بھی تبدیلی آئی اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے مذہبیت سے لبرل اقدار کی طرف پیش قدمی کی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں اپنے اپنے دائروں سے باہر آئیں جن سے ان کے مابین نظری فاصلہ کم ہو گیا۔
بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل نے ذہنی و فکری تبدیلی کے اس عمل کو مہمیز دے دی۔ 27 دسمبر2007 ء کی رات شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں صفِ ماتم نہ بچھی ہو۔ بے نظیر کا غم ان لوگوں نے بھی منایا جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی تقسیم کی تھی۔اس رات نواز شریف کی آنکھوں میں جو آنسو دیکھے گئے‘انہیں کوئی شقی القلب ہی مصنوعی کہہ سکتا ہے۔یہ وہی نواز شریف تھے‘پیپلزپارٹی کانام سن کر‘ جن کا خون کھول اُٹھتا تھا۔بے نظیر کی شہادت نے قلبِ ماہیت کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
1999ء سے شروع ہونے والے اس سیاسی سفر کا ایک پڑائو 'میثاقِ جمہوریت‘ بھی تھا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس پر کتنا عمل ہوا۔اس دستاویز کی اپنی اہمیت ہے جو کم نہیں ہو سکتی۔یہ سفر آگے بڑھتاہوا یہاں تک آ پہنچا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی برسی کی سب سے بڑی تقریب میں مریم نواز شریک ہیں اور انہیں خراج ِ تحسین پیش کر رہی ہیں۔بے نظیر بھٹو نے چند سالوں میں ایک ایسی لیڈر کی حیثیت اختیار کر لی ہے جو غیر متنازع ہے۔
اپنے عہد میں کوئی سیاسی شخصیت شاید ہی غیر متنازع ہو۔پاکستان بننے کے بعد دیکھیے۔کیا محترمہ فاطمہ جناح غیر متنازع تھیں؟ایک بڑا طبقہ ایوب خان کا ہم نوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔ مس فاطمہ جناح لیکن آج پیپلز پارٹی کی ممدوح شخصیات میں شامل ہیں۔یہ ان کے بارے میں تاریخ کا فیصلہ ہے۔کچھ ایسا ہی فیصلہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی تاریخ نے سنا دیا۔نہ صرف سنایا بلکہ بہت عجلت کے ساتھ۔
آج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ‘دونوں کو یہ بات سمجھ میں آ چکی کہ ہم پہ مشترکہ احسان ہیں غمِ الفت کے‘۔ یہ بات مذہبی طبقے کو بھی سمجھ آ رہی ہے۔قومی سطح پہ یہ وحدت ِفکر پیدا کرنے کا سہرا ان قوتوں کے ہاتھ ہے جنہوں نے بار بار جمہویت کو اپنے گھر کی کنیز بنانا چاہا۔بے نظیر بھٹو کی برسی پہ سیاسی قوتوں کا اجتماع اعلان ہے کہ جمہوریت نے اب کنیز بننے سے انکار کر دیا ہے۔
لمبی ہے غم کی شام‘ مگر شام ہی تو ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved