تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-12-2020

بھارت کی جمہوریت فرضی

بھارت میں کسانوں نے اپوزیشن جماعتوں پر مہربانی کر دی ہے۔ اپوزیشن کو چھ سال ہو چکے ہیں اور وہ اب تک ہوا میں مکے مارتی رہی ہے‘ لیکن اب، کسانوں کی مہربانی سے، اس کے ہاتھ میں زنگ آلود چاقو آ گیا ہے۔ اپوزیشن والے اسے جتنا مودی سرکار کے خلاف چلاتے ہیں، اتنا ہی ان کے خلاف جاتا ہے۔ اب راہول گاندھی، جو حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے ولی عہد شہزادے ہیں، کسانوں کے بجائے صدر ہند تک پہنچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کسان تحریک کے حق میں صدر کو دو کروڑ دستخطوں کے ساتھ ایک میمورنڈم پیش کیا ہے۔ دو کروڑ بہت کم ہیں۔ اسے 100 کروڑ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر دو کروڑ افراد واقعی اس پر دستخط کرتے، تو راہول جی ان میں سے کم از کم دو لاکھ کو دہلی لاتے۔ ان کی بہن پریانکا کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ اس پر ان کا اعتراض درست ہو سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر آپ کا یہ کہنا کہ ہندوستان کی جمہوریت جعلی، مصنوعی، خیالی ہے، یہ بالکل غلط بات ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت، اپنی تمام تر کوتاہیوں‘ خامیوں اور ناکامیوں کے باوجود اب بھی دنیا کی سب سے بڑی اور کسی حد تک بہترین جمہوریت کی حیثیت رکھتی ہے۔ راہول کا یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ جو بھی مودی کی مخالفت کرتا ہے‘ اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ آج ہندوستان میں آزادی کی کیا کمی ہے؟ جو چاہے، بولے اور لکھ دے۔ اسے کون روک رہا ہے؟ بھارتی اخبارات، صحافی اور ٹی وی چینلز خوشامدی، بزدل، لالچی ہیں... وہ اپنا ایمان بیچ رہے ہیں۔ وہ خود کو دبا رہے ہیں۔ راہول کی دادی نے ایمرجنسی میں انہیں دبا دیا تھا۔ خیالی جمہوریت کے بارے میں اس وقت پانچ سات سال کے راہول کو کیا معلوم ہو گا؟ جہاں تک پارٹی کی داخلی جمہوریت کا تعلق ہے، یوراج کو کبھی بھی اس سوال کو چھونے کی ہمت نہیں ہے۔ نرسمہا رائو کی مدت کو چھوڑ کر، کانگریس گزشتہ 50 سالوں میں ایک نجی کمپنی بن چکی ہے۔ اس میں اب بھی بہت قابل اور با صلاحیت رہنما موجود ہیں، لیکن ان کی حیثیت کیا ہے؟ جماعتوں کی داخلی جمہوریت کا خاتمہ ہی بیرونی جمہوریت کے خاتمے کی وجہ ہوتی ہے۔
کانگریس: رہنما اور پالیسی؟
بالآخر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ان 23 رہنمائوں کی ایک میٹنگ بلائی جنہوں نے انہیں کانگریس کی قیادت اور تنظیم کے بارے میں ایک خط بھیجا تھا۔ انہوں نے یہ اجلاس حیدر آباد اور بہار کے انتخابات میں بری طرح شکست کھانے کے بعد بلایا اور ایسے وقت میں جب بنگال میں کانگریس کا جھاڑو پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے کیا اشارہ ملتا ہے؟ کیا یہ نہیں ہے کہ کانگریس بوڑھی ہو چکی ہے، تھک گئی ہے اور الجھن میں ہے؟ جو میٹنگ ہوئی اس میں کیا ہوا؟ پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ کے بارے میں بھارتی عوام تفصیل سے نہیں جانتے ہیں۔ کانگریس کارکنان بھی اس سے بے خبر ہیں۔ کچھ اخبارات میں آنے والی خبروں سے، یہ توقع کی جا رہی ہے کہ کانگریس میں تنظیمی انتخابات ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد داخلی جمہوریت متعارف کروائی جائے گی۔ اب تک، دنیا کی یہ پرانی اور بہت بڑی پارٹی نجی لمیٹڈ کمپنی کی طرح چل رہی ہے۔ اب اس نے ماں بیٹے یا بھائی بہن پارٹی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ کسی بھی نجی کمپنی کی طرح اس پارٹی میں بھی چیئرمین سے لے کر نچلے عہدے دار تک سب کو نامزد کیا گیا ہے۔ اب اگر تنظیمی انتخابات ہوئے تو وہ بھی صوبائی اور ضلعی پارٹی تک ہی محدود رہیں گے۔ صدر اب بھی نامزد ہوں گے‘ یعنی منتخب نہیں کئے جائیں گے۔ اس اجلاس میں کسی نے بھی دو ٹوک الفاظ میں صدر کے انتخاب کے بارے میں بات کرنے کی ہمت نہیں کی۔ یہاں تک کہ اگر صدر منتخب ہوتا ہے تو راہول اور پریانکا کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کون کرے گا؟ یہ جلسہ بھی خوشامدیوں اور جی حضوری کرنے والوں کا اڈہ ثابت ہوا۔ کانگریس جیسی بڑی پارٹی کی موجودہ حالت زار کا تجزیہ بھی اس میٹنگ میں نہیں کیا گیا۔ کانگریس پارٹی میں اب بھی تجربہ کار اور اہل قائد ہیں اور اس کے ممبران ملک کے تقریباً ہر ضلع میں موجود ہیں، لیکن اگر اس کی اعلیٰ قیادت کا رویہ اسی طرح برقرار رہا تو پھر گویا وہ اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے۔ کوئی اسے بچا نہیں سکتا۔ کانگریس کو آج رہنما اور پالیسی‘ دونوں کی اشد ضرورت ہے۔
نیپالی پارلیمنٹ کو کیوں تحلیل کیا گیا؟
وزیر اعظم کھڑگ پرساد اولی نے نیپال کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے۔ اب اپریل اور مئی میں وہاں نئے انتخابات ہوں گے۔ نیپال کی سپریم کورٹ میں بہت سی درخواستیں دائر کی گئی ہیں‘ جن میں کہا گیا ہے کہ نیپال کے آئین میں پارلیمنٹ کو وسط میں تحلیل کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عدالت اس فیصلے کو الٹنے یعنی بدلنے کی ہمت کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اولی نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ حکمران نیپالی کمیونسٹ پارٹی کے دونوں کیمپوں میں مسلسل اٹھا پٹک ہو رہی تھی۔ ایک کیمپ کا قائد پشپ کمل دہل پرچندا ہے اور دوسرا گروپ اولی کا ہے۔ اولی کو اس بنیاد پر وزیر اعظم بنایا گیا تھا کہ وہ آدھی مدت کے لئے حکمرانی کریں گے اور باقی آدھی مدت میں پرچنڈ، جس طرح یہاں بھارت میں مایا وتی اور ملائم سنگھ نے یو پی میں ایک معاہدہ کیا تھا۔ لیکن نظر یہی آتا ہے کہ اب اولی اپنے تخت سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے، جس کی وجہ سے پرچنڈا کیمپ نے اس کی کرسی کو ہلانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے پہلے اولی پر بد عنوانی کا الزام لگایا۔ کھلے عام خطوط لکھے گئے، جس میں ایک سڑک کی تعمیر کے امریکی پروجیکٹ میں 50 کروڑ روپے کے خورد برد کا الزام ہے۔ پھر لیپو لیکھ تنازع کے بارے میں بھارت کے خلاف خاموشی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے علاوہ من مانے حکومتی فیصلوں اور پارٹی تنظیموں کو نظر انداز کرنے کی بھی شکایات تھیں۔ اولی بھی کم دائو نہیں چلے۔ اس نے لیپو لیکھ کے معاملے میں ہندوستان کے خلاف محاذ کھولا۔ معاہدہ سو گولی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ہندوستانی علاقوں کو نیپالی سرحد میں دکھایا۔ اولی کے 'قوم پرستانہ فیصلہ‘ کو پارلیمنٹ میں آل پارٹی کی حمایت حاصل ہوئی۔ چینی خاتون سفیر ہوو یانکی دونوں دھڑوں کے مابین سرپنچ کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اپنے ہندوستان مخالف امیج کو ظاہر کرنے کے لئے، اولی نے بھی ہندی میں بولنے پر پابندی لگانے اور نیپالی پارلیمنٹ میں دھوتی کرتا پہننے پر پابندی کا قدم اٹھایا۔ تقریباً تیس سال پہلے، میں نے سپیکر پارلیمنٹ دمنتھ ڈنگنا اور گیجندر بابو سے مل کر اس کی اجازت دلائی تھی۔ نیپالیوں سے شادی کرنے والے ہندوستانیوں کو نیپالی شہریت لینے میں سات سال لگیں گے، اور اس طرح کے قوانین نافذ کر کے اولی نے یقیناً اپنے قوم پرستانہ امیج کا اظہار کیا ہے‘ لیکن کچھ دن قبل انہوں نے ہندوستان کے قریب بھی جانے کا اشارہ کیا؛ تاہم حکمران پارلیمانی پارٹی میں اپنی دال پتلی دیکھ کر انہوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا۔ اس پارلیمنٹ کو وزیر اعظم گرجا پرساد کوئیرالا نے بھی تحلیل کیا تھا، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اب اگلے انتخابات میں اولی جیتیں گے یا نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved