دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
حضرت امیرِ معا ویہؓ، نامور سپہ سالار طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی جانشین پاک بحریہ ہماری سطح آب یا زیر آب، فضا ہو یا ساحل، پاکستان کے سمندروں کی پاسبان، شمالی بحیرہ عرب میں 2 لاکھ 40 ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل اکنامک زون اور مشرق میں سرکریک سے لے کر مغرب میں گوادر تک پھیلی ایک ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کے دفاع اور قومی اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ بحری مفادات کے تحفظ کے لیے اعلیٰ حربی صلاحیتوں سے مالا مال جدید جنگی جہاز، وارشپ، سب میرین، ایئر کرافٹس، سپیشل فورسز اور ڈرون طیارے سمندر کے سینے کو چیرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ بلاشبہ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی جیو سٹریٹیجک صورتحال اور بڑھتے ہوئے میری ٹائم چیلنجز کے تناظر میں ایک مضبوط بحری فوج کی ضرورت و اہمیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ الحمدللہ آج ہماری بحریہ بحری جنگی جہازوں کی تعمیر کے میدان میں خود انحصاری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ملکی تعمیر کردہ متعدد بحری پلیٹ فارمز جیسے F-22P فریگٹس، سب میرینز اور اور این پی ایس عظمت اول سے لے کر چہارم تک کی تعمیر و ڈیزائن پاک بحریہ کی ترقی کی اعلیٰ و روشن مثالیں ہیں۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی تمام ضرورتوں کا احاطہ کرنے اور اس کے مطابق اقدامات کرنے کیلئے پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) قائم کی اور اس نے کراچی شپ یارڈ کی بنیاد رکھی۔ یہ قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملکی سطح پر تیار کردہ پی این ایس عظمت 4 فاسٹ اٹیک کرافٹ میزائل کی بحری بیڑے میں شمولیت پاک بحریہ کی مسلسل کوششوں کا عملی نمونہ ہے۔ فاسٹ اٹیک کرافٹ (میزائل) جو عرف عام میں میزائل بوٹ کہلاتی ہے‘ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ کثیر المقاصد جنگی جہاز ہے۔ اس میزائل بوٹ کا ڈیزائن میری ٹائم ٹیکنالوجی کمپلیکس نے تیار کیا ہے جس میں جدید ہتھیار اور سینسرز نصب کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی اور دوسری میزائل بوٹ عظمت کلاس 1 اور 2 کو ہمارے دوست ملک چین میں تیار کیا گیا تھا۔ پہلی وارشپ کو جون 2012ء میں پاکستان نیوی کے بحری بیڑے میں شامل کیا گیا۔ دوسری میزائل بوٹ پی این ایس دہشت کو 2014ء میں نیول فلیٹ کا حصہ بنایا گیا۔ تیسری اور چوتھی فاسٹ اٹیک میزائل کرافٹ کی اندورنِ ملک تیاری نے پاک بحریہ کی جنگی صلاحیتوں کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ عظمت کلاس فاسٹ اٹیک کرافٹ (میزائل) 4 جدید ملٹی مشن جہاز ہے جس کی لمبائی 63 میٹر ہے اور وزن 560 ٹن، یہ 4 شافٹس کے ذریعے چلتا ہے اور اس کی رفتار 30 ناٹس ہے، میزائل کرافٹ مقامی طور پر تیار کردہ اینٹی شپ میزائلوں اور سینسرز سے لیس ہے۔ فاسٹ اٹیک کرافٹ میں دشمن کے ریڈاروں کی زد میں نہ آنے کی صلاحیت ہے۔ مقامی سطح پر تیار کیا جانے والا حربہ میزائل سسٹم بھی اس فاسٹ اٹیک کرافٹ پر نصب ہے جو مختلف النوع خطرات میں بھی کثیر نوعیت کے ٹاسک سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کی ایک خصوصی اہمیت یہ بھی ہے کہ اس میں مقامی طور پر تیار کردہ میزائل سسٹم نصب کیا گیا ہے۔ اس کرافٹ میں جو ہتھیار اور سینسرز نصب کئے گئے ہیں ان کی بدولت رفتار اور دشمن کے لئے خطرناک ہونے کے اعتبار سے اس کرافٹ کا کسی بھی جدید بحری ہتھیار سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
چیف آف دی نیول سٹاف نے سافٹ اٹیک کرافٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہو ئے کہا کہ یہ ایک نہایت اہم موقع ہے جب ملکی وسائل سے تیار کردہ فاسٹ اٹیک میزائل کرافٹ پاکستان نیوی فلیٹ میں شامل کی گئی۔ اندرونِ ملک تعمیر کئے جانے والے بحری جہازوں پر پاک بحریہ کی جانب سے اعتماد کے اظہار کے باعث پاکستان کی دفاعی برآمدات کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔ نیول چیف کا کہنا تھا کہ بحری شعبے میں موجود امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور اس سے جڑے چیلنجز سے بخوبی نمٹنے کے لئے ایک مؤثر، مضبوط اور خودکفیل بحریہ وقت کی اہم ضرورت ہے لہٰذا تیز رفتار اور جدید ترین میزائل کرافٹس کا حصول سمندر میں بروقت اور فوری ردعمل کی صلاحیت میں اضافے کے لیے ضروری ہے جوہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ بلاشبہ فاسٹ اٹیک 4 کی بحری بیڑے میں شمولیت سے نہ صرف نیوی کی قوت میں مزید اضافہ ہو گا، پاک بحریہ اور پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کی آپریشنل صلاحیت بڑھے گی بلکہ خطے کے امن و استحکام پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
خطے میں گزشتہ کئی سالوں سے سب میرین اور اینٹی سب میرین جنگ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ پاک بھارت افواج میں آبدوزوں کی بڑھتی ہوئی تعداد و کردار، آبدوز شکن ٹیکنالوجی اور ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے سیاسی اور سٹریٹیجک تعلقات ہیں۔ پاک بحریہ کا تیار کردہ 1700 ٹن فلیٹ ٹینکر پی این ایس معاون کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں تعمیر ہونے والا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔ جسے ترکی کے اشتراک سے تیار کیا گیا۔ یہ جہاز مختلف قسم کے میری ٹائم آپریشنز انجام دینے کی صلاحیت کا حامل ہے جن میں سمندر میں موجود پاک بحریہ کے دیگر جہازوں کو تیل اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی بھی شامل ہے۔ جہاز پر دو ہیلی کاپٹروں کی گنجائش موجود ہے۔ علاوہ ازیں پی این ایس معاون پر جدید ترین طبی سہولتیں بھی موجود ہیں جن کی بدولت یہ جہاز کسی بھی قسم کی قدرتی آفات کے دوران سمندر میں دورانِ سفر دوست ممالک کو طبی امداد بھی فراہم کر سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں سٹیٹ آف دی آرٹ کارویٹ پی این ایس تبوک کی بحری بیڑے میں شمولیت پاک بحریہ کی آپریشنل صلاحیت کے لیے اہم سنگ میل ہے۔ پاک بحریہ نے دو یرموک کلاس کارویٹس کے حصول کے لیے معاہدہ 2017ء میں طے کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کا پہلا جہاز پی این ایس یرموک رواں برس جولائی میں پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل کیا گیا۔ دوسرا جہاز پی این ایس تبوک ہے۔ علاوہ ازیں دفاعی خود مختاری کے ساتھ قومی مفادات کے حصول کے لئے اقوام متحدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اورکنونشن برائے سمندری قوانین کی روشنی میں بحر ہند میں ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرولز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاک بحریہ قومی بحری سرحدوں کے دفاع اور میری ٹائم اثاثوں کی حفاظت کے ساتھ اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ، بحر ہند اور عالمی پانیوں میں استحکامِ امن کے لیے بھی کوشاں ہے جبکہ 32 مالک پر مشتمل کثیر القومی بحری اتحاد کا مقصد بھی عالمی پانیوں میں مستحکم سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ پاک بحریہ نے میری ٹائم فورسز کا حصہ بن کر خطے میں میری ٹائم سکیورٹی آپریشنز، دہشت گردی اور منشیات کی نقل و حرکت کی روک تھام کے لیے متعدد آپریشنز سر انجام دیے ہیں۔ بحری تحفظ و سلامتی کے لیے مجموعی صورتِ حال میں بہتری لانے کے لیے علاقائی و دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا۔ بلاشبہ پاک بحریہ انسانیت کی بھلائی اور ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی میزبانی میں 42 ممالک پر مشتمل بحری امن مشقیں 2020ء کے انعقاد کے اعلان سے پاک نیوی نے دنیا کی بڑی بحری قوتوں میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ ان مشقوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ دس سال بعد روس نے اس میں شمولیت پر رضامندی کا اظہار کیا اور پہلی بار نیٹو اور روس کو اختلاف کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا گیا جو یقینا پاکستان کی بڑی سفارتی و عسکری کامیابی ہے اس نے بھارت میں ہلچل مچا دی ہے؛ تاہم بھارت کے لیے اس سے زیادہ پریشانی کی بات پاک چین بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ بحر ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے امریکا اور ناجائز ریاست اسرائیل سمیت بھارت کی بھی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ استعماری قوتوں نے پاکستان کو ''سی پیک‘‘ میں شمولیت سے روکنے کے لیے متعدد بار ڈکٹیشن دینے کی کوشش کی لیکن انہیں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان کے خلاف خفیہ عسکری کارروائیوں میں مسلسل مصروف بھارت نے افغانستان اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر گوادر کی اہمیت کم کرنا چاہی لیکن ایران نے بھارت کو چابہار منصوبے سے باہر نکال کر اس کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے پاکستان کی بحری حدود میں بحری تجارت اور سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہو گا اور ان تمام تجارتی سرگرمیوں کے تحفظ کے لیے ایک مستحکم بحریہ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دشمن جان لے کہ پاک بحریہ نے وطن عزیز کی سالمیت کے خلاف کسی بھی قسم کی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کے عزم کا اعادہ کر رکھا ہے۔