مسلم لیگ نواز کے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دو اراکین قومی اسمبلی کے مبینہ استعفوں کی سپیکر قومی اسمبلی کے دفتر کو موصول ہونے کی خبریں جیسے ہی میڈیا کی زینت بنیں تو نواز لیگ کے سیکرٹری جنرل نے یہ کہتے ہوئے نجی ٹی وی چینلز پر برسنا شروع کر دیا کہ جعلی حکومت نے اب ہمارے اراکین اسمبلی کے جعلی استعفے بھی تیار کرنا شروع کر دیے ہیں۔ نہ جانے وہ غصے کے عالم میں اور کیا کیا کہتے رہے لیکن مریم نواز صاحبہ جب سکھر میں مسلم لیگی ورکرز سے کنونشن سے خطاب کرنے کیلئے پہنچیں تو ان کا بیان سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کئی گھنٹے چمکتا رہا کہ ان کی جماعت کے دو اراکین قومی اسمبلی کے استعفے کسی نے غلطی سے سپیکر کو بھجوا دیے تھے۔ اب یہ استعفے سپیکر کے دفتر تک کیسے گئے‘ کس نے بھیجے‘ گھر کے کسی بھیدی کا کام تھا یا غلطی سے سپیکر تک پہنچ گئے‘ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ کسی ایسے شخص کا کام ہو جو بظاہر تو پارٹی کے ساتھ ہے لیکن اس کے دل میں کسی اور کا مقام ہے۔ اور ایسے درجنوں افراد کی کہانیاں اب میڈیا میں آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں۔
پی ڈی ایم کی موجیں اس لئے بھی ہیں کہ وزیراعظم کے اردگرد چھائے ہوئے چند لوگ‘ جنہیں پنجاب اور مرکز میں ترجمانی کا حق سونپا گیا ہے‘ وہ تمام محض یہ باور کرانے میں جتے ہوئے ہیں کہ ترقی کر کے اب وہ نائب وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں اور وزیراعظم، حکومتی اراکین اور اداروں پر ذاتی حملے کرنے والی اپوزیشن کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے ''جگتوں‘‘ کا سہارا لیا ہوا ہے۔ مقصد ان کا حکومت کا دفاع نہیں بلکہ اپنے آپ کو وزیراعظم ہائوس کا خاص الخاص کہلوانا ہے ورنہ وہ تو اس فقیر کی طرح ہیں جو حلوہ کھانے کے بعد اپنا کمبل لپیٹ کر اپنے ٹھکانے کو لوٹ جاتا ہے۔ یہ بھی سب امریکا سمیت اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ بد قسمتی کہہ لیجئے کہ مرکز اور پنجاب میں یہ گھس بیٹھئے چن چن کر ایسے لکھاریوں اور ورکروں سے بدلے لے رہے ہیں جو بائیس برسوں سے بغیر کسی لالچ کے عمران خان اور تحریک انصاف کا ساتھ دیتے چلے آ رہے تھے۔ ان میں سے کچھ نے مشیران کی جانب سے اپنی قیمت لگوانے سے انکار کی سزا پائی۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے ان کی چوکھٹ کے باہر ماتھا ٹیکنے کے بجائے تھک ہار کر اپنے اپنے گھروں میں بیٹھنا بہتر سمجھا۔
حالیہ ''جیل کی ملاقات‘‘ ملکی سیاست میں لگتا ہے کہ کچھ ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس کے لئے جس شخصیت کو سامنے لایا گیا ہے اس پر دوسری جنگ عظیم کا ایک واقعہ یاد آ گیا، جب برطانوی سرکار کو جرمنی کے مقابلے میں لینے کے دینے پڑ نے لگے اور جرمنی اور جاپان کی فوجیں انڈیا کی جانب بڑھنا شروع ہو گئیں تو تاج برطانیہ نے حکم جاری کر دیا کہ ہندوستان سے جس قدر بھی ہو سکے افرادی قوت فوج میں بھرتی کر کے جنگ کی آگ میں جھونک دی جائے۔ اس کے لئے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار سے لے کر بڑے بڑے زمینداروں تک‘ سب کو حکم ہوا کہ اپنے علا قوں سے مردوں کو فوج میں بھرتی کرائو۔ ایک ڈپٹی کمشنر کے علاقے کے ایک بڑے گائوں میں ایک تنور چلانے والی بوڑھی عورت کا دور دور تک چرچا تھا جسے لوگ مائی تابو کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ یہ بوڑھی خاتون اس قدر مہربان تھی کہ غریب لوگوں کو مفت میں روٹیاں اور سالن سبزی دیا کرتی تھی۔ پورا گائوں اس کی سخاوت پر اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کو اس کے اہل کاروں نے بتایا کہ اگر مائی تابو سے کہا جائے تو وہ ادھر ادھر کے دیہات سے سینکڑوں نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرا سکتی ہے۔ اگلے دن ڈپٹی کمشنر اپنے عملے کے ساتھ اس گائوں جا پہنچا اور علا قے کے تھانیدار سمیت سب مائی تابو کے تنور پر پہنچ گئے۔ گائوں کے نمبردار نے اماں تابو کو بتایا کہ انگریز سرکار جرمن فوج سے جنگ کر رہی ہے‘ جرمنی اور جاپان کا مقابلہ کرنے کیلئے انگریز کوفوجیوں کی ضرورت ہے۔ کسی نے بتایا ہے کہ اگر اماں تابو چاہے تو انگریزوں کو جرمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے علاقے کے جوانوں کو فوج میں بھرتی کرا سکتی ہے جس سے انگریز جرمنی سے جنگ جیت جائے گا۔ اماں تابو نے یہ سن کر کہا کہ انگریز سرکار کو جا کر بتائو کہ بات اگر اب ا ماں تابو تک پہنچ گئی ہے تو وہ جرمنوں سے صلح کر لیں۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے۔
مسلم لیگ نواز کے اہم لیڈر مصدق ملک کے یہ الفاظ ہر ٹی وی چینل کی زینت بنے اور اب سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے ہاٹ ٹاک بنے ہوئے ہیں کہ ملک کی مقتدر قوتیں تو اپوزیشن کی خواہش پر احتسابی قوانین میں ترامیم پر مکمل راضی تھیں لیکن جب یہ بل وزیراعظم کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے صاف اور کھلے الفاظ میں کہہ دیا۔ میری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ اگر یہ بل نافذ کرانے کا تہیہ کر لیا گیا ہے تو اس کے با وجود کہ اب میری عوام میں وہ پہلی سی مقبولیت نہیں رہی‘ جس کی وجہ ملک میں ہونے والی بے ہنگم مہنگائی اور میرے ہی چند دوستوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے کچھ ایسے سکینڈل ہیں جو سانپ بن کر ڈس رہے ہیں اور میری سیاسی ساکھ دائو پر لگ چکی ہے لیکن اس سب کے با وجود میں اس بل پر دستخط کرنے کے بجائے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دینا بہتر سمجھوں گا۔ اور اس عزم کا اعادہ انہوں نے حال ہی میں چکوال میں بھی سب کے سامنے کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہر ایک کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم کی کرسی پر جس کو چاہیں لا کر بٹھا دیں لیکن وہ نواز شریف کی لندن روانگی جیسا دھبہ دوبارہ اپنی شخصیت اور مقبولیت پر لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دیں گے۔
محمد علی درانی صاحب کی کوٹ لکھپت جیل لاہور میں میاں شہباز شریف صاحب سے ہونے والی ملاقات کے میرے سامنے کئی زاویے بنتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ایک بہت بڑے دھڑے کی میاں شہباز شریف کی قیادت میں علیحدگی کی صورت میں سندھ سے مسلم لیگ فنکشنل اور جی ڈی اے کا ادغام ہو سکتا ہے اور اگلے کسی بھی الیکشن میں ایک جانب ایم کیو ایم ان کی اتحادی بنے گی تو دوسری جانب بلوچستان کی برسر اقتدار پارٹیاں۔ محمد علی درانی صاحب کا سیاسی وزن سب جانتے ہیں کہ کتنا ہے۔ 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں انہیں جو ووٹ ملے‘ وہ کسی بھی طور قابلِ ذکر نہیں ہیں۔ اس لئے جیل میں میاں شہباز شریف سے ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے جن خیالات کا اظہار شروع کر رکھا ہے‘ وہی ہیں جو اس وقت پی ڈی ایم قیادت کے منہ سے بار بار سننے کو مل رہے ہیں۔ مقتدر قوتوں کے خصوصی ایلچی درانی صاحب کے نزدیک احتساب کا قانون سرے سے ہونا ہی نہیں چاہئے۔ وہ شکوہ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ اور حکومتیں نہیں چل سکتیں۔ درانی صاحب اور ان کے ہمنوا کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی بھی شخص ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر نے پر قانون کے کٹہرے میں آ چکا ہے تو اس پر قانون کو نرم ہی نہیں بلکہ مفلوج کر دیا جائے؟
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ جیل میں قید کسی بھی شخص سے ملاقات کی جا سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ کے مرکزی رہنما جاوید لطیف کہہ رہے ہیں کہ انہیں شہباز شریف سے ملاقات کی اجا زت نہیں ملتی تو بلاول بھٹو کی جیل میں شاہانہ طریقے سے ملاقات کس نے کرائی تھی؟ محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کے فوری بعد مریم نواز کا لندن سے منظور شدہ ٹویٹ میڈیا کی زینت بن گیا کہ کسی سے کوئی ملاقات یا ڈائیلاگ نہیں ہوں گے اور این آر او مانگنے والی حکومت کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملے گی۔ اس سے سیاسی منظر نامہ کسی حد تک واضح ہو جاتا ہے اور یہ اشارہ ملتا ہے کہ کہیں نہ کہیں مسلم لیگ کے آپس کے معاملات خرابی کا شکار ہیں۔