تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-12-2020

… ذرا آہستہ چل!

تیزی؟ بالکل ٹھیک مگر صرف وہاں کہ جہاں ناگزیر اور مفید ہو۔ تیز چلنا اچھی بات ہے مگر ہر جگہ تیز چلنا لازم ہے نہ مفید۔ ہم نے بہت کچھ اپنے طور پر طے کر رکھا ہے۔ آج کے انسان کا یہی مسئلہ اور مخمصہ ہے۔ کسی ایک معاملے میں اپنائی جانے والی طرزِ فکر و عمل کو بہت سے دوسرے معاملات میں، سوچے سمجھے بغیر، اپنالیا جاتا ہے۔ دل نہ چاہتا ہو تب بھی ایسی طرزِ فکر و عمل اپنائی جاتی ہے جو معاملات سے مطابقت رکھتی ہے نہ قابلِ ستائش ہی گردانی جاتی ہے۔ انسان نے ہزاروں سال کی فکری کاوشوں کے نتیجے میں جو کچھ پایا تھا اُسے منظم طریقے سے بروئے کار لانے کا عمل مسلمانوں کے عہدِ زرّیں میں شروع ہوا۔ پھر جب دنیا میں مسلمان اپنے اعمال کی خرابی کے نتیجے میں پستی اور زوال سے دوچار ہوئے تب مغرب کو ابھرنے کا موقع ملا۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ مغرب نے ایک طویل مدت ذہن کی تاریکی میں گزاری۔ جب مسلمان ''منوّر‘‘ تھے تب اہلِ مغرب تاریکی کے گڑھے میں گرے ہوئے تھے۔ پھر جب وقت نے پلٹا کھایا تو اہلِ مغرب نے ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک نئی دنیا کی تشکیل شروع کی۔ اور یوں اہلِ مغرب کا وہ عہدِ زرّیں یعنی مادّی ترقی کا دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
سولہویں، سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں دنیا کو اہلِ مغرب سے جو کچھ ملا اُس نے انیسویں صدی میں تیزی کی راہ پکڑی اور بیسویں صدی میں یہ تیزی ایسی بڑھی کہ دنیا کا رنگ ڈھنگ ہی تبدیل ہوگیا۔ اور اکیسویں صدی؟ یہ تو تیزی کا انتہائی حیرت انگیز نمونہ ہے۔ انسان نے ہزاروں سال کی ذہنی کاوشوں کے نتیجے میں جو کچھ پایا تھا وہ اپنی بہترین عملی شکل کے ساتھ آج ہمارے سامنے ہے۔ کل تک جو سہولتیں بادشاہوں تک کومیسر نہ تھیں وہ آج عام آدمی کو اِس طور میسر ہیں کہ ذرا بھی حیرت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی چیز جب عام ہو جائے تو اپنی انفرادیت اور نیرنگی کھو دیتی ہے۔ آج کے عہد کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہر شعبے میں پیش رفت اس قدر ہے کہ اب تجسّس اور حیرت کا مادّہ دم توڑ چکا ہے۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ سُرعت سے عبارت ہے۔ سارا زور اِس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ تیزی یقینی بنائی جائے۔ جب تمام معاملات تیزی کی نذر ہو جائیں تو منطقی نتیجے کے طور پر زندگی کی رفتار، بلا جواز طور پر ہی سہی‘ بڑھ جاتی ہے۔ آج کا انسان ہر معاملے میں تیزی چاہتا ہے۔ بہت سے معاملات میں غیر معمولی تیزی لازم نہیں مگر پھر بھی ہم ماحول سے اتنے متاثر رہتے ہیں کہ تیزی کو زندگی کا لازم جُز سمجھ کر اُسے گلے لگائے رکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ کیا واقعی معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں تیزی کو اپنائے بغیر ہم ڈھنگ سے جی نہیں سکتے؟ بہت کچھ ایسا ہے جو ماحول سے غیر محسوس طور پر ہم میں منتقل ہوتا ہے۔ ہم بہت کچھ تحت الشعوری سطح پر سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں تیزی کو اپنانا عمومی رجحان ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم بھی تیزی کو اپنانے پر مجبور ہیں۔ بڑے شہروں میں تیزی عمومی مزاج کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں غیر معمولی تیزی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اِن شہروں کے مکین کسی جواز کے بغیر تیزی کو حرزِ جاں بنائے ہوئے ہیں۔ خاکسار کو دو بار ممبئی جانے کا موقع ملا ہے۔ وہاں ہر شخص کسی جواز کے بغیر ہڑبونگ مچانے والی تیزی کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ نکتہ ٹھونس دیا گیا ہے کہ زندگی اُسی وقت زندگی کہلائے گی جب اُسے تیزی سے بسر کیا جائے۔ کسی بڑی کمپنی کا مالک یا چیف ایگزیکٹو اگر معاملات میں برق رفتاری چاہتا ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ کسی سیلیبرٹی کی زندگی میں تیزی ہو تو کوئی حیران نہیں ہوتا کہ اُس کا وقت قیمتی ہوتا ہے اور وہ تیزی کو زندگی کی بنیادی قدر بنائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ عام آدمی ہر معاملے میں اِتنی تیزی کیوں اپنائے ہوئے ہے کہ تمام ہی معاملات غیر منظّم ہوکر رہ جائیں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ممبئی میں خاصی نچلی سطح پر جینے والے بھی یہ تاثر دیتے ہیں گویا اُن کے پاس وقت نہیں۔ ایسا کرنے کا بظاہر کوئی جواز نہیں مگر پھر بھی صاف دکھائی دیتا ہے کہ لوگ ہر معاملے میں تیزی دکھاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ وقت کم ہے، مقابلہ سخت۔
زندگی کا ہر معاملہ ہم سے توجہ اور توازن چاہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ جہاں بھی نظر چُوکتی ہے، معاملہ بگڑ جاتا ہے۔ تیزی کا بھی یہی تو کیس ہے۔ بہت سے معاملات میں ہمیں تیز ہونا ہے اور دوسرے بہت سے معاملات میں ٹھہراؤ کو اپنانا ہے۔ اگر ہم معاملات کو گڈمڈ کردیں تو بنتے کاموں کو بھی بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ خرابیاں صرف اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب تمام معاملات کو ایک ہی اصول کے تحت نمٹانے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے عہد کا ایک بنیادی تقاضا سب کے شانہ بشانہ چلنے، ہم آہنگ رہنے کا ہے۔ ہم آہنگی یقینی بنائے بغیر ہم بھرپور زندگی بسرکرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر تدبّر، تحمل، توازن اور ٹھہراؤ کا تقاضا کرتی ہے اور ہم ہیں کہ ہر تقاضے کو بھول کر صرف اِتنا یاد رکھے ہوئے ہیں کہ معاملات کو تیزی کی نذر کرتے رہنا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ تیزی بھی غیر متعلق معاملات تک محدود ہے۔ جن معاملات میں واقعی تیزی اختیار کرنا ہے اُنہیں نظر انداز کرنے کی روش عام ہے۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں کے مجموعی ماحول کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور بہت کچھ حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں مگر اس حوالے سے پلاننگ نہیں کرتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پلاننگ کے بعد عمل کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ صرف تیزی دکھانے سے بات نہیں بنتی۔ اگر کوئی بڑے شہر میں اچھی زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہو تو محض تیزی دکھانے سے کام یوں نہیں چل سکتا کہ تیزی زندگی کو متوازن بنانے کی بنیادی شرط نہیں۔ ہر چیز اپنے تناظر میں اچھی لگتی ہے یا کام کی ثابت ہوتی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر اپنایا جانے والا رویہ ہمارے لیے پریشانی اور الجھن پیدا کرتا ہے۔ نئی نسل بیشتر معاملات میں تیزی کی دلدادہ دکھائی دیتی ہے۔ نمایاں ترین تیزی موٹر سائیکل یا کار چلانے کے معاملے میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ سفر تیزی سے کرکے وقت بچایا جائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ساری تیزی سفر کی حد تک ہونی چاہیے؟ ملنے جلنے کے معاملات میں بھی نئی نسل تیزی کی قائل دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ مل بیٹھنا مرغوب ہے اور سماجی حلقے بدلنے میں تیزی دکھانا بھی نئی نسل کا ایک بنیادی وتیرہ ہے مگر جہاں تیزی دکھائی دینی چاہیے وہاں تو دور تک یہ دکھائی نہیں دیتی۔ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے معاملے میں جتنی تیزی دکھانی چاہیے اُتنی تیزی ہمیں نظر نہیں آتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ کیریئر کے حوالے سے پلاننگ کا بھی ہے۔ ہر انسان کو عہدِ شباب ہی میں عملی زندگی زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے پلاننگ کرنی چاہیے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ناگزیر معاملات میں تیزی اپنانے کی صورت میں خود پر بہت جبر کرنا پڑتا ہے، منصوبہ سازی کے تحت جینا ہم سے ایثار کا طالب رہتا ہے۔ جہاں معاملات ہم سے ایثار کے طالب ہوں وہاں ہم پسپائی اختیار کرتے ہیں اور کچھوے کی سی رفتار کو زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ اپنے حقوق کے لیے ہم برق رفتاری کو حرزِ جاں بنانے سے گریز نہیں کرتے لیکن اگر کسی کا حق دینا ہو تو ہماری رفتار کچھوے کی سی ہو جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو ہم گھونگھے کی نقّالی کرنے لگتے ہیں!
انسان چاہے کسی بھی دور یا ماحول میں جی رہا ہو، تیزی صرف وہاں اچھی لگتی ہے جہاں ناگزیر ہو۔ جہاں ناگزیر نہ ہو وہاں تیزی معاملات کو بگاڑ دیتی ہے۔ اِسی طور جہاں ٹھہراؤ کو زندگی کا حصہ بنانا لازم ہو وہاں ٹھہراؤ ہی اچھا لگتا ہے۔ ہمیں تیزی اور ٹھہراؤ کے درمیان توازن رکھنا ہے۔ غیر ضروری تیزی ہمیں وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہونے سے روک دیتی ہے۔ ایسے میں ہم زندگی کو زیادہ بامقصد اور بامعنی بنانے کے قابل نہیں ہو پاتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved